• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:پرویز فتح…وٹفورڈ
(دوسری قسط)
حکومت کا خیال تھا کہ اگر قیادت کو عوام سے جدا کر دیا جائے تو عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کیا جا سکے گا۔ اسی نقطۂ نظر کے تحت انہوں نے بڑی چالاکی سے صلاح و مشورہ کے بہانے ڈاکٹر سیف الدین کِچلو او ڈاکٹر ستیہ پال کو ڈپٹی کمشنر کے بنگلہ پر بلایا۔ جب دونوں ڈاکٹر صاحبان وہاں پہنچے تو ان سے ڈیفنس آف انڈیا رولز کے تحت امرتسر چھوڑنے کے حکم کی تعمیل کرائی گئی اور انہیں ایک کار میں بٹھا کرامرتسر سے باہر بھیج دیا گیا۔ پولیس نے ان کے ساتھیوں کو روک رکھا تھا تاکہ دونوں ڈاکٹر صاحبان کے خلاف کارروائی کی خبر شہرمیں نہ پہنچ سکے۔ جب صبح کے گئے ہوئے ڈاکٹر صاحبان دوپہر تک واپس نہ لوٹے تو لوگوں میں تشویش پیدا ہوئی اور یہ قیاس آرائی کی جانے لگی کہ قائدین کو گرفتار کر لیا گیا ہے اس سے زبردست اشتعال پھیل گیا۔ان کی گرفتاریوں کے خلاف احتجاجی جلسہ ہوا اور فیصلہ ہوا کہ وفد بنا کر ڈپٹی کمشنرسے ملاقات کی جائے اور قیادت کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں۔ جب وفد ڈپٹی کمشنر کی رہائش گاہ کی طرف جانے لگا تو حاضرین جلسہ بھی ساتھ چل پڑے۔ جوش و ولولے سے سرشار ہجوم کو گھڑسوار فوج کے مسلح دستوں نے راستہ میں روک لیا۔ اس عرصہ میں گھڑسوار فوجیوں میں سے ایک نے گولی چلا دی جس سے دو احتجاجی شہری زخمی ہو گئے۔ اس سے ہجوم مشتعل ہو گیا اور اس نے پاس پڑے اینٹوں کے ڈھیر سے اینٹیں اٹھا کر فوجیوں پرپھینکنا شروع کر دیں۔ فوج نے فائرنگ شروع کردی جس سے کئی لوگ جان بحق ہو گئے جن کی تعداد کوئی 20 کے قریب تھی جبکہ بے شمار زخمی ہو گئے تھے۔ لوگ کہہ رہے تھے حکومت نے وعدہ خوداختیاری کا کیا تھا لیکن دے گولیاں رہی ہے۔ اس خون ریز واقعہ کی اطلاع شہر بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور امرتسر آتش فشاں بن گیا۔ پرامن شہری بپھر گئے۔ قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم ہو گیا۔ اب بپھرے ہوئے مشتعل عوام سے کوئی غیرملکی شہری یا املاک محفوظ نہ تھی۔ گوروں کو مارا گیا، بینکوں کو لوٹا گیا اور ڈاک خانوں کو جلا دیا گیا۔اس سے قبل ڈاکٹر سیف الدین کِچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال نے گاندھی جی کو امرتسر آنے کی دعوت دے رکھی تھی۔ جب وہ 7 اپریل کو دھلی سے امرتسر کے لیے روانہ ہوئے تو انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔ ادھر 10 اپریل کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والوں کی میتوں کو ٹھکانے لگانا انتظامیہ کے لیے مسئلہ بن گیا تھا۔ حکومت نے تمام اجتماعات پر پابندی عائد کر دی اور جنازے کے ساتھ صرف 8 افراد کو جانے کی اجازت تھی۔ پندرہ منٹ کے وقفے سے جنازے شہر کے اہم علاقوں سے گزر کر قبرستان شمشان بھومی جا سکتے تھے۔اب جابرانہ احکامات کا عوام پر ذرہ برابر بھی اثر نہ ہوتا تھا۔ عملاً شہر سے باہر انگریزوں کی حکومت تھی اور شہر کے اندر ہندو مسلم راج تھا۔ حکمران اپنے جاہ و جلال کو ڈوبتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور وہ جانتے تھے کہ یہ صورت حال ایسے ہی رہی تو برطانیہ کو سرزمین ہندوستان سے بوریا بستر لپیٹ کر رخصت ہونا پڑے گا امرتسر اور دھلی کے علاوہ قصور، لاہو، گوجرانوالہ، لائل پور، گجرات، شیخوپورہ، وزیرآباد اور دیگر شہروں سے، جو اب پاکستان کا حصہ ہیں، حکومت کے لیے دل شکن اطلاعات موصول ہو رہی تھیں اور سامراج سے نجات کی لہر دوردراز دیہاتوں تک پھیل چکی تھی۔جلیانوالہ سانحہ سے ایک روز قبل، 12 اپریل کی رات سنت نگر امرتسر میں ایک جلسہ عام منعقد ہوا جس میں 13 اپریل کو جلیانوالہ باغ میں جلسہ عام کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اگرچہ حکومت نے صبح ہی سے جلسہ کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی لیکن دن بھر جلیانوالہ جلسہ عام کا اعلان ہوتا رہا۔ حکومت نے حکم جاری کر دیا کہ رات 8 بجے کے بعد اگر کوئی شخص گھر سے باہر نکلا تو اسے گولی مار دی جائے گی۔ چار آدمیوں سے زیادہ ایک جگہ پر اکٹھے ہونے کو جرم قرار دے دیا گیا تھا۔ جنرل ڈائر فوج کا کمانڈر تھا اور اس نے امرتسر کے ابتر حالات کے پیش نظر جالندھر سے مزید فوج بلا لی تھی۔ اس نے 13 اپریل کی صبح مشین گنوں اور خود کار اسلحہ سے لیس دستوں کے ساتھ شہر کا گشت کیا تاکہ لوگوں پر دہشت طاری کی جا سکے۔ عوام بے خوف و خطر باہر نکل آئے۔ 13 اپریل کو بیساکھی کی پہلی تاریخ ہوتی ہے۔ امرتسر میں اس روز میلے کا سا سماں ہوتا ہے اور دوردراز سے لوگ بیساکھی میلہ میں شرکت کے لیے آتے ہیں۔ اس میلے کا مرکز بھی جلیانوالہ باغ ہی ہوتا ہے۔ اس لیے میلہ میں شامل لوگ بھی جلسہ میں شریک تھے۔ 4 بجے بعد دوپہر تک جلسہ گاہ میں تل دھرنے کو جگہ نہیں بچی تھی۔ اس سانحہ میں زخمی ہونے والوں کے مطابق وہاں 35 سے 40 ہزار کے قریب انسانوں کا جمِ غفیر تھا۔ جنرل ڈائر نہتے اور پرامن شہریوں کے خون سے پیاس بجھانے کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا۔ اسے جونہی ایس پی نے جلسہ شروع ہونے کی رپورٹ دی تو اس نے فوج کو جلیانوالہ باغ کی جانب کوچ کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ فوجی قافلے کے آگے آگے دو فوجی کاریں تھیں جن پر مشین گنیں نصب کی ہوئی تھیں۔ قافلہ جونہی جلیانوالہ باغ پہنچا تو باغ کا واحد راستہ صرف تین فٹ چوڑا تھا اور مشین گنوں سے مسلح کاروں کو باہرچھوڑ کر جانا پڑا۔ اس وقت شام کے 5 بج چکے تھے۔ اس جلسہ کی صدارت ڈاکٹر سیف الدین کِچلو کو کرنا تھی لیکن فرنگی حکومت نے انہیں گرفتار کرکے شہر کے باہر پہنچا دیا تھا۔ اب جلسہ کی صدارت ڈاکٹر سیف الدین کِچلو کی تصویر کر رہی تھی۔ جب جنرل ڈائر اپنے فوجی دستوں کے ہمراہ جلسہ گاہ میں داخل ہوا تو وہاں انسانی سروں کا جنگل نظر آ رہا تھا۔ جلسہ پورے جوش و خروش سے جاری تھا اور اس وقت مسٹر درگا داس خطاب کر رہے تھے۔ اس سے قبل 16مقررین خطاب کر چکے تھے تقاریر رولیٹ ایکٹ کے خلاف ہو رہی تھیں۔ فوج کو دیکھ کر تھوڑی سی ہل چل ہوئی جو جلد ختم ہو گئی۔ اسی دوران جلسہ گاہ کے اوپر فوجی طیاروں نے پرواز کی تو ایک مرتبہ پھر کھلبلی مچ گئی لیکن جلسہ کی کارروائی جاری رہی۔ رہنما کہہ رہے تھے ہمیں جلسہ کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ تقریر، تحریر اور اجتماع کی آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے جس سے کسی کو محروم نہیں بنایا جا سکتا۔ ہندوستان کسی ایسے قانون کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہے جس سے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوتے ہوں۔ توپوں اور بندوقوں کی نمائش سے انسانی آزادی کو چھینا نہیں جا سکتا۔ اچانک جنرل ڈائر نے گولی چلانے کا حکم دے دیا۔ پرامن اور نہتے سامعینِ جلسہ کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ جوان، بوڑھے، بچے اور عورتیں اس بربریت کا شکار ہوئیں۔ چیخ و پکار آسمان کو چھو رہی تھی۔ جلیانوالہ باغ کے اندر ایک بڑا کنواں تھا اور لوگ اپنی جان بچانے کے لیے کنویں میں کودتے رہے اور کنواں انسانوں سے بھر گیا۔ جنرل ڈائر نے دس منٹ تک فائرنگ کو جاری رکھا تاوقتیکہ اسلحہ ختم ہو گیا۔ سینکڑوں بے گناہ لوگ موقع پر ہی شہید ہو گئے اور بے شمار زخمی بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے جان کی بازی ہار گئے۔ ان میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی اور سکھ بھی تھے اور عیسائی بھی، لیکن سب انسان تھے۔ ان کا ایک ہی جرم تھا، آزادی کی خواہش، آزادی کی تمنا اور آزادی کی آرزو۔ انہوں نے آزادی کے حصول کے اعلیٰ مقصد کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کرکے برصغیر کی آزادی کی راہ اپنے مقدس خون سے متعین کر دی۔ جنرل ڈائر اپنی سفاکی اور خونخواری پر قائم رہا اور بالکل ندامت محسوس نہ کی۔ 25اگست 1919 کو اس نے جو بیان دیا اس پر عمر بھر سختی سے قائم رہا۔ وہ برصغیر کے عوام کی نظر میں ایک درندہ صفت انسان تھا ہی، مگر اس کا اقدام اس کے ہم وطنوں کے نزدیک بھی بے رحمانہ قتل عام تھا۔ 1920میں جنرل ڈائر کے وحشیانہ اقدام پر برطانیہ بھر میں شدید شور برپا ہوا اور برطانوی رائے عامہ دو حصوں میں بٹ گئی۔ برطانیہ کی آبادی کا بڑا حصہ اس درندگی، بربریت او سفاکی کو برطانوی سامراج کے دامن پر بدنما داغ تصور کرتا تھا۔ ان کے نزدیک ڈائر کا فعل جون آف آرک کو زندہ جلا دینے کے واقعے کے بعد سب سے زیادہ سنگین اور شرمناک واقعہ تھا۔ اس سے جنرل ڈائر کی ہی نہیں پوری برطانوی قوم کی دنیا بھر میں ذلت و رسوائی ہوئی تھی۔ اس خونریز واقعہ کے بعد برصغیر ایک دھکتا ہوا الاؤ بن گیا۔ غلامی کی زنجیریں اس تپش کی تاب نہ لا سکیں اور صرف اٹھائیس برسوں میں پگھل کر گر پڑیں۔سانحہ جلیانوالہ کا ایک اور اہم کردار پنجاب کا لیفٹینینٹ گورنر سر مائیکل اڈوایٔر تھا، جس کی رضا مندی اور اشیرباد کے بغیر جرنل ڈائر اس وحشیانہ درندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھاـ ۔ 1919 کے اختتام میں جب وہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہو کر برطانیہ لوٹا تو اس کے جرائم اس کا پیچھا کرتے رہےـ ۔ پنجاب کا ایک نوجوان سپوت اودھم سنگھ جو سانحہ جلیانوالہ باغ کے وقت صرف 19 برس کا تھا ، اس کا پیچھا کرتا ہوا برطانیہ آ گیا ـ 13 مارچ 1940 کو سر مائیکل اڈوایٔر لندن کے کاکسٹن ہال میں تقریر کر کے اپنی سیٹ پر بیٹھنے ہی والا تھا کہ اودھم سنگھ نے فائرنگ کر کے اسے ہلاک کر دیاـ اودھم سنگھ نے بڑے فخر کے ساتھ اس قتل کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ’میں نے اس جرم کا ارتکاب کیا ہے ۔ میرا سینہ جلیانوالہ باغ کے خونی سانحہ سے دھک رہا تھا‘۔ پولیس کو اس نے اپنا نام ’رام محمد سنگھ آزاد‘ بتایا۔ اس طرح شہید اودھم سنگھ رام نومی تحوار کی طرح ایک بار پھر تمام مذاہب کے اتحاد کی علامت بن کر اپنے ملک اور اس کے شہیدوں کا انتقام لیتے ہوئے خوشی خوشی پھانسی چڑھ گیا۔میں جلیانوالہ باغ سانحہ سو سالہ تقریبات کمیٹی کی جانب سے ان تمام خواتین و حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنی تصنیفات، جرائد، مضامین اور پمفلٹس کے ذریعے جلیانوالہ باغ سانحہ کے متعلق حقائق کی اشاعت کر کے اسے آنے والی نسلوں تک منتقل کیا، جس میں وکی پیڈیا پر شائع کی گئیٔ رپورٹ، ہندوستانی ادیبہ محترمہ کشور ڈیسائی اور پاکستانی ادیب محمد فاروق قریشی کی تصانیف قابل ذکر ہیں۔آج ہم جب جلیانوالہ باغ کی صد سالہ یاد میں تقریبات منعقد کر کے برطانوی حکومت سے اس وحشیانہ درندگی پر معافی مانگنے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو اس کا پہلااور بنیادی مقصد تو اپنے شہیدوں کو انصاف دلانا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم آج کے دور میں جاری جلیانوالہ جسے سانحات، جو سامراج کی مسلط کردہ جنگوں کی صورت میں ترقی پذیر ممالک میں جاری ہیں، ان کے خاتمہ کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ ترقی پذیر ممالک میں جاری جلیانوالہ باغ کی مثالیں دینا شروع کریں تو لسٹ ختم ہی نہ ہو۔ 1984 میں گجرات میں قتلِ عام، 12 مئی کو کراچی میں قتلِ عام، طالبان بنانا، طالبان مکانا، سب اسی کی کڑیاں ہیں اور یہ بربریت ہمارے اپنے ملکوں پہ مسلط سامراجی گماشتے حکمران اور بیوروکریسی ڈھاتی ہیں جوہمارے ملکوں کے عوام اور ان کے وسائل پر قابض ہیں۔ نہ کوئی سیاسی حقوق، نہ معاشی حقوق، نہ تعلیم، نہ صحت، نہ روزگار، اور یہ حکمران گدھوں کی طرح ہمارے ملکوں کے وسائل اور عوام کو نوچ رہے ہیں۔آؤ ہم سب مل کر اپنی آزادی کی تکمیل کے لیے ایک ایسی تحریک پیدا کریں جو حقیقی سماجی تبدیلی کی بنیاد بنے ، جس میں ملک کا ہر شہری حقیقی طور پر آزاد، خودمختار اور خوشحال ہو۔جلیانوالہ باغ کے شہیدوں کو سلام، انقلاب ۔ زندہ باد
تازہ ترین