• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے کچھ طاقتور حلقے اس بات پر تلے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ انہیں بہرحال کالا باغ ڈیم بنا کے رہنا ہے، چاہے اس کیلئے تربیلا ڈیم کو مردہ قرار دے کر اس کے بجائے کالا باغ ڈیم بنانا پڑے۔ یہ رائے حال ہی میں کچھ اخبارات میں شائع ان خبروں کی وجہ سے پیدا ہوئی جن میں کہا گیا ہے کہ تربیلا ڈیم سے ریت کو صاف کرنے والا منصوبہ نہ اقتصادی طور پر اور نہ فنی طور پر قابل عمل ہے۔ اس رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ تربیلا ڈیم سے ریت صاف کرنے پر آنے والے اخراجات نیا ڈیم بنانے پر آنے والے اخراجات سے زیادہ ہوں گے یعنی تربیلا ڈیم کو قربان کرکے کوئی نیا ڈیم بنایا جائے حالانکہ اس خبر میں تربیلا ڈیم سے ریت صاف کرنے کے بجائے تربیلا کے چوتھے توسیعی منصوبے پر عمل کرنے کی بات کی ہے مگر سندھ کے متعلقہ حلقوں کا خیال ہے کہ یہ سارا راگ کالا باغ ڈیم بنانے کیلئے شروع کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں ایک دلچسپ انکشاف یہ کیا گیا ہے کہ 1960ء میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جو انڈس بیسن ٹریٹی ہوا تھا اس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ پاکستان ہر دس سال کے بعد تربیلا ڈیم کی سائز کا ڈیم بنا سکے گا مگر اس بات پر افسوس ظاہر کیا گیا ہے کہ چار دہائیاں گزرنے کے باوجود اب تک دریائے سندھ پر ایک ڈیم بھی نہیں بنایا جاسکا۔ سندھ کے آبپاشی کے ماہرین نے اس ”انکشاف“ کو سختی سے رد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ انڈس بیسن ٹریٹی میں ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ تربیلا ڈیم کے ناکارہ ہونے کے بارے میں انکشاف کرتے ہوئے متعلقہ خبر کے مطابق حکومت کے سینئر افسران کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ تربیلا رزر وائر سے ریت نکالنے کیلئے مطلوبہ اسٹیڈی کرنے کیلئے واپڈا نے ایک چینی کمپنی کی خدمات حاصل کی تھیں تاکہ تربیلا کی ریت کے ٹیلے بننے کی وجہ سے پانی جمع کرنے کی30 فیصد جو صلاحیت ختم ہوگئی ہے اسے بحال کیا جاسکے۔ ان سرکاری ماہرین کے مطابق مسلسل ریت جمع ہونے کی وجہ سے تربیلا ڈیم میں پانی جمع کرنے کی صلاحیت9.6 ایم اے ایف سے کم ہو کر تقریباً 6.6 ایم اے ایف ہوگئی ہے۔ بہرحال ان افسران نے کہا ہے کہ چینی کمپنی کی طرف سے فزیبلیٹی اسٹڈی کے نتیجے میں ماہرین کی یہ رائے ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر ایسی مشق کے بجائے نیا ڈیم بنانے پر کم اخراجات ہوں گے۔
سندھ کے آبپاشی کے ماہرین نے بہرحال مندرجہ بالا موٴقف کو سختی سے رد کیا ہے اور ان کی رائے ہے کہ پنجاب کے ماہرین کسی حالت میں بھی کالا باغ ڈیم بنانا چاہتے ہیں اور یہ مقصد حاصل کرنے کیلئے یہ سب کہانیاں بنائی جارہی ہیں۔ سندھ کے ان ماہرین نے اس تھیوری کو ہی غلط اور بے ایمانی پر مشتمل قرار دیا ہے کہ تربیلا سے ریت صاف کرنے پر آنے والے اخراجات نئے ڈیم تعمیر کرنے پر آنے والے اخراجات سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ ان ماہرین نے چینی کمپنی سے تربیلا سے ریت صاف کرنے کے بارے میں کی گئی اسٹڈی کو ہی غیر ضروری مشق اور مشقت قرار دیا ہے۔ انہوں نے سوال کیا ہے کہ جب دنیا کی مشہور کمپنی ٹیمس کمپنی کی طرف سے تقریباً 27 سال قبل کی گئی اسٹڈی کی رپورٹ موجود ہے تو اس سلسلے میں ایک نئی اسٹڈی کی کیا ضرورت تھی؟ ان ماہرین نے یاد دلایا ہے کہ غالباً 1985ء میں تربیلا رزر وائر میں بن جانے والے ریت کے ٹیلے اور ڈیلٹا بجلی پیدا کرنے والے ٹربائنزکی طرف بڑھنے لگے جس کے نتیجے میں پاور ہاؤس کے ٹربائنز کے بلیڈزکو کافی نقصان پہنچا۔ اس وقت منصوبہ بندی کے وفاقی سیکریٹری ایک سندھی افسر فضل اللہ قریشی تھے جب یہ صورتحال ان کے علم میں لائی گئی تو انہوں نے واپڈا حکام کی طرف سے تربیلا ڈیم کے ریسٹ ہاؤس میں اس سلسلے میں دی گئی پریذنٹیشن میں شرکت کی۔ پریذنٹیشن کے آخر میں منصوبہ بندی کے وفاقی سیکریٹری نے ہدایات دیں کہ کسی ممتاز بین الاقوامی فرم سے اس سلسلے میں اسٹڈی کرائی جائے۔ یہ اسٹڈی 1988ء میں ختم ہوگئی۔ اس اسٹڈی کا ٹائٹل تھا۔ "Tarbela Dam Sedimeantation Management Stuady" یہ اسٹڈی برطانیہ کی مشہور کمپنی ٹیمس کارپوریشن نے ایچ آر ویلنگ لاریڈ کی تعاون سے کی۔ جب یہ رپورٹ منظر عام پر آئی تو واپڈا اور وفاقی حکومت کے حکام اس رپورٹ پر عملدرآمد کرنے سے لیت و لعل کا مظاہرہ کرنے لگے۔ حالانکہ سندھ کے ان ماہرین کے مطابق، ٹیمس کارپوریشن کے ماہرین نے ابھی تو فقط 6th ماڈل اسٹڈیز کی تھیں۔ ابھی ان کو فزیبلیٹی اسٹڈی بھی کرنی تھی اور ٹیکنیکل اسٹڈی بھی کرنی تھی۔ حالانکہ ٹیمس کارپوریشن کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ تربیلا ڈیم سے ریت کے ان ٹیلوں اور ڈیلٹا کا خاتمہ "Sluiaing arrangement" والے تیکنیکی طریقہ کار کے ذریعے بخوبی ہوسکتا ہے۔ سندھ کے کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ پہلے تو پنجاب کے ان ماہرین نے اس رپورٹ کو چھپانے اور کسی طرح سردخانے کے حوالے کرنے کی کوششیں کیں مگر یہ کوششیں اس وجہ سے کامیاب نہ ہوسکیں کہ سندھ کے ماہرین مسلسل زور دیتے رہے کہ ٹیمس کمپنی کی رپورٹ کو منظر عامہ پر لایا جائے اور اس پے عمل کرکے تربیلا ڈیم سے ریت کی صفائی کی جائے۔ بعد میں واپڈا اور پنجاب کے ماہرین نے موٴقف اختیار کیا کہ اگر ٹیمس کی رپورٹ پر عمل کرکے تربیلا سے ریت کے ٹیلے ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ ریت غازی بروتھا کے بیراج میں رکاوٹ پیدا کرسکتی ہے اس کے بعد اس اسٹڈی کا چیپٹر بند کردیا گیا۔ بہرحال ان ماہرین کا کہنا ہے کہ اب جبکہ حکومت ریت صاف کرنے والا چیپٹر پھر کھول رہی ہے تو ٹیمس کمپنی کی رپورٹ پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا جاتا؟ ان ماہرین نے انکشاف کیا کہ جب تک فضل اللہ قریشی منصوبہ بندی ڈویژن کے انچارج رہے وہ زور دیتے رہے کہ ٹیمس کمپنی کی رپورٹ پر عمل کیا جائے مگر 1988ء میں ان کے ٹرانسفر ہونے کے بعد پھر ٹیمس کمپنی کی رپورٹ کا ذکر نہیں ہوا۔ (جاری ہے)
تازہ ترین