• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بین الاقوامی مالیاتی نظام کو دہشت گردی، کالے دھن کو سفید کرنے اور اس قسم کے دوسرے خطرات سے محفوظ رکھنے اور اس مقصد کے لئے قانونی، انضباطی اور عملی اقدامات کرنے والے ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو گزشتہ برس جون میں اپنی گرے لسٹ میں شامل کیا تھا کیونکہ پاکستانی حکومت اِس عالمی ادارے کو دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف کئے گئے اقدامات سے متعلق مطمئن نہ کرسکی تھی۔ اس بنا پر جہاں پاکستان کے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ تعلقات پر اثر پڑا، وہیں پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ اور مالی ساکھ کو بھی بڑا دھچکا لگا۔ پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے کے بعد ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کو دس نکاتی ایکشن پلان پر جنوری 2019تک عمل درآمد کرنے کو کہا گیا تھا۔ اس دس نکاتی ایکشن پلان کے مطابق پاکستان کو بتانا تھا کہ وہ منی لانڈرنگ، دہشت گردی کی مالی معاونت اور اداروں کے درمیان ہم آہنگی سے متعلق اقدامات کرنے میں کامیاب ہوا ہے کہ نہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان نے ’دہشت گردی کی مالی معاونت سے متعلق اپنی پالیسی‘ تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ مثبت اقدامات کئے تاہم ایف اے ٹی ایف بھی اپنے مطالبات تبدیل کرتی رہتی ہے۔ پہلے مطالبات کو پورا کرنے کے بعد اب نئے مطالبات کی فہرست سامنے آ گئی ہے، جس کے تحت حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ملک کے تمام صرافہ بازار دستاویزی بنائے جائیں، سونے کا لین دین بینک کارڈز سے کیا جائے، زیورات خریدنے والوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جائے، سونا اور زیورات دہشت گرد تنظیموں تک نہ پہنچ پائے، ضلعی سطح پر رجسٹرڈ ٹرسٹ کا ڈیٹا اکٹھا کیا جائے، اِن ٹرسٹوں کو ریگولیٹ کیا جائے، ضلعی سطح پر ٹرسٹ کے اکاؤنٹس کی تفصیلات اکٹھی جائیں۔ حکومت ِپاکستان پہلے سے ہی ٹاسک فورس کے تمام مطالبات کو پورا کر رہی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ ٹاسک فورس کے نئے مطالبات بھی پورے کئے جائیں گے تاکہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نہ نکالنے کیلئے کسی قسم کا کوئی جواز نہ تراشا جا سکے۔

تازہ ترین