• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بدعنوانی کیخلاف قوم، ادارے، طبقات عمران کا ساتھ دیں، حکومت

اسلام آباد(طاہرخلیل‘اے پی پی) وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات چوہدری فوادحسین نے کہاہے کہ حدیبیہ سے شروع ہونے والامنی لانڈرنگ کا سفر ہل میٹل سے ہوتے ہوئے زرداری کے اومنی گروپ اور شہباز شریف کے ٹی ٹیز اور اکاؤنٹس تک پہنچ گیاہے، شریف اور زرداری خاندان نے بدعنوانی، لوٹ مار اوردولت کی منتقلی کیلئے ایک ہی طریقہ کار اپنایا، احتساب کا عمل شفاف انداز میں آگے بڑھایا جارہا ہے اس میں کسی سے انتقام نہیں لیا جارہا ہے، بدعنوانی سے کمائی گئی دولت پاکستان واپس لائیں گے، بدعنوانی کے خلاف جنگ تمام طبقات کی جنگ ہے،قوم‘ تمام اداروں اور طبقات کو وزیراعظم عمران خان کا اس ضمن میں ساتھ دینا چاہئے، مہنگائی ، ڈالر کی قدر میں اضافہ اور ہمارے بیشتر مسائل کے ذمہ دار پاکستان پر ایک عشرے سے زیادہ حکومت کرنے والے دو خاندان ہیں، منی لانڈرنگ کے ذریعے لوٹی ہوئی دولت باہر بھیجنے اور اس دولت کو استعمال میں لانے کیلئے منصوبہ تخلیق اورعمل کرنے کی ذمہ داری اقتصادی ہٹ مین اسحاق ڈار کو سونپی گئی، ناجائز ذرائع سے حاصل شدہ دولت کو استعمال کرنے کیلئے 1992ءمیں اقتصادی اصلاحات کا ایکٹ متعارف کرایا گیا‘صدارتی نظام کے حوالے سے بحث غیر سنجیدہ ہے‘اس کیلئے دستورمیں ترمیم لانا ہوگی اور موجودہ حالات میں آئینی ترمیم پر اتفاق رائے نہیں ہوگا، وزیراعظم عمران خان پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہیں اور ان کے پیچھے پوری قوم کھڑی ہے۔ اتوار کو یہاں وزیر مملکت محصولات حماد اظہر اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے چوہدری فواد حسین نے کہا کہ منی لانڈرنگ کے جو کیسز سامنے آرہے ہیں ضروری ہے کہ قومی کے سامنے حقائق رکھے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ 1947ءسے 2008ءتک پا کستا ن کا کل قرضہ 37 ارب ڈالر تھا، 2008ءسے 2018ءکے دوران پاکستان کا قرضہ 97ارب ڈالر تک پہنچا۔ ان دس برسوں میں پاکستان پر قرضہ کے بوجھ میں 60 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ ان دس برسوں میں زرداری اور شریف خاندان پاکستان کے حکمران رہے جنہوں نے ایک ہی طریقہ کار کے تحت قوم کا پیسہ لوٹ کر پہلے اسے باہر منی لانڈرنگ کے ذریعے بھجوایا اور بعد میںاس پیسے کا کچھ حصہ اسے مختلف طریقوں سے ملک واپس پہنچاتے رہے ۔ انہوں نے کہا کہ بدعنوانی اور لوٹ مار کی کہانی شریف خاندان سے شروع ہوتی ہے۔1985ءمیں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب بن جاتے ہیں اور 1990ء میں وہ وزیراعظم کا منصب سنبھالتے ہیں‘ بعد میں شہباز شریف کو بھی اقتدار میںشامل کیا گیا۔ ان کا ایک ہی مقصد تھا کہ سرکاری پیسے اور وسائل کو کس طرح کھایا جائے۔1989 اور 1990 میں جب اس خاندان کے پاس بہت سارا پیسہ جمع ہوا تو اس پیسے کے استعمال کا سوال پیدا ہوا۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ ناجائز ذرائع سے حاصل شدہ دولت کو استعمال کرنے کیلئے 1992ء میں اقتصادی اصلاحات کا ایکٹ متعارف کرایا گیا۔ اس ایکٹ میں اس بات کی اجازت دی گئی تھی کہ اگر کوئی بیرونی ممالک سے پاکستان میں پیسہ یا زرمبادلہ لاتا ہے تو لانے والے سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔ یہ ایکٹ شریف خاندان نے لوٹی ہوئی رقوم کو استعمال کرنے کیلئے متعارف کرایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ منی لانڈرنگ اور کرپشن کے حوالے سے حدیبیہ پیپر مل ایک مثال ہے جو شریف خاندان کی ملکیت تھا۔1996-97ء اور 1997-98ءمیں حکام نے حدیبیہ پیپر مل کے مشکوک لین دین کا مشاہدہ کیا۔حدیبیہ پیپر مل کی کل قیمت یا پیڈ اپ کیپٹل 9 کروڑ روپے تھی، اچانک اس میں 85 کروڑ روپے کا اضافہ دیکھنے میں آیا جس پر تحقیقات کا آغاز ہوا کہ اچانک اس میں 85 کروڑ روپے کہاں سے آگئے۔ تحقیقات میں معلوم ہوا کہ لانے والے پیسہ کے وصول کنندہ اور اس سے فائدہ اٹھانے والوں میں میاں محمد شریف، شمیم اختر، میاں عباس شریف، مریم صفدر، صبحیہ عباس، حسین نواز اور حمزہ شہباز شریف شامل تھے۔چوہدری فواد حسین نے کہا کہ شریف خاندان نے منی لانڈرنگ کے ذریعے لوٹی ہوئی دولت باہر بھیجنے اور اس دولت کو استعمال میں کرنے کیلئے ایک شیطانی منصوبہ تخلیق کیا جس کی ذمہ داری اقتصادی غارت گر (ہٹ مین) کو سونپی گئی۔ اسحاق ڈار نے جعلی اکاؤنٹس بنائے‘ اس کے علاوہ حوالہ اور ہنڈی کا استعمال کرکے اس نے پہلے لوٹی ہوئی دولت باہر منتقل کی اور پھر اس دولت کا کچھ حصہ ملک واپس لاتے رہے۔وزیر اطلاعات نے کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان سے باہر بھیجے گئے پیسے کو چالیس افراد کے ذریعے وطن واپس منتقل کیا گیا ان چالیس افراد میں شریف خاندان کے دور پار کے رشتہ دار اور غریب پس منظر کے حامل افراد شامل تھے۔ اسحاق ڈار نے 2000ءمیں حکام کے سامنے خود اعتراف جرم کیا اور منی لانڈرنگ کی تمام تفصیلات بیان کیں تاہم پرویز مشرف کے دور میں این آر او کے ذریعے شریف خاندان ملک سے واپس چلا گیا اوریوں اس کیس پر پیشرفت نہ ہوسکی۔ انہوں نے کہا کہ حدیبیہ پیپر مل میں بدعنوانی کے جس طریقہ کار کو اختیار کیا گیا تھا وہی طریقہ کار ہل میٹل میں بھی اختیار کیا گیا، ہل میٹل کیس میں حسین نواز نے ایک ارب 16 کروڑ 56 لاکھ روپے نواز شریف کو ٹی ٹی کے ذریعے بھیجے۔ نواز شریف نے 82 کروڑ روپے مریم نواز کو دیے جس سے مریم نواز نے زرعی اراضی خریدی۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ بدعنوانی کے حوالے سے آصف علی زرداری نے اسی ماڈل کے ساتھ ساتھ اختراعی طریقہ کار اپنایا۔آصف علی زرداری نے پورا بنک خریدااور سندھ میں ایک پورا نیٹ ورک بنایا گیا جس کے تحت جعلی اکاؤنٹس بنائے گئے ان میں سے بیشتر اکاؤنٹس ایسے افراد کے نام پر بنائے گئے جن کا تعلق انتہائی پسماندہ طبقات سے تھا۔ان میں فیصل آباد کا وہ فالودہ والا بھی شامل تھا جس کے اکاؤنٹ میں اربوں روپے تھے۔تحقیقات کے نتیجہ میں پتہ چلا کہ پانچ سو کے قریب اکاؤنٹس ایسے ہیں جو 32 اکاؤنٹس سے چلائے جارہے ان 32 اکاؤنٹس میں سے بلاول ہاؤس کے اخراجات اور بختاور کی سالگرہ کے اخراجات کی ادائیگی بھی کی گئی ہے۔ یہ سارا نیٹ ورک اومنی گروپ، ٹھیکیداروں، سندھ کیلئے پی ایس ڈی پی کے فنڈز، ماڈلز اور مشکوک اکاؤنٹس پر مشتمل تھا جس کے ذریعے منی لانڈرنگ کی جاتی رہی۔ زرداری اینڈ کمپنی نے سندھ کے لوگوں کا پیسہ لوٹا ہے جن کا پتہ لگا لیا گیا ہے اور اب تحقیقات کا عمل جاری ہے۔وزیر اطلاعات نے کہا کہ شہباز شریف کے خلاف آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے کی جب تحقیقات شروع ہوئیں تو اکتوبر اور نومبر میں اچانک شہباز شریف خاندان کے ارکان آہستہ آہستہ باہر جانے لگے، نصرت شہباز، علی عمران، سلمان شہباز اور شہباز شریف کی بیٹیاں ملک سے باہر جانے لگے۔ حکام نے مشاہدہ کیا کہ شہباز شریف خاندان سے متعلق 200 سوئفٹ پیغامات یا ٹی ٹی کے ذریعے رقوم بھجوائی گئی ہیں، سوئفٹ پیغام پیسے کی منتقلی سے متعلق ہوتا ہے۔ ان سوئفٹ پیغامات کے ذریعے شہباز شریف کو 36 ملین ڈالر کی منتقلی ہوئی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جو ٹی ٹیز شہباز شریف خاندان کے ارکان کو ہوئی ہیں ان میں سے ٹی ٹی کے ذریعے حمزہ شہباز کو ان کے کل ڈکلیئر اثاثوں کا پچانوے فیصد، سلمان شہباز کو 99 فیصد، نصرت شہباز کو 85 فیصد اور شہباز شریف کی بیٹیوں کو 100 فیصد بھیجے گئے۔یہ وہ پیسے ہیں جو پاکستان میں نہیں کمائے گئے۔ شہباز شریف نے جو اثاثے ڈکلیئر کئے ہیں اس میں واحد ڈکلیئر اثاثہ تنخواہ کا ہے جو اس نے وزیراعلیٰ کے طور پر لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ وسپرنگ پائن اسلام آباد ڈی ایچ اے فیز5 میں تہمینہ درانی کے لئے بنگلہ خریدا گیا۔ شہباز شریف نے تین اپارٹمنٹس خریدے ہیں جن کی ادائیگی بھی ٹی ٹی کے ذریعے کی گئی ہے۔ شہباز خاندان نے ٹی ٹی کے ذریعے خریداری کی ہے اس میں 87ایچ ماڈل ٹاؤن، ڈی ایچ اے فیز 5، لاہور میں تہمینہ درانی کے نام اراضی، اسلام آباد میں تہمینہ درانی کے نام اراضی شامل ہے، اگست 2008ءمیں نصرت شہباز نے ٹی ٹی کے ذریعے فنڈز شہباز شریف کو ٹرانسفر کئے جس سے انہوں نے لگژری گاڑی کی کسٹم ڈیوٹی ادا کی۔ انہوں نے کہا کہ جو 200 ٹی ٹیز کی گئی ہیں اس میں سے 70 کے قریب کی شناخت ہوئی ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے شہباز شریف خاندان کو پیسے بھیجے ہیں۔ ان میں پنڈ دادنخان سے تعلق رکھنے والا پاپڑ فروش منظور بھی شامل ہے جس نے ایک ملین ڈالر کی ٹی ٹی کی ہے اسی طرح صادق پلازہ کے سامنے ریڑی لگانے والے محبوب علی کے ذریعے تین لاکھ ڈالر کی ٹی ٹی کرائی گئی اسی طرح رفیق نامی ایک ایسے شخص کے شناختی کارڈ پر ٹی ٹی کی گئی ہے جو بہت عرصہ پہلے انتقال کرچکے ہیں۔ بیشتر ٹی ٹیز ایسے لوگوں سے کرائی گئی ہیں جو جعلی یا گھوسٹ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف انگلی لہرا لہرا کر کہتے تھے کہ اگر ان پر ایک پیسے کی بھی کرپشن ثابت ہوجائے وہ سیاست چھوڑ دیں گے آج حقیقت قوم کے سامنے آگئی ہے حدیبیہ سے شروع ہونے والا سفر ہل میٹل سے ہوتے ہوئے زرداری کے اومنی گروپ اور شہباز شریف کے ٹی ٹیز تک پہنچ گیا ہے۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ احتساب کا عمل آگے بڑھے گا، بدعنوانی کے خلاف جنگ تمام طبقات کی جنگ ہے، اس جنگ میں قوم‘ تمام اداروں اور طبقات کو وزیراعظم عمران خان کا ساتھ دینا چاہئے۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان کے عوام کا پیسہ لوٹ کر باہر بھیجا گیا یہ ہمارے بچوں کا پیسہ ہے۔ مہنگائی، ڈالر کی قدر میں اضافہ اور ہمارے بیشتر مسائل کے ذمہ دار پاکستان پر ایک عشرے سے زیادہ حکومت کرنے والے یہ دو خاندان ہیں۔ ایک سوال پر وزیر اطلاعات نے کہاکہ احتساب اور لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کیلئے وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف نے واضح موقف اختیار کیا ہے اسی موقف کی وجہ سے پاکستان میں بدعنوانی کے حوالے سے ایک سوچ پیدا ہوئی ہے، ہماری ایک آئینی حکومت ہے اور ہم اپنے دائرہ کار میں احتساب اور شفافیت کے عمل کو آگے بڑھائیں گے اس کے ساتھ ساتھ تمام اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بدعنوانوں کا گھیرا تنگ کرنے میں حکومت کی مدد کریں۔ احتساب کا عمل شفاف انداز میں آگے بڑھایا جارہا ہے اس میں کسی سے انتقام نہیں لیا جارہا ہے انشاءاللہ بدعنوانی کا پیسہ پاکستان لائیں گے۔ قومی احتساب بیورو سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات نے کہا کہ جب سے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے چیئرمین کا منصب سنبھالا ہے اس وقت سے نیب کی کارکردگی میں بہتری آرہی ہے، نیب نے کافی حد تک اور ایک بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ بدعنوانی کے مقدمات طویل ہوتے ہیں اور اس میں عرصہ لگتا ہے۔ انہوں نے کہا وزیراعظم پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہیں اور ان کے پیچھے پوری قوم کھڑی ہے۔ صدارتی نظام سے متعلق سوال پر وزیرمملکت نے کہا کہ یہ غیرسنجیدہ سوال اور سوشل میڈیا کا شوشہ ہے، پاکستان میں 1973ءکا متفقہ آئین موجود ہے جس میں نظام حکومت کا تعین کردیا گیا ہے۔ یہ غیرسنجیدہ بحث ہے اور سوشل میڈیا پر اس طرح کے شوشے چلتے رہتے ہیں۔ وزیرمملکت برائے محصولات حماد اظہر نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ اسحاق ڈار مفروضوں پر بات کررہے ہیں ، اسحاق ڈار نے ملک کی معیت کو تباہ کیا ہے،آج تک کسی اقتصادی ماہر نے اسحاق ڈار کی پالیسیوں کی حمایت نہیں کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کے حکمرانوں کی وجہ سے میکرو اکنامک عدم توازن اور حسابات جاریہ کا خسارہ جیسے مسائل پیدا ہوئے، ہم نے معیشت کو ریسکیو کیا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر اور برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ دس برسوں میں دونوں خاندانوں نے ایک ہی مقصد اور ایک ہی طریقہ کار کے تحت لوٹ مار کی حتیٰ کہ ایک جیسے ایجنٹوں کا استعمال کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کل خواتین کی گرفتاری کا ایک ایشو کھڑا کیا گیا، خواتین قابل احترام ہیں لیکن قانونی بات یہ ہے کہ اگر نصرت شہباز کے اکاؤنٹ میں ملین ڈالر کی ٹی ٹی ہوتی ہے یا ان کے صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کے اکاؤنٹس میں رقوم منتقل ہوتی ہیں تو نیب کو سوال کرنے کا حق ہے اگر نیب سوال نہیں کرے گا تو نیب کے کردار پر سوالات اٹھیں گے۔کرپشن کرنے والے عناصر سے قانونی پوچھ گچھ نیب کی ذمہ داری ہے ،نیب تحقیقات کرکے اپنے فرائض انجام دے رہی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ کرپشن کے خلاف جنگ کی ذمہ داری صرف عمران خان کی نہیں پوری قوم کی ہے ۔مائیں بہنیں سب کیلئے قابل احترام ہوتی ہیں ، بدعنوانی کی تحقیقات بھی قومی فریضہ ہے۔انہوں نے کہاکہ تحقیقات جاری ہے اور ن لیگ کی بھی کوئی ایان علی سامنے آ جائے گی ۔

تازہ ترین