• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور ملک کے اکنامک انجن کراچی، کے مسائل کے حوالے سے میں مسلسل اپنے کالموں میں اپنی گزارشات پیش کررہا ہوں۔ میرا مدعا یہ ہے کہ کراچی کے مسائل کو تاریخی اور علاقائی تناظر میں معروضی طور پر سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ کراچی بلوچستان کا Back Yard ہے۔ اگرچہ کراچی میں طویل عرصے کے بعد کسی حد تک امن قائم ہو گیا ہے جو کہ خوش آئند بات ہے لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا بدامنی کے اسباب کا مکمل طور پر خاتمہ ہو گیا ہے؟ دنیا آج بھی کراچی کو پاکستان اور اس خطے کی سیاست کا فلیش پوائنٹ قرار دے رہی ہے۔ ہم اس کو Eglitarian سوسائٹی بنائیں۔

میرے ایک کالم میں اس امر کی نشاندہی کی گئی تھی کہ کراچی آج بھی قیادت کا متلاشی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کراچی کی آبادی مختلف نسلی اور لسانی گروہوں پر مشتمل ہے اور کسی بھی سیاسی جماعت کا بیانیہ ایسا نہیں ہے، جو تمام گروہوں کے لئے قابل قبول ہو۔ ہر سیاسی جماعت کا کوئی ایک مخصوص نسلی یا لسانی گروہ ہے اور وہ دوسرے گروہوں میں اپنا سیاسی اثر ورسوخ حاصل کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتی۔ مرکز، سندھ اور بلدیاتی اداروں میں حکومت کرنے والی سیاسی جماعتیں کراچی کی ترقی کو شہر میں اپنی سیاسی حمایت کے تناظر میں دیکھتی ہیں اور کوشش کرتی ہیں کہ وہ اپنے حامیوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچائیں۔ کراچی میں آبادیوں کی تقسیم اب نسلی اور لسانی بنیادوں پر پہلے سے زیادہ گہری ہو گئی ہے۔ اگرچہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں حکمراں سیاسی جماعتیں بھی اپنے سیاسی حامیوں کو زیادہ نوازتی ہیں لیکن وہاں نسلی اور لسانی تقسیم کا مسئلہ نہیں ہے، جو کراچی میں سیاسی جماعتوں کی اس اپروچ کو خطرناک بنا دیتا ہے۔

ایک طرف تو کراچی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے مسائل میں بھی اسی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے اور سیاسی جماعتوں کی وسیع النظری سے عاری اپروچ نے ان مسائل کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔ مختلف علاقوں میں ترقی کے فرق کے علاوہ پانی، بجلی اور گیس کے ساتھ ساتھ انفرااسٹرکچر کی غیر مساویانہ فراہمی نے بھی کراچی کی تقسیم کو مزید گہرا کردیا ہے۔ بلڈنگ کنٹرول کے قوانین کے غلط اطلاق نے بھی شہر کے کچھ علاقوں کو بہترین علاقوں اور کچھ کو بدترین گنجان آبادیوں (SLUMS)میں تبدیل کردیا ہے۔ یہ عوامل ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی ہوں گے لیکن یہ کراچی میں نسلی اور لسانی تقسیم کو بڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔ بیروزگاری نے مختلف گروہوں میں احساس محرومی کو ایک نئی شکل دے دی ہے۔ خاص طور پر سرکاری اداروں میں کراچی کی مختلف آبادیوں کے تناسب کے حوالے سے نوکریاں نہیں دی جا رہیں۔ نوکر شاہی اور انتظامیہ میں ان کی تعداد انتہائی کم ہے۔ یہاں تک کہ میرٹ کا نظام بھی نہیں ہے، جس پر عوام کا اعتماد ہو، صحت وصفائی کے مسائل، آلودگی، ٹریفک جام اور ماحولیاتی تباہی نے مسائل میں تلخیوں کو بھی شامل کردیا ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ کراچی میں پائیدار امن کے لئے کراچی کے مسائل کا جدلیاتی اور معروضی انداز میں ادراک کیا جائے اور ان کے حل کے لئے کوئی قابل عمل اسٹرٹیجی وضع کی جائے۔ کراچی کے لوگوں کو کراچی کی انتظامیہ، بلدیاتی اداروں وغیرہ میں ہر طرح سے involveکیا جائے، کراچی کو کراچی والے ہی Governکریں۔ سیاسی جماعتیں کراچی کے حوالے سے جو اپروچ رکھتی ہیں، وہ ان مسائل کو وسیع تر تناظر میں فی الحال سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کریں گی۔ ایسی صورت حال میں دنیا کے دیگر ملکوں میں تھنک ٹینک اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ کراچی کے لئے بھی ایسے تھنک ٹینکس کی ضرورت ہے۔ عالمی اور علاقائی سطح پر ہونے والی نئی صف بندیوں کے تناظر میں فوری طور پر ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی میں بدامنی کے اسباب کا خاتمہ کیا جائے۔ تھنک ٹینکس آگے آکر کام کریں اور سیاسی جماعتوں کو فکری، تحقیقاتی اور قابل عمل مواد فراہم کریں۔ انہیں ہم آہنگی کے فروغ کے لئےڈائیلاگ کا آغاز کرنا ہو گا، جن کا یہ بنیادی نظریہ ہو کہ کراچی میں رہنے والے کراچی کے باشندے ہیں اور ان کے حقوق یکساں ہیں۔ مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل کے لئے اسٹیک ہولڈرز سے وسیع تر مشاورت کے عمل کو فروغ دینا ہو گا۔ کراچی کے تاریخی ورثے اور ماحولیات کے تحفظ کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ کراچی میں رہنے والے مختلف گروہوں کی تعداد، ان کے سماجی ومعاشی حالات، ان میں احساس محرومی کے اسباب کے حوالے سے تحقیقاتی کام کرنا ہوگا اور سفارشات مرتب کرنا ہوں گی۔ کراچی کے لئے ایسی پلاننگ اور اسٹرٹیجی وضع کرنا ہوگی، جس سے لوگوں کو احساس ہو کہ ان کے مسائل حل ہو رہے ہیں اور ان کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا جارہا۔ کراچی کے لئے ماسٹر پلان تجویز کرنا ہوگا۔ یہ تحقیقاتی مواد سیاسی جماعتوں کو نہ صرف حقائق کے ادراک میں مدد دے گا بلکہ ان کا بیانیہ اور ان کی سیاسی اپروچ بھی تبدیل کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔

تقریباً پانچ عشروں سے کراچی تقسیم اور بدامنی کا شکار ہے۔ سیکورٹی اقدامات سے امن تو قائم ہو گیا ہے لیکن پائیدار امن کے لئے سیاسی اور سماجی بنیادیں فراہم کرنا ہوں گی۔ کراچی کی قیادت تمام کراچی والوں کو ’’اون‘‘ کرے اور کراچی والے مختلف جماعتوں کو کارکردگی اور نظریات پر ووٹ ضرور دیں لیکن کسی کو اپنا مخالف سمجھ کر مسترد نہ کریں۔ کراچی کی بڑی آبادی، آبادی کا تنوع اوراس کی معیشت بہت بڑی طاقت ہیں۔ یہ طاقت سندھ اور پورے ملک کی طاقت ہے۔ کراچی نہ صرف ایک بار پھر بین الاقوامی شہروں کی طرح دنیا کے لئے اکنامک رول ماڈل بن سکتا ہے بلکہ سندھ سمیت پورے پاکستان کو رول ماڈل بنا سکتا ہے۔ اسے پائیدار امن والا اقتصادی ترقی کا ’’فلیش پوائنٹ‘‘ بنانا ہوگا، نہ کہ امن کے لئے خطرے والا فلیش پوائنٹ۔

تازہ ترین