• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس مرتبہ لاہور میں سیاسی ملاقاتوں کے علاوہ دو اور تقریبات میں شرکت کا موقع ملا۔ پہلی تقریب مال روڈ پر الحمرا ہال میں تھی جبکہ دوسری تقریب الحمرا کلچرل کمپلیکس، قذافی اسٹیڈیم کے پاس تھی۔ پہلی تقریر ادبی اور دوسری ثقافتی تھی۔ سہ پہر کو ہونے والی ادبی تقریب سید عارف نوناری کی کتاب ’’چیئرنگ کراس‘‘ کی تھی، یہاں کئی پرانے دوستوں سے ملاقات بھی ہوئی۔ ڈاکٹر اجمل نیازی سے پرانی یاد اللہ ہے جبکہ سہیل وڑائچ کا لہجہ باتیں کرتا ہے۔ ڈاکٹر صغرا صدف، بینا گوئندی اور آسناتھ کنول نے خواتین کی خوب نمائندگی کی جبکہ مقصود چغتائی اور نوید مرزا نے ذاتی تجربات بیان کئے۔ حافظ شفیق الرحمٰن نے کالم نگاری کے گر بتائے۔ راشد محمود اور ٹوکیو سے آئے ہوئے عرفان صدیقی نے باتوں سے محبت کی خوشبو تقسیم کی۔ عارف نوناری نارووال کے ایک قریبی قصبے نونار کے رہنے والے ہیں، وہ اس خطے کے رہنے والے ہیں جہاں قریبی دیہات سے فیض احمد فیض، افضل احسن رندھاوا، ڈاکٹر اسد خان اور زیڈ اے سلہری سمیت کئی شخصیات سامنے آئیں۔ بھارتی اداکار راجندر کمار بھی ایک قریبی گائوں سنکھترا کے رہنے والے تھے۔یہاں سے قریب ہی کرتار پور ہے، جہاں بابا گورو نانک کی آخری آرام گاہ ہے۔ کرتار پور بارڈر سانجھے پنجاب کا ’’دومیل‘‘ بننے والا ہے۔ یہاں بیساکھی سمیت کئی میلوں کے موقع پر دونوں اطراف کے پنجاب کے لوگ جمع ہوا کریں گے۔ کرتار پور میں ایک بڑا کلچرل کمپلیکس بھی بننے جا رہا ہے، جہاں دونوں پنجابوں کے فنکار پرفارم کیا کریں گے۔ امکانات کی دنیا کو بھانپتے ہوئے بھارتی پنجاب کے گلوکار وریندر سنگھ اور پاکستانی پنجاب کی فنکارہ میگھا نے ’’سانجھا پنجاب‘‘ کے نام سے ایک بینڈ بنا لیا ہے۔ یہ بینڈ دنیا کے کئی ملکوں میں پرفارم کرے گا۔ ہو سکتا ہے کہ جب بابا گورو نانک کی پانچ سو پچاسویں سالگرہ پر کرتار پور میں تقریبات ہوں تو ان تقریبات کا آغاز میگھا اور وریندر سنگھ کے گیت سے ہو جس کے بول ہیں

سردار جی، سردار جی

تسیں کر لو بارڈر پار جی

ویسے آپس کی بات ہے کہ لاہور میں ’’سانجھا پنجاب‘‘ کے نام سے ایک پروگرام ہو چکا ہے جس کا کریڈٹ فیاض الحسن چوہان کو جاتا ہے۔

کرتار پور کی محبت میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے مگر مجھے دوسری تقریب کا تذکرہ بھی کرنا ہے۔ دوسری تقریب شام کے آنگن میں شروع ہوئی۔ اس تقریب کے لیے نوید بخاری خاصے سرگرم تھے۔ اپنے فاروق الحسن بھی وہیں تھے۔ لوگوں کی بھرپور شرکت سے شروع ہونے والا یہ پروگرام دراصل میلوڈی کوئین شاہدہ منی کو ٹربیوٹ پیش کرنے کی ضمن میں تھا۔ شاہدہ منی ہمارے ملک کی بین الاقوامی شہرت رکھنے والی فنکارہ ہیں اگرچہ انہوں نے اپنی فنی زندگی کا آغاز فن اداکاری سے کیا تھا مگر بعد میں انہوں نے اپنی آواز کا ایسا جادو جگایا کہ لوگ ان کی آواز کے سحر میں مبتلا ہو گئے۔ شاہدہ منی نے گلوکاری کو چار چاند لگا دئیے، اسی لئے تو اس تقریب میں ٹی وی، فلم اور زندگی کے دوسرے شعبوں کے چنیدہ افراد اُنہیں حرفِ ستائش پیش کرنے آئے تھے۔ استاد غلام علی، شوکت علی، حامد علی اور میگھا سمیت کئی نامور شخصیات نے شاہدہ منی کی شخصیت کے ساتھ ساتھ ان کے فن کی تعریف بھی کی۔ میگھا جی نے تو ان کے لئے باقاعدہ گیت تیار کیا ہوا تھا، انہوں نے بسنتی لباس میں خوب پرفارم کیا۔ غیر ملکی گلوکاروں نے بھی گیت گا کر میلوڈی کوئین کو خراج تحسین پیش کیا۔ مجھے بڑے عرصے بعد کسی ثقافتی تقریب میں جانے کا موقع ملا، میں بھی شاہدہ منی ہی کی وجہ سے چلا گیا۔ شاہدہ منی خود تو بڑی فنکارہ ہیں ہی، اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں کی بہت قدر کرتی ہیں۔ وہ صرف محبتیں سمیٹتی نہیں، محبتیں تقسیم بھی کرتی ہیں۔ یہ خوبی اُنہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔

لاہوری تقریبات کا ذکر ہو تو لاہوری سیاست کا ذکر کیوں نہ ہو۔ لاہور کی سیاست میں آج کل ضمانتوں، نیب اور چالاکیوں کا بڑا چرچا ہے۔ سوشل میڈیا پر ضمانتوں پر کیا کیا تبصرے ہوئے وہ تو یہاں بیان نہیں کئے جا سکتے، ویسے آپ سوشل میڈیا پر جا کر اُن تبصروں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ نیب والے بھی روز نوٹس دینے پہنچ جاتے ہیں اور شریف خاندان بھی نت نئی چالاکیوں کا مظاہرہ کرتا ہے۔ منی لانڈرنگ کے قصے سندھ سے شروع ہوئے تھے اب بڑی داستانوں کا تذکرہ پنجاب سے ہونے لگا ہے۔ اگرچہ میرے راوین ملک احمد خان ترجمانی کا حق ادا کر رہے ہیں پھر بھی مجھے حمزہ شہباز سے کچھ کہنا ہے، وہ کالج میں میرے جونیئر تھے، میں ایک سینئر ہونے کی وجہ سے انہیں یہ مشورہ دے رہا ہوں کہ انہیں بہادری اور عزت کا خیال کرتے ہوئے، فوری طور پر اپنے بھائی سلمان شہباز، بہنوئی علی عمران سمیت اسحاق ڈار کو وطن واپس بلوا نا چاہئے تاکہ وہ حالات کا مقابلہ کر سکیں۔ جہاں تک خواتین کا سوال ہے تو اس سلسلے میں نیب والوں کا مؤقف ہے کہ حمزہ شہباز ہر بات کا رخ خود خواتین کی طرف موڑ دیتے ہیں اور اب تو ان کے پاس منی لانڈرنگ کے ثبوت بھی ہیں۔ ویسے منی لانڈرنگ کے قصے فواد چوہدری کو ازبر ہو چکے ہیں، وہ ہر داستان کو نئے رنگ سے پیش کرنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ آج کل سیاست میں پھر سے صدارتی نظام پر بحث چل رہی ہے۔ اس خاکسار نے تو بہت عرصہ پہلے لکھ دیا تھا کہ اب سیاست کا نظام صرف صدارتی ہو گا۔ سرور ارمان کی ایک غزل پیش خدمت ہے شاید یہ حالات کا ’’چہرہ‘‘ ہے کہ

روشنی سے تیرگی تعبیر کر دی جائے گی

رنگ سے محروم ہر تصویر کر دی جائے گی

عدل کے معیار میں آ جائیں گی تبدیلیاں

بے گناہی لائقِ تعزیر کر دی جائے گی

ہر نظر کو آرزوؤں کا سمندر بخش کر

ہر زباں پر تشنگی تحریر کر دی جائے گی

بانجھ ہو کر رہ گیا جس وقت دھرتی کا بدن

تب ہمارے نام یہ جاگیر کر دی جائے گی

دفن کر کے اس کی بنیادوں میں انسانوں کے سر

اک مہذب شہر کی تعمیر کر دی جائے گی

تازہ ترین