• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ اور سرحدی شہر چمن میں ایک ہی روز میں بھاری جانی نقصان کا سبب بننے والی دہشت گردی کے دو کارروائیاں ظاہر کرتی ہیں کہ اس فتنے کا سر ابھی پوری طرح کچلا نہیں جا سکا ہے لہٰذا پاکستانی قوم کو پورے عزم و استقلال کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی جاری رکھنا ہوگی۔ دہشت گردی کا پہلا واقعہ جمعہ کی صبح کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی کی سبزی منڈی میں اس وقت پیش آیا جب ہزارہ قبیلے کے پھل اور سبزی فروش وہاں خریداری کے لیے پہنچے۔ اس واردات میں کم از کم بیس افراد جاں بحق اور چالیس زخمی ہوئے۔ دوسری جانب جمعہ ہی کی شام چمن میں ہونے والے ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں کم از کم ایک شخص ہلاک اور دو سیکورٹی اہلکاروں سمیت گیارہ افراد زخمی ہوگئے۔ کوئٹہ حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان قاری سیف اللہ گروپ نے قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ ان کی اور لشکرِ جھنگوی کی مشترکہ کارروائی تھی جس میں ہزارہ برادری کو نشانہ بنانا مقصود تھا جبکہ چمن حملے کی ذمہ داری بھی تحریک طالبان نے قبول کر لی ہے۔ ڈی آئی جی پولیس کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ کے بقول شواہد بتاتے ہیں کہ ہزار گنجی فروٹ مارکیٹ کا یہ دھماکہ خودکش تھا پھر بھی تحقیقات کی جا رہی ہے۔ جاں بحق افراد میں سے آٹھ کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا۔ اس واقعے کے بعد ہزارہ قبیلے کے افراد اور سول سوسائٹی کی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے کارکنوں نے شہر کے مختلف علاقوں میں احتجاج کیا اور مغربی بائی پاس پر ہزارہ ٹاؤن کے قریب دھرنا دیا، جو آخری اطلاعات تک جاری تھا۔ صوبائی وزیر داخلہ نے دھرنے کو ختم کروانے کے لیے مغربی بائی پاس جاکر شرکا سے ملاقات کی لیکن انھوں نے دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا۔ دھرنے کے شرکا کا کہنا تھا کہ مطالبات تسلیم ہونے تک دھرنا جاری رکھا جائے گا۔ ہزارہ برادری کے قائدین نے عورتوں اور بچوں کے ساتھ اسلام آباد تک لانگ مارچ کے عزم کا اظہار بھی کیا ہے جبکہ سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے کارکنوں نے بھی اس واقعے کے خلاف پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ بلوچستان میں گزشتہ ماہ بھی تین دھماکے ہوئے تھے جن میں چار دہشت گردوں سمیت کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہوئے، تاہم کوئٹہ کے تازہ خودکش دھماکے میں ہزارہ برادری کو خاص طور پر نشانہ بنانے کی کوشش سے واضح ہے کہ شرپسند عناصر دہشت گردی کے علاوہ ملک میں ایک بار پھر فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ گزشتہ ماہ کے آخری ہفتے میں کراچی میں ممتاز عالم دین مفتی تقی عثمانی پر قاتلانہ حملے کا مقصد بھی بظاہر یہی تھا۔ لہٰذا یہ قیاس بے بنیاد نہیں کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی خواہشمند اندرونی اور بیرونی طاقتیں از سر نو متحرک ہو رہی ہیں۔ وزیر داخلہ بلوچستان میر ضیاء اللہ لانگو نے بالکل درست طور پر اس حقیقت کی نشاندہی کی ہے کہ پاکستان خطے کا اہم ملک بننے جا رہا ہے، لہٰذا اس کے دشمن بدامنی پھیلاکر ترقی کے سفر میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔ دہشت گرد حملوں کے حوالے سے ان کا موقف تھا کہ پہلے سے ان کا پتا چلانا ممکن نہیں ہوتا اور کہیں بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ وزیر داخلہ کا یہ خیال ایک حد تک درست ہے لیکن انٹیلی جنس اور حفاظتی انتظامات کو مزید بہتر بناکر دہشت گردی کے امکانات کو کم سے کم سطح تک ضرور لایا جا سکتا ہے جیسا کہ ملک میں آپریشن ضربِ عضب اور آپریشن رَدُّالفساد کے نہایت مثبت نتائج سے واضح ہے۔ فرقہ پرستانہ منافرت پھیلانے والے عناصر اور دہشت گرد تنظیموں کے مکمل خاتمے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کا عمل میں لایا جانا اور نیشنل ایکشن پلان کی تمام شقوں پر مکمل عمل درآمد ناگزیر ہے۔ کوئٹہ سیف سٹی منصوبہ پچھلے تین سال سے عملی اقدامات کا منتظر ہے، وزیر داخلہ بلوچستان اور کوئٹہ پولیس کے سربراہ نے گزشتہ روز اس پر جلد عمل درآمد کے اعلانات کیے ہیں، ان یقین دہانیوں کو کم از کم اب کسی مزید تاخیر کے بغیر عملی جامہ پہنایا جانا اور دہشت گردی کے تازہ واقعات کی شفاف تحقیقات کرکے ان کے ذمہ داروں کو کم سے کم ممکنہ وقت میں قانون کی گرفت میں لایا جانا، ایسے کسی اور سانحے کے اعادے سے بچنے کے لیے ضروری ہے۔

تازہ ترین