• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیف جسٹس پاکستان، جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ عدلیہ کی سربراہی کے منصب پر فائز ہونے کے بعد پہلے دن سے ملک کے ہر شہری کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کے مشن کی تکمیل کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ فوری انصاف کی فراہمی سے متعلق گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہونے والی ایک کانفرنس سے خطاب میں ان کا کہنا تھا ’’جج بنا تو پہلے دن سے ہی مشن تھا کہ مقدمات کے جلد فیصلے کیے جائیں، بار میں وکلا مجھے اور ساتھی ججوں کو جنون گروپ کہتے تھے‘‘۔ تین ماہ قبل اپنا موجودہ عہدہ سنبھالتے وقت اپنے پہلے خطاب میں انہوں نے لاکھوں زیر التوا مقدمات کا قرض اتارنے اور جعلی وغیر اہم مقدمات کے سیلاب کو روکنے کے لئے ڈیم بنانے کا اعلان کیا تھا اور محض 90دنوں کے اندر جسٹس کھوسہ نے ماڈل عدالتوں سمیت کئی نتیجہ خیز اقدامات کر دکھائے ہیں۔ تاہم مذکورہ کانفرنس میں وہ یہ شکوہ کرنے پر مجبور ہوئے کہ بدقسمتی سے انصاف کا شعبہ پارلیمنٹ کی ترجیحات میں شامل نہیں جبکہ فوری اور سستا انصاف فراہم کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ نظام انصاف کو بہتر بنانے کے لیے پارلیمنٹ کو 17رپورٹیں دے چکے ہیں مگر ان میں سے کسی ایک کی سفارشات پر بھی مکمل عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ فاضل چیف جسٹس نے انکشاف کیا کہ جوڈیشل پالیسی بہتر بنانے کے لئے سفارشات اور ترامیم کو پارلیمنٹ میں پیش تک نہیں کیا گیا۔ اُنہوں نے بالکل درست طور پر اس موقف کا اظہار کیا کہ انصاف کے شعبے میں بہتری کے لیے ضروری ہے کہ عدلیہ کی طرح پارلیمنٹ اور انتظامیہ کی جانب سے بھی اس کی ذمہ داری لی جائے۔ نظام انصاف کی بہتری کے ضمن میں پارلیمنٹ اور انتظامیہ کا یہ طرزعمل بلاشبہ افسوسناک اور بلاتاخیر اصلاح کا متقاضی ہے۔ سستا اور فوری انصاف بائیس کروڑ پاکستانیوں کا حق ہے۔ انتظامیہ اور پارلیمنٹ اس کی راہ ہموار کرنے کے بجائے اگر تساہل کا مظاہرہ کر کے اس کی تکمیل میں تاخیر کا سبب بن رہی ہیں تو اس رویے کو مجرمانہ غفلت کہنا غلط نہیں ہو گا لہٰذا کسی مزید تاخیر کے بغیر اس روش کا ترک کیا جانا اور عدلیہ کی سفارشات کو پارلیمنٹ میں زیر غور لانا ضروری ہے۔ جہاں تک فراہمی انصاف کے معاملے میں عدلیہ کی اپنی کارکردگی کا تعلق ہے تو چیف جسٹس کے بیان کردہ اعداد وشمار کی روشنی میں وہ یقیناً حیرت انگیز طور پر شاندار ہے۔ ان کا کہنا تھا ’’ہمارے جج جتنا کام کر رہے ہیں، اتنا دنیا میں کوئی نہیں کرتا۔ ملک میں مجموعی طور پر تین ہزار جج ہیں، جنہوں نے گزشتہ سال 34لاکھ مقدمات نمٹائے۔ اس لئے ججوں کو ڈو مور نہیں کہہ سکتے‘‘۔ اُنہوں نے مزید بتایا کہ ’’امریکی سپریم کورٹ سال میں 80سے 90مقدمات نمٹاتی ہے جبکہ برطانیہ کی اعلیٰ عدلیہ سالانہ 100مقدمات کا فیصلہ کرتی ہے لیکن پاکستان کی سپریم کورٹ نے گزشتہ سال 26ہزار مقدمات نمٹائے‘‘۔ تیزرفتار انصاف کی فراہمی کے لیے ماڈل کورٹس کا قیام موجودہ عدلیہ کا یقیناً ایک قابل ستائش کارنامہ ہے۔ بہت کم وقت میں اس کے نہایت حوصلہ افزاء نتائج سامنے آئے ہیں لیکن وکلاء کی جانب سے ماڈل عدالتوں کے خلاف جاری احتجاج کا معاملہ بہرصورت حل طلب ہے کیونکہ بار اور بنچ عدالتی نظام کے دوپہیے ہیں اور ان میں اختلاف ہو تو نظام انصاف کا معطل ہوکر رہ جانا یقینی ہے۔ نظام انصاف کی بہتری کے لئے کئے جانے والے مزید متعدد اقدامات میں سے مقدمات کی مسلسل سماعت کے لئے کسی مقدمے میں وکیل کی عدم پیشی کی صورت میں اس کے معاون وکیل کی حاضری کو لازمی قرار دے کر مقدمات کے التواء کو روکنے کا طریق کار اپنا یا جانا یقینی طور پر مثبت نتائج کا سبب بنے گا جبکہ وراثت اور جانشینی کے معاملات میں پولیس کا عمل دخل ختم کر کے نادرا سے معلومات کا فوری حصول تاخیر کے ایک بڑے سبب کو دور کر دے گا۔ تاہم عدلیہ کی ان کوششوں کو حتمی طور پر کا میاب بنانے کے لئے عدلیہ کے ساتھ پارلیمنٹ کا مکمل تعاون بہرحال ناگزیر ہے، جسے یقینی بنانا حکومت اور اپوزیشن دونوں کی ذمہ داری ہے۔

تازہ ترین