• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گم گشتہ مشرقی پاکستان کی طرح سیارہ سندھ آپ سے ہزاروں میل دوری پر ہے۔ اس لئے آپ کو پتہ نہیں چلتا کہ سندھ اندر سے کیسا ہے؟ سندھ میں کیا ہوتا رہا ہے اور سندھ میں کیا ہو رہا ہے؟ ایک بھیدی ہونے کے ناطے میں آپ کو اندر کے قصوں سے آگاہ کروں گا۔ مگر تعارف کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، سب سے پہلے میں آپ کو سندھ کے نباتات، حیوانات، بیانات اور سیاسیات کے بارے میں بتائوں گا۔ یہ تمام عناصر آپس میں گڈمڈ ہیں۔ ان عناصر کو ایک دوسرے سے الگ کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ یہ سب کچھ صرف سندھ سے متعلق نہیں، ایسی صورت حال دنیا کے ہر اس خطے میں ہوتی ہے جہاں غربت، ناخواندگی اور ذہنی پسماندگی کا بول بالا ہو۔ ایسے معاشروں میں سب کچھ ملیامیٹ ہو جاتا ہے مگر سیارہ سندھ میں نباتیات، حیوانیات، بیانات، خرافات اور سیاسیات کے آپس میں گڈمڈ ہوجانے کے اسباب کچھ اور ہیں۔ غربت، ناخواندگی اور ذہنی پس ماندگی نہیں ہیں۔ سندھ کے لوگ امیر ہیں، پڑھے لکھے ہیں، ذہنی طور پر باصلاحیت ہیں۔ سندھ کو سمجھنے کے لئے آپ کا وسیع النظر ہونا لازمی ہے۔ یہ بات زبانی کلامی نہیں بلکہ مثالوں سے سمجھ میں آتی ہے۔ آپ مندرجہ ذیل مثالوں کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں کہ امیر، تعلیم و تربیت میں اعلیٰ، اور بے انتہا ذہین ہونے کے باوجود سندھ میں سب کچھ گڈمڈ کیوں ہے؟ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ زیر لب مسکرا رہے ہیں۔

نباتیات سے مراد ہے پھل پھول، درخت، پودے، جھاڑ جنگل، ہر وہ چیز جو زمین سے اگتی ہے۔ آپ چاہیں تو نباتیات میں زراعت کو بھی شامل کر سکتے ہیں، کوئی روک ٹوک نہیں۔ چاول، گندم، گیہوں، مکئی، سبزیاں، سب زمین سے اگتے ہیں۔ قدم رکھتے ہی آپ محسوس کریں گے کہ سندھ سے بڑھ کر سرسبز زمین کا ٹکڑا آپ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ لہلہاتے کھیتوں کا کبھی ختم نہ ہونے والا سلسلہ، گیت گاتے ہوئے خوشحال کسان، طرح طرح کے پھل فروٹ سے کھچا کھچ بھرے ہوئے درخت، تازا توانا سبزیوں کے انبار، دریائوں اور نہروں میں بہتا ہوا صاف شفاف پانی، مچھلیوں کے تالاب، کھجوروں کے درختوں کے باغات، سیارہ سندھ کے درشن کرتے ہی آپ لامحالہ کہہ اٹھیں گے: دلفریب سیارہ سندھ کیا واقعی پاکستان کا حصہ ہے؟ اس قدر دلنشین کرہ ارض کے جوہر سے ہم بے خبر کیوں کر تھے؟

لفظ حیوانات میں شامل ہوتے ہیں چرند، پرند اور رینگنے والے کیڑے مکوڑے۔ مانا کہ آدمی چرند، پرند اور رینگنے والے کیڑوں مکوڑوں کی طرح جنم لیتا ہے، سانس لیتا ہے اور مر جاتا ہے۔ مگر ہم آدمی کا شمار کیڑے مکوڑوں، چرند اور پرند میں نہیں کرتے۔ آدمی ووٹ لے سکتا ہے اور دے سکتا ہے۔ جبکہ کیڑے مکوڑے، پرند اور چرند ووٹ نہ لے سکتے ہیں اور نہ دے سکتے ہیں۔ اس بنیادی فرق کی وجہ سے آدمی کا شمار چرند، پرند اور کیڑوں مکوڑوں میں نہیں ہوتا۔ سندھ میں ہر طرح کے جانور پائے جاتے ہیں۔ ان میں دو طرح کے جانور نمایاں ہیں۔ مرنے والے جانور اور مارنے والے جانور۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ شکار کرنے والے جانور، اور شکار ہو جانے والے جانور۔ شکار کرنے والے جانور بڑی بے رحمی سے شکار کرتے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصہ سے شکار کرنے والے جانوروں نے شکار ہو جانے والے جانوروں کا اس قدر بے تحاشہ شکار کیا ہے کہ سندھ میں شکار ہو جانے والے جانوروں کی تعداد گھٹ کر انگلیوں پر گننے جتنی باقی رہ گئی ہے۔ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ دن دور نہیں جب سندھ میں شکار کرنے والے جانور ایک دوسرے کا شکار کریں گے۔

سندھ میں شکار کرنے والے کچھ شکاری جانور بڑے چالاک ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ صدیوں سے سندھ میں پیر سائیوں کا بول بالا ہے۔ ان کی دعائوں سے مٹی کے گھگو گھوڑے چل پڑتے ہیں، مرے ہوئے مینڈک سانس لینے لگتے ہیں، کائیاں شکاری پیر سائیوں کے پیروں میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں، ان کی خوب خدمت کرتے ہیں، آخرکار پیر سائیوں کی دعائوں سے آدمی بن جاتے ہیں۔ سندھ میں بے دردی سے شکار کرنے والے شکاریوں کی تعداد میں اس لئے بھی کمی آئی ہے کہ نامی گرامی شکاری، پیر سائیوں کی دعائوں سے جانوروں کے لبادہ سے نکل آئے ہیں اور آدمی بن بیٹھے ہیں۔ وہ ووٹ لیتے ہیں اور چھ سات حصوں میں بانٹ کر سندھ پر حکومت کرتے ہیں۔ ان کی طاقت اور اثر ورسوخ کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ مرکزی حکومت اور مرکزی حکومت کے مہرے سندھ حکومت سے بات چیت کرنے کے بجائے براہ راست شکاری سے آدمی بن جانیوالے بااثر سرداروں، جاگیرداروں اور زمین داروں اور وڈیروں سے رابطہ کرتے ہیں۔

شکاری سے آدمی بن جانے والوں کی مہمان نوازی کے چرچے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ حکومت پاکستان کے امرائو، اشرافیہ اور کرتا دھرتا آئے دن ان کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ بااثر مہمان نوازوں کے مہمان بھی بڑے بااثر ہوتے ہیں۔ وہ جس طرح چاہیں اپنے بااثر میزبانوں کے ہاں جنگل میں منگل کرنے کے لئے پہنچ جاتے ہیں۔ وہ ہوائی جہازوں میں آتے ہیں۔ ہیلی کاپٹروں میں آتے ہیں۔ اپنی اعلیٰ نسل کی ایٹم بم پروف گاڑیوں میں سوار ہوکر آتے ہیں۔ اس لئے خاص طور پر اندرون سندھ بین الاقوامی معیار کے روڈ راستوں، پلوں اور فلائی اوورز کا جال بچھا ہوا ہے۔ ہمارے برادر ممالک سے بااثر برادر نسبتی مہمان بن کر جب سندھ آتے ہیں تب میزبانوں کی میزبانی سے لازمی طور پر متاثر ہونے کے علاوہ سندھ کی بے مثال ترقی دیکھ کر عش عش کر اٹھتے ہیں۔ کچھ وجہ تو ہے کہ سندھ کے لوگ مہمان نوازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ کتھا ختم کرنے سے پہلے میں آپ کے اشتیاق میں اضافہ کرنا چاہتا ہوں۔ سندھ کے بااثر مہمان نوازوں کے پاس کیٹی نام سے ایک وسیع و اریض علاقہ قبضہ قدرت میں ہوتا ہے۔ کیٹی ان کی اپنی ذاتی شکارگاہ ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں پر ملکی اور غیرملکی بااثر مہمانوں کے لئے جنگل میں منگل منایا جاتا ہے۔

تازہ ترین