• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے معاشرہ کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں روزگار کی فراہمی بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جس کو دیکھو یہی کہتا ہے کہ پاکستان میں ملازمتیں نہیں۔ بغیر سفارش کے یہاں کسی کو نوکری نہیں ملتی۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اتوار کے اخبارات " ملازمتوں کے مواقعے" کے اشتہارات سے بھرے ہوتے ہیں۔ سرکاری اداروں کی ویب سائڈکوغور سے دیکھیں تو وہاں بھی " روزگار کے مواقع" یا " ضرورت برائے پوسٹ" ضرور مل جاتی ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ یہ دو مختلف زاویئے نظرآتے ہیں؟ ایک طرف بے روزگاری کا رونا تو دوسری طرف " روزگارکے مواقع" فراہم ہونا؟ یقیناً کہیں نہ کہیں کچھ توگڑبڑ ہے۔ذرا آجکل خبروں کا بغور جائزہ لیں۔ میٹرک کے سالانہ امتحانات چل رہے تھے روزانہ کے حساب سے ہر چینل امتحانی مراکز میں ہونے والی " نقل" کے بارے میں بھرپور خبریں چلارہے تھے ۔جس میں ویڈیو بھی واضح دیکھادی تھی کہ کیسے میٹرک کے طالب علم بغیر کسی خوف وشرمندگی کے موبائل فون کےذریعے نقل کررہے ہیں اور انہیں کوئی روکنے والا نہیں۔ آج سے کئی سالوں پہلے جب ایک انگریزی روزنامہ نے ایک سرکاری انجیئنرنگ یونیورسٹی میں امتحانات کے دوران نقل کرنے کی تصویر چھاپی تھی ۔تب سےاس یونیورسٹی کی ڈگری کو باہرتسلیم نہیں کیا جاتا تھا اور باہر جانے والے انجیئنرزکو مزید امتحانات دینے پڑتے تھے ۔پھربڑی تگ ودو کے بعد اس یونیورسٹی میں اصلاحات ہوئیں اور اس کی ڈگری کو باہر تسلیم کیاجانے لگا۔اسی تناظر میں ذرا ملکی نظام تعلیم کے معیار کا اندازہ کریں کہ وہ طالب علم جن کی عمریں مشکل سے 15 سے 18 سال ہوتی ہیں اور اس عمر میں وہ جب امتحان بغیر محنت اور بے ایمانی سے پاس کرناچاہتے ہیں تو آگے انٹر، بی اے، بی کام اورایم اے کے امتحانات میں وہ کیا کرتے ہوں گے؟ یوں جب وہ ڈگری لیکر نوکری کی تلاش میں نکلتے ہیں تو ان کی " نااہلی وکم علمی" انہیں منہ چڑارہی ہوتی ہے۔ جس بچے نے کبھی کوئی امتحان پڑھے اور سمجھے بغیر صرف نقل کرکے پاس کیا ہوگا وہ روزگار کی تلاش کس برتے پہ کرے گا؟ لاکھ کہہ لیجئےلیکن نجی شعبہ سوفیصد میرٹ پہ ملازمت دیتا ہے کیونکہ اسے اپنے منافع کی بڑی فکرہوتی ہے۔ نااہل افراد بھرتی کرکے اس کو اپنی نظام کو بیٹھنا نہیں ہوتا۔بالکل اسی طرح حکومتی مشینری چلانے اور عوامی ادارے چلانے کے لیے بھی " میرٹ" کا ہی سہارا لیا جاتا ہے۔ ہاں یہاں نسبتاً سوفیصدمیرٹ نہ ہو پھر بھی 81 فیصد سے زیادہ ہی ہوتی ہے۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتو ادارے ختم ہونے میں دیرنہیں لگتی ۔ لہٰذا اب" فکر تعلیم معیار" کی کرنی ہے روزگارکی فراہمی کی نہیں ۔اور اس کے لیے " تبدیلی" نچلی سطح سے ہی آنی ہے۔ ہائرایجوکیشن کمیشن کے نام پر اربوں روپے خرچ کرنے کرلیں لیکن جب تک ابتدائی تعلیم کو فوقیت دے کر اسکولوں میں معیار کی تعلیم نہیں فراہم کی جائے گی یہ " ٹیوشن کلچر" اور " ٹیوشن سینٹرمافیا" کے اثر کو توڑایا ختم نہیں کیا جائے گا معیاری تعلیم یا ہنرمندافراد میسر نہ ہوں گے۔ آپ ملازمتوں کے مواقع کے ڈھیرلگادیجئے۔ لیکن اہل افراد کہاں سے لائیں گے؟معیشت میں بہتری سرکاری سطح پہ ملازمتوں کی فراہمی سے نہیں بلکہ ہنرمند افرادی قوت سے ہی ہوتی ہے۔ اب تک ہم لوگوں نے ترقی کا معیار اور ذریعہ صرف سمندر پارافرادی قوت کی آمدنی یا( (worker remittancesیا پھر غیرملکی براہ راست سرمایہ کاری (FDI)کو ہی سمجھا ہوا ہے۔ کیاجاپان، جرمنی اور دوسرے اہم ممالک نے انہیں بنیادوں پہ ترقی کی ہے یا پھر اپنے وسائل پر انحصار کرکے معیار تعلیم کومقدم رکھتے ہوئے کی ہے۔ جاپان غیرملکی سرمایہ کاری کو اپنے ہاں بالکل اہمیت نہیں دیتا کیونکہ ان کا خیال ہے کہ جب غیرملکی سرمایہ کار ان کے ملک میں آئیں گےتو پھر وہ ملکی معاشی پالیسی پر اثرانداز بھی ہوں گے۔ اسی لیے "خودمختاری "جاپانیوں کے لیے مالی مدد سے بہت بہتر ہے۔ اسی طرح ان کے ہاں شروع سے ہی سائنسی علوم پہ بہت زور دیا جاتا ہے۔ صحیح معنوں میں سائنسدان تیار کئے جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں کسی بھی بچے سے پوچھ کر دیکھ لیں کے کیا بنناچاہتے ہو کوئی بھی سائنسدان بننے کا شوقین نہیں نکلے گا۔ وجہ صرف یہی ہے کہ طالب علموں کو علم کی طلب ہی نہیں رہی ہے ان کو پیسے کمانے کے لیے ایکڈگری چاہیئے جوکہ صرف ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے اس کے لیے محنت ولگن کی کیا ضرورت ؟ لہٰذا اب اس سوچ کو بدلنا ہوگا کہ معیار تعلیم اور قابلیت کے بغیر بھی روزگارمل سکتا ہے۔ ابتدا میںصرف اپنی افرادی قوت کوصحت مند ، قابل اور ہنرمندبننا ہوگا جس کے لیے تعلیم وصحت کے شعبے میں نمایاں تبدیلی لانی ہوں گی۔صرفف مالی نہیں انتظامی بھی ۔تب ہی ملک ترقی کرے گا ورنہ فراہم کردیجئے "روزگار" ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔

تازہ ترین