• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تھر کے کوئلے سے بجلی کی پیداوار شروع ہوگئی ہے۔ ایک ایسا کام ہوگیا ، جسے بہت سے لوگ ناممکن تصور کرتے تھے۔ اس کا کریڈٹ یقینی طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو جاتا ہے، جس کے عزم اور مصمم ارادے نے اس کو ممکن بنادیا۔ نجی شعبے کے ان سرمایہ کاروں کو بھی کریڈٹ جاتا ہے، جنہوں نے ’’بظاہر ناممکن‘‘ منصوبہ میں سرمایہ کاری کا رسک لیا۔

ویسے تو پاکستان میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر پہلے سے موجود ہیں اور بجلی پیدا کررہے ہیں لیکن یہ سارے بجلی گھر درآمد کردہ کوئلے کا استعمال کرتے ہیں۔ مقامی اور تھر کے کوئلے پر کسی بجلی گھر (پاور پلانٹ) نے بجلی بنانا شروع کی ہے۔ اس سے سستی ترین بجلی مہیا ہوگی، جو شاید 6 سینٹ فی یونٹ تک ہوگی۔ درآمدی کوئلے اور تیل سے چلنے والے دیگر بجلی گھروں کی بجلی بہت مہنگی ہے۔ اگر تھر کے کوئلے پر انحصار کیا جائے تو نہ صرف سستی بجلی مہیا ہوگی بلکہ کوئلے اور تیل کی درآمد پر خرچ ہونے والے اربوں ڈالرز سالانہ بچائے جاسکتے ہیں۔ تھر میں 175 ارب ملین ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں، جو ایک اندازے کے مطابق آئندہ دو سو سال تک 25 سے 30 ہزار میگا واٹ بجلی اس کوئلے سے پیدا کی جاسکتی ہے۔

اگلے روز پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اسلام کوٹ کے قریب 330 میگا واٹ کے 2 یونٹس کا باقاعدہ افتتاح کیا۔ پاور پلانٹس کے ان دو یونٹس سے بجلی نیشنل گرڈ اسٹیشن میں شامل کردی گئی ہے۔ جون سے یہ دونوں 660 میگا واٹ بجلی کی باقاعدہ تجارتی پیداوار شروع کردیں گے۔ کسی کا یہ کہنا درست ہے کہ سندھ میں پہلے دو مرتبہ سماجی اور معاشی کایا پلٹ (TRANSFORMATION) صرف تھر یا سندھ کے لیے نہیں بلکہ پورے پاکستان کے لیے ہے، بشرطیکہ کوئی اس امر کا حقیقی ادراک کرسکے۔

1980ء کے عشرے میں تھر میں پانی کی تلاش میں ہونے والی کھدائی کے دوران پتہ چلا کہ وہاں کوئلے کے وسیع تر ذخائر ہیں۔ نئی نسل کے لیے یہ انکشاف ہے کہ جن علاقوں میں کوئلہ دریافت ہوا ہے، یہ علاقے 1971ء میں بھارت کے قبضے میں چلے گئے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھارت سے یہ علاقے واپس لیے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو تھر میں کوئلے کی دریافت کے بعد یہ طے کرچکی تھیں کہ وہ اس غریب اور انتہائی پسماندہ علاقے کی دولت یعنی کوئلے سے پورے پاکستان کو روشن کریں گی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے اس وژن کو ’’تھر بدلے گا پاکستان‘‘ کے نعرے میں بیان کیا جاتا ہے۔

یہ کام آسان نہیں تھا کہ تھر سے کوئلہ نکالا جائے اور پھر اس کوئلے سے بجلی پیدا کی جائے۔ پہلے تو یہ کہا گیا کہ تھر کا کوئلہ اس معیار کا نہیں کہ اس سے بجلی پیدا کی جاسکے۔ اس میں سلفر کی مقدار اور پانی کا تناسب زیادہ ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ کوئلہ نکالنے کے لئے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کون کرے۔ وہاں سڑکیں اور دیگر انفراسٹرکچر نہیں تھا، یہاں تک کہ وہاں پینے کا میٹھا پانی بھی نہیں تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی کوششوں سے چین کی ایک کمپنی نے (جس کا نام غالباً شنہوا تھا) سرمایہ کاری کی حامی بھری۔ اس نے کوئلہ نکالنے اور کیٹی بندر میں کول پاور پلانٹ لگانے کا معاہدہ کیا لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم ہونے کے بعد یہ معاہدہ ختم کردیا گیا۔ اس کے بعد لوگ تھر کو بھول گئے۔ 2008 ء میں جب پیپلز پارٹی کی مرکز اور سندھ میں حکومت قائم ہوئی تو تھرکول کے منصوبے پر دوبارہ کام کا آغاز ہوا۔ یہ منصوبہ شروع کرنے میں بے پناہ مشکلات تھیں۔ لندن میں عالمی بینک کے کوئلے پر بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا اور اس کانفرنس کے نتیجے میں بہت سے بیرونی سرمایہ کار تھر میں سرمایہ کاری پر راضی ہوئے لیکن کچھ قوتوں نے ’’ماحولیات کو خطرے‘‘ کا ایشو بنادیا اور سب بیرونی سرمایہ کاروں نے اس منصوبے میں سرمایہ کاری تو درکنار، اس کے بارے میں سوچنا بھی چھوڑ دیا لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت اس سے مایوس نہیں ہوئی۔ اس نے ملکی سرمایہ کاروں سے رابطے کیے۔ بہت سے ملکی سرمایہ کار بھی اسے دیوانے کا خواب قرار دیتے تھے۔ صرف اینگرو نے اس منصوبے میں سرمایہ کاری کرنے پر رضا مندی ظاہر کی بشرطیکہ سندھ حکومت منصوبے میں شراکت دار کے طور پر شامل ہو۔ سرمایہ کاری اور نجی شعبے کی شراکت سے سندھ کول مائننگ کمپنی قائم ہوئی۔ کوئلہ نکالنا شروع کیا گیا اور یہیں سے ایک ناممکن کام کو ممکن بنانے کا عمل شروع ہوا۔ سندھ حکومت کا تو عزم تھا۔ نجی شعبے نے رسک لینے کے لیے جرأت کا مظاہرہ کیا۔ کوئلہ نکلنا شروع ہوا تو اینگرو اور دیگر نجی سرمایہ کاروں نے پاور پلانٹس کی تنصیب پر کام شروع کردیا۔ نجی سرمایہ کاروں کو وفاقی حکومت نے ساورن (SOVEREIGN) گارنٹی سندھ حکومت کی ضمانت پر دی گئی۔ اس منصوبے کی توانائی کے شعبے کے اجارہ دار حلقوں، کوئلے اور تیل کے درآمد کنندگان کے ساتھ ساتھ ان حلقوں نے بھی مخالفت کی، جو اسے پیپلز پارٹی کا منصوبہ تصور کرتے تھے۔ تھر کے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا ’’ناممکن‘‘ کام اب ممکن سے بھی زیادہ حقیقت بن چکا ہے۔

اس کے لیے نہ صرف سندھ حکومت نے بڑی سرمایہ کاری کی بلکہ بجلی کی پیداوار سے پہلے تھر میں موٹروے جیسی سڑکوں کا جال بچھایا۔ وہاں پینے کا میٹھا پانی مہیا کیا۔ تھر میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں اور حکومت سندھ نے ’’تھر فائونڈیشن‘‘ قائم کی ہے، جو یہاں جدید اسپتال اور اسکول قائم کررہی ہے۔ کھارے پانی سے زراعت کو ترویج دے رہی ہے اور لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے مزید کام کررہی ہے۔ تھر کروٹ لے رہا ہے۔ وہاں زندگی اپنا رقص کرنے لگی ہے اور تھر اپنے ساتھ ساتھ سندھ سمیت پورے پاکستان کو بدل رہا ہے۔

تازہ ترین