• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کی معاشی، داخلی اور خارجی صورت حال اس وقت اتنی بھی پریشان کن نہیں لیکن ایسی بھی نہیں جسے ہر لحاظ سے اطمینان بخش قرار دیا جا سکے۔ خارجی محاذ پر قوم کو مشرقی سرحدوں سے خطرات کا سامنا ہے تو مغربی سرحدیں بھی پوری طرح محفوظ و مامون نہیں، مسلح افواج نے دہشت گردی کے خلاف دلیرانہ جنگ میں محیرالعقول کامیابیاں حاصل کر کے اس پر قابو پایا مگر فسادی عناصر اب بھی کونے کھدروں میں موجود ہیں جو موقع ملتے ہی کہیں نہ کہیں بے گناہوں کا خون بہانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ امور مملکت ایک نئی منتخب حکومت کے ہاتھ میں ہیں جسے اقتدار میں آئے ابھی ایک سال کا عرصہ بھی نہیں گزرا۔ وہ اپنے طویل المیعاد ایجنڈے اور وژن کے مطابق ملکی معاملات چلا رہی ہے جس کے نتائج برآمد ہونے میں وقت لگے گا ۔اسے بے روزگاری، مہنگائی اور تجارتی خسارے سمیت کئی طرح کے سنگین معاشی مسائل کا سامنا ہے جنہیں حل کرنے کے لئے قوم کے تمام طبقات میں فکری ہم آہنگی اور اتحاد کی اشد ضرورت ہے لیکن بدقسمتی سے کشیدہ اور ناخوشگوار سیاسی فضا اس حوالے سے سدراہ نظر آرہی ہے، اس وقت ملک میں انتخابات ہو رہے ہیں نہ کوئی ہنگامی حالت ہے جس کے خلاف ہنگامہ شور شرابا ہو۔ پھر بھی سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے۔ حکمران پارٹی کے وزراء اپوزیشن اور اس کے سرکردہ لیڈروں کے خلاف روزانہ تندو تیز بیانات جاری کر رہے ہیں اور پریس کانفرنسوں، سماجی اجتماعات اور سیاسی جلسوں میں ان کے لتے لے رہے ہیں۔ کوئی انہیں معاشی بدحالی، مہنگائی، ڈالر کے عدم استحکام اور غربت کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے تو کوئی انہیں کرپشن اور لوٹ مار کا بانی قرار دیتا ہے۔ اپوزیشن کے لیڈر اور ترجمان ان کے الزامات کا ترکی بہ ترکی جواب دے رہے ہیں۔ وہ حکمرانوں کو اناڑی، نااہل ،ناتجربہ کار اور اس طرح کے دوسرے توہین آمیز خطابات سے نواز رہے ہیں۔ ایک دوسرے پر ایسے ایسے الزامات لگائے جا رہے ہیں جن کا بیشتر صورتوں میں ان کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت ہیں نہ شواہد۔ ایسے الزامات پر ہتک کے مقدمات بھی بن رہے ہیں اور کئی زیر سماعت ہیں۔ کرپشن اور منی لانڈرنگ حکمرانوں کا پسندیدہ موضوع ہے۔ سوشل میڈیا سمیت تمام فورمز پر اپوزیشن کے خلاف اپنے ادوار حکومت میں اربوں روپے کی بدعنوانی اور لوٹ مار کے الزامات کو اچھالا جا رہا ہے۔ اگرچہ نیب مختلف لوگوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات چلا رہی ہے جن کا حتمی فیصلہ عدالتیں ہی کریں گی لیکن حکومتی زعما خود بھی نیب کے اقدامات کی وکالت کر رہے ہیں جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے جیسے یہ کارروائیاں خود حکومت کروا رہی ہے۔ اپوزیشن اس تاثر کو اپنے بیانات اور جلسے جلوسوں کے ذریعے مزید پھیلا رہی ہے جس سے قوم کے مختلف سیاسی حلقوں اور طبقوں میں ایک دوسرے کے خلاف منافرت کو ہوا مل رہی ہے۔ سیاسی بیان بازی میں ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے، انہیں بدعنوان، جھوٹا اور فریبی قرار دینے میں سبقت حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس طرح کی صورت حال ملکی معیشت، سرمایہ کاری اور کاروبار کے لئے سازگار ہے نہ قومی اتحاد یک جہتی کے لئے مناسب۔ مہذب قومیں اپنے مسائل پر سڑکوں اور جلسے جلوسو ں کے بجائے اپنی اپنی پارلیمان میں بحث کرتی اور اپنے حق میں اور مخالفین کے خلاف ٹھوس دلائل سے اپنا موقف پیش کرتی ہیں۔ یہ قومی مسائل و مشکلات کو بیان کرنے اور ان کا حل تلاش کرنے کا جمہوری طریقہ ہے۔ دشنام طرازی، گالی گلوچ اور غیر مہذب زبان میں ایک دوسرے کو للکارنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ انہیں سنجیدہ غور و فکر اور ٹھوس دلائل و براہین سے ہی حل کیا جا سکتا ہے جس کے لئے مناسب ترین پلیٹ فارم منتخب اسمبلیاں ہیں۔ بالغ نظر سیاستدانوں کو خواہ ان کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے چاہئے کہ پارلیمنٹ کے اندر ماحول کو گرم رکھیں باہر ٹھنڈے دل و دماغ سے کام لیں اور قوم کو اضطراب ذہنی خلجان اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا نہ کریں۔قومی مسائل پر سیاسی مناظروں کا صحیح مقام پارلیمنٹ ہے۔

تازہ ترین