• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی میں بے شمار لوگوں سے پالا پڑتا ہے۔ ان میں سے کچھ یاد رہ جاتے ہیں اور کچھ اپنی کسی نہ کسی عادت یا تکیہ کلام کی وجہ سے علامتی کردار کی حیثیت اختیار کرجاتے ہیں۔ مثلاً میرے ساتھیوں میں سے ایک ساتھی کا تکیہ کلام تھا ’’ناں کی لئی دا‘‘ چنانچہ لوگ ان کا اصل نام بھول گئے اور انہیں ان کے تکیہ کلام ’’ناں کی لئی دا‘‘ سے پکارنے اور یاد کرنے لگے۔ وہ صاحب بھی اس قدر مستقل مزاج تھے کہ مذاق اور تمسخر کے باوجود اُنہوں نے نہ اپنی عادت بدلی اور نہ ہی تکیہ کلام ترک کیا۔ میرے جاننے والوں میں ایک ایسے اسکول ٹیچر بھی تھے جو ہر بات، ہر ملاقات کا آغاز ’’اللہ مصلے‘‘ سے کرتے تھے، چنانچہ احباب اُنہیں اِسی تکیہ کلام سے پکارتے، حتیٰ کہ ان کا اصل نام بھلادیا گیا۔ ایک بہت بڑے دانشور اخلاقیات، روحانیت، حسن سلوک، نیکی وغیرہ پہ اس قدر قدرتی انداز سے لیکچر دیتے تھے، جیسے یہ سب کچھ اُن کی شخصیت کا فطری حصہ ہو اور وہ خود اس سمندر میں ڈوبے ہوئے ہوں۔ اُنہیں احباب عقیدت سے صوفی کہتے تھے اور میں اُنہیں نہ صرف صوفی کہتا تھا بلکہ دل سے صوفی سمجھتا بھی تھا۔ وہ اللہ کو پیارے ہو چکے، اللہ پاک اُنہیں جنت الفردوس میں جگہ دے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نہایت رحیم اور کریم ہے، مخلوق سے ماں سے بھی ستر گنا زیادہ پیار کرتا ہے، ہمارے گناہوں کی پردہ پوشی کرتا ہے اور گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ واہ سبحان اللہ کتنا روح افزا، فکر انگیز اور دل کو چھونے والا شعر ہے شاید یہ شعر میاں محمد بخش کے صوفیانہ کلام کا اعجاز ہے:؎

اک گناہ میرے ماپے ویکھن، دیون دیس نکالا

لکھ گناہ میرا اللہ ویکھے پردے پاون والا

ترجمہ (میرے والدین ایک گناہ دیکھیں تو مجھے دیس نکالا دے دیں، جبکہ میرا رب میرے لاکھوں گناہ دیکھتا ہے اور پردہ پوشی کرتا ہے)۔ یادش بخیر! اتوار کا دن تھا اور میں تعزیت کے لئے لاہور کے ایک پوش علاقے میں گیا۔ وہاں سے نکلا تو جی چاہا کہ میں صوفی صاحب سے ملتا اور کچھ فیض حاصل کرتا جائوں کیونکہ ان کی گفتگو کی روانی اور مٹھاس سراسر سبق آموز اور دل میں اترنے والی ہوتی تھی۔ ان کے دولت خانے پر بغیر اطلاع پہنچا کہ صوفی کے گھر جانے کے لئے اجازت یا اطلاع کی ضرورت نہیں ہوتی۔ خاصی تگ و دو اور بار بار گھنٹی بجانے کے بعد ان کا خدمتگار برآمد ہوا۔ اسے اپنا نام عرض کیا اور صوفی صاحب کو سلام بھجوایا۔ وہ اندر گیا اور چند لمحوں کے بعد واپس آکر مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا۔ اب میرے صبر کا امتحان شروع ہوا، پندرہ منٹ نصف گھنٹہ بلکہ کچھ زیادہ ہی وقت گزر گیا۔ میں تنہا نہایت خاموش ڈرائنگ روم میں قیدی بنا بیٹھا رہا۔ انتظار بہرحال کٹھن کام ہے۔ خدا خدا کر کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں، قدموں کی چاپ سنائی دی اور پھر دروازہ کھلا، صوفی صاحب تشریف لائے، ہاتھ ملایا اور فرمایا ’’معاف کیجئے گا، میں نے پھوپھی صاحبہ سے ملنے جانا ہے‘‘۔ میں نے بلا اجازت آنے پر معذرت کی اور کھسیانہ ہو کر گھر سے باہر نکل آیا۔ پیاس سے حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے، کھوکھے سے پانی کی بوتل لے کر پیاس بجھائی اور لوٹ کے بدھو گھر کو آگئے۔ آج کل کبھی کبھار سوشل میڈیا پر ان کے حسن سلوک، اخلاق، احترام انسانیت، رضائے الٰہی بارے صوفیانہ اقوال پڑھتا ہوں تو ان کے چشم فیض سے اپنی روح کی پیاس بجھانے کی کوشش کرتا ہوں اور ان کے اقوال زریں کی روشنی میں اپنی اصلاح بھی کرتا ہوں، اگرچہ اب اس عمر میں اصلاح کیا ہو گی؟۔

معاف کیجئے گا، بات قدرے دور نکل گئی، ذکر کرنا مقصود تھا ڈنڈا صاحب کا اور قلم صوفی صاحب کے اقوال میں الجھ گیا۔ یہ ڈنڈا صاحب بھی خوب ہیں بلکہ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ صاحب چلتا پھرتا ڈنڈا ہیں۔ ان سے تعارف کی تمثیل کچھ یوں ہے کہ میں شام کو جہاں تھوڑی بہت واک کرنے جاتا ہوں یا واک کے بہانے جاتا ہوں، اُس گرائونڈ میں بہت سے حضرات واک کرنے، ایکسرسائز کرنے یا وقت گزارنے تشریف لاتے ہیں۔ اپنی طرف متوجہ وہی کرتا ہے جس میں انفرادیت ہوتی ہے، ورنہ تو ہر شخص اپنے حال میں مست ہوتا ہے اور اگر بیوی کا ڈر نہ ہو تو مستقبل سے بھی بے خوف ہوتا ہے۔ میں مسلسل کئی روز تک ٹریک پہ واک کرتے ایک موٹے پیٹ والے شخص کو دیکھتا رہا جس کے ہاتھ میں ایک چمکدار ڈنڈا ہوتا تھا اور وہ ڈنڈا اپنی پوزیشن بدلتا رہتا تھا۔ کبھی وہ بغل کے نیچے استراحت فرماتا تو کبھی ہاتھ میں کھڑا خوف پھیلاتا اور کبھی کبھی ہوا میں یوں لہرانے لگتا جیسے ہوا کے بدن پر برس رہا ہو۔ کچھ ڈنڈے کی وجہ سے اور کچھ ان کا نکلا ہوا صحت مند پیٹ دیکھ کر مجھے تعارف کرنے کی ہمت نہ پڑتی تھی۔ دن گزرتے گئے حتیٰ کہ ایک روز میں نے ہمت کرہی لی۔ وہ صاحب واک سے دو دو ہاتھ کرنے کے بعد بینچ پر تشریف فرما نظر آئے، اسے ایک گولڈن چانس سمجھ کر میں ان کے پاس اجازت لے کر جا بیٹھا۔ سلام ودعا کے بعد میں نے ان سے براہ راست یہ سوال پوچھ لیا، کیا آپ محکمہ پولیس سے وابستہ ہیں۔ وہ میرا سوال سن کر مسکرائے اور فرمایا ڈاکٹر صاحب میں آپ کو جانتا ہوں لیکن آپ مجھے نہیں جانتے۔ جب آپ پنجاب میں سیکرٹری تھے، میں پولیس انسپکٹر ہوا کرتا تھا۔ پانچ برس قبل ایس پی کے عہدے سے ریٹائر ہوا ہوں۔ ویسے آپ نے کیسے پہچانا کہ میں ’’پُلیسیا‘‘ ہوں۔ میرا جواب تھا کہ اول ڈنڈے سے، دوم آپ کے صحت مند پیٹ سے اندازہ ہوا کہ آپ ’’ضرور بہ ضرور‘‘ پولیس سے ہوں گے۔ ڈنڈا پولیس والوں کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے اور وہ اس کے بغیر آدھے بلکہ ایک چوتھائی دکھائی دیتے ہیں۔ میری بات کاٹتے ہوئے ڈنڈا صاحب نے کہا 39سال تک ڈنڈا ہاتھ میں رکھنے کے بعد یہ میری شخصیت کا حصہ بن گیا ہے۔ میں اس کے بغیر گھر سے باہر نہیں نکل سکتا۔کبھی کبھی ڈنڈا چلانے کی عادت مجھ پر غلبہ پالے تو میں ہوا پہ ڈنڈا مارنا شروع کردیتا ہوں۔ ویسے ڈاکٹر صاحب ’ڈنڈا پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا‘۔ آج صبح میں غسل خانے میں گیا تو پتا چلا کہ ٹوتھ پیسٹ ختم ہو چکی ہے۔ میں نے ٹوتھ پیسٹ کی ٹیوب کو دو ڈنڈے مارے تو اندر سے ٹوتھ پیسٹ نکل آئی۔ سوائے بیوی کے گھر میں ہر کوئی میرے ڈنڈے سے سہما میں رہتا ہے چنانچہ میں خوش رہتا ہوں کیونکہ میرا حکم چلتا ہے۔ گھر سے باہر بھی ڈنڈا میرے ساتھ ہوتا ہے، جس سے بہت سے کام آسان ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب یہ قوم ڈنڈے کی یار ہے، اس سے قبل کہ وہ ڈنڈے کی فضلیت پر مزید لیکچر دیتے مغرب کی اذانیں شروع ہو گئیں۔ میں نے اجازت لینے کے لئے ہاتھ ملاتے ہوئے پوچھا ’’ایس پی صاحب آپ نے ہیر وارث کا وہ شعر تو سنا ہوگا؟‘‘ وہ بولے ’’کون سا‘‘ میں نے عرض کیا ’’وارث شاہ عادتاں سر نال نبھدیاں نے‘‘ یعنی عادات انسان کا موت تک پیچھا کرتی ہیں۔ شعر سن کر انہوں نے قہقہہ لگایا اور میں مسکرا کر باہر نکل آیا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین