• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ملک میں اس وقت ہنگامی حالات ہیں۔ جب سے علامہ طاہر القادری کینیڈا سے لوٹے ہیں اور لاہور کے جلسے میں لانگ مارچ کا 14جنوری کا اعلان کر کے روز اپنے مداحوں ، کارکنوں ، ہمدردوں کو مع ساز و سامان اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت دے رہے ہیں۔ خوب چندے بھی جمع کر رہے ہیں،وہاں کتنے دن وہ رہیں گے ، کہاں سے کھائیں گے؟ کیسے سخت سردی میں راتیں گزاریں گے ۔ کہنے کو تو طاہر القادری 40لاکھ کا مجمع جمع کرنے کے دعویدار ہیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر ان کے جلوس کو روکا گیا تو آدھے جلوس کو وہ لاہور کی طرف مارچ کرا دیں گے اور آدھے جلوس کو وہ اسلام آباد لے جائیں گے ۔ گویا انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھی امتحان میں ڈال دیا ہے ۔ پی پی پی اور حکمران جماعتوں اور ان کے شراکت دارو ں سے تو وہ پہلے ہی 2دو ہاتھ کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ دعووں کے ساتھ وہ بار بار آگے پیچھے بھی ہو چکے ہیں ، کبھی دستبردار ہوتے ہیں اور کبھی پھر وہ دوبارہ کمر کس کے اپنی گونج دار آواز میں للکارتے ہیں۔ میڈیا اور ٹی وی کے اینکرز اخبارات کے کالم نگار گومگو کی حالت میں ہیں مگر شیخ الاسلام کا ماضی دیکھتے ہوئے پُرامید ہیں کہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں ہیں۔ اگر حکومت کی سیاسی بصیرت جس کو صدر آصف علی زرداری گزشتہ 5سالوں میں تقریباً تمام سیاستدانوں سے منوا چکے ہیں اپنے تھیلے سے کوئی ایسا ترپ کا پتہ نکال کر اس نو سیاسی میدان میں جو اچانک ہموار ہوا ہے پھینکیں گے کہ سب دنگ رہ جائیں گے۔ البتہ وزیر تدبیرہمارے وزیر داخلہ رحمن ملک سے کوئی بعید نہیں کہ وہ معاملے کو سلجھاتے سلجھاتے الجھا نہ بیٹھیں۔ ویسے پی پی پی کی طرف سے وزیر اطلاعات قمرزمان کائرہ ، منظور وٹو، شرجیل میمن اور چوہدری احمد مختار تو مسلم لیگ (ن) کی طرف سے شہباز شریف ، وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور پرویز رشید تیروں پر تیر برسا رہے ہیں مگر مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف بذات خود بھی علامہ طاہر القادری کو جمہوریت کے بساط کو لپیٹنے کے لئے آنے پر کچھ کچھ گھبراہٹ کے شکار ہیں اور ان کو خبردار کر رہے ہیں کہ وہ اور ان کی جماعت مسلم لیگ (ن) ایسا نہیں ہونے دے گی مگر سیاست میں کوئی چیز یا حالات حرفِ آخر نہیں سمجھے جاتے، حالات کو پلٹتے دیر نہیں لگتی ۔ اگر حالات بند گلی تک پہنچے تو اس کے بعد کا آپشن نہ تو طاہر القادری کے پاس ہو گا اور نہ ہی حکمران جماعتوں کا اتحاد اس کو روک سکے گا۔ اسلام آباد کا حساس ترین علاقہ جہاں عوام کے علاوہ غیر ممالک کے سفارتخانے، تینوں افواج کے ہیڈکوارٹرز ، عدلیہ کا سب سے بڑا ہیڈ کوارٹر ، وفاقی ٹیکس وصولیابی کا نیٹ ورک (ایف بی آر) ، سینٹرل بنک ، مرکزی سیکریٹریٹ، تمام بنکوں ، انشورنس ادارے ، تمام حساس ادارے واقع ہیں ۔ حتیٰ کہ سیاسی اہم ترین ادارے ، قومی اسمبلی ، سینیٹ ، صدر مملکت اور وزیر اعظم کی قیام رہائش گاہیں بھی اس شہر میں ہیں۔ 40لاکھ افراد کو روکنے کا کوئی انتظام ہو سکتا ہے جو اسلام آباد انتظامیہ اپنے تمام ذرائع استعمال کر بھی لے تو اس مجمعے کے بگڑنے کی صورت میں کچھ کرنے کی اہل ہو سکتی ہے۔ جواب اس کا یہی ہے کہ یہ نا ممکن ہے بالکل ناممکن ۔ اسلام آباد کے شہری ان بپھرے ہوئے مسافروں کے ہاتھوں یرغمال بن جائیں گے پھر کیا ہوگا ان کا اور پھر اس مجمع کا ، کس کا حکم وہ مانیں گے، آخری راستہ جو ہر ایسے ہنگامی دور میں1958ء سے لیکر 1998ء تک نکلتا رہا ہے وہ ہے فوج اور صرف فوج، وہ کیا کرے گی۔ اس کا صرف اُسی وقت کے حالات بتائیں گے، لاکھ عدلیہ نے جمہوریت کو ڈی ریل نہ کرنے کی ضمانتیں بار بار دی ہیں مگر ایسی صورت میں فوج بھی کیا کرے گی جب تمام سیاسی جماعتیں اس ردعمل اور جلوس کو روکنے میں ناکام ہو چکی ہوں گی تو قانون کی حکمرانی ناممکن ہو گی۔ کیا سب ابھی تک خواب دیکھ رہے ہیں۔ اگر ایک شخص اسلام آباد کے سب سے بڑے پارک میں بیٹھ کر فیصلے کرنے کا مجاز ہوگا تو پھر جمہوریت پارلیمینٹ ، عدلیہ ، انتظامیہ سب کہاں ہوں گے اور کیا کریں گے۔ صرف ایک ہفتہ قوم کو دیا گیا ہے وہ بھی لانگ مارچ کے نام پر ۔گویا اب نہ پارلیمینٹ کوئی حیثیت رکھتی ہے نہ سینیٹ کا کوئی کردار ہے ۔ تمام صوبائی اسمبلیاں ربڑ اسٹیمپ بن چکی ہیں تو ایسے میں عوام کون ہے، ووٹرز کون ہیں جنہوں نے ان جمہوری راستوں سے اپنے نمائندے چنے اور اداروں میں بھیجے ۔ آج کیا وہ 40لاکھ عوام 20کروڑ عوام پر حکمرانی کرنے جارہے ہیں تو پھر یہ الیکشن کمیشن اور آنے والے الیکشن کا کیا ڈرامہ تھا جو جمہوریت کے نام پر رچایا گیا۔ خدارا اب بھی ہمارے سیاستدانوں کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ اس ملک میں جمہوریت کو بچانے کے لئے آخری کردار ادا کریں یا پھر یونہی آپس میں دست وگریباں رہیں گے یا پھر وہ دوبارہ غیر دانستہ طور پر کسی اور کیلئے راہ ہموار کر رہے ہیں؟ کیا ہم نے اور ہمارے سیاستدانوں نے ماضی کی مسلسل غلطیوں سے سبق حاصل نہیں کیا جو پھر ہم اس بند گلی کی طرف خوشی خوشی روانہ ہو رہے ہیں جیسے ہم ماضی میں ہوش کے بجائے جوش سے کام لے کر غلطی کرتے رہے ہیں۔
تازہ ترین