• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منی لانڈرنگ، سرکاری دعوے اور شہباز شریف فیملی کا جواب

اسلام آباد (انصار عباسی) پاکستان تحریک انصاف کے سینئر سرکاری ذریعے نے دعویٰ کیا ہے کہ نیب کے پاس شہباز شریف فیملی کی منی لانڈرنگ اور مبینہ جرائم، کک بیکس اور کمیشن کے درمیان تعلق کے ٹھوس شواہد مل گئے ہیں۔ تاہم، جب ان سے شہباز شریف اور ان کے خاندان کی جانب سے مبینہ کمیشن اور کک بیکس کی تفصیلات کا پوچھا گیا تو اِس ذریعے نے کہا کہ استغاثہ درست وقت پر عدالت میں یہ تفصیلات پیش کریں گے۔ عمران خان کی حکومت میں اہم عہدے پر براجمان اس ذریعے کا دعویٰ درست ثابت ہوا تو یہ شریف فیملی کے کسی رکن کیخلاف کمیشن اور کک بیک کا پہلا کیس ہوگا۔ سرکاری ذریعے نے یہ بھی کہا کہ شہباز شریف فیملی کیخلاف مبینہ منی لانڈرنگ کا معاملہ غیر ٹیکس شدہ رقم / کالا دھن سفید کرنے یا آمدنی سے زائد اثاثوں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق جرائم سے حاصل شدہ پیسے سے ہے یعنی اس میں کمیشنز اور کِک بیکس وصول کیے گئے۔ تاہم، ذریعے نے کہا کہ شہباز شریف فیملی کی جانب سے ترسیلات زر کی مد میں حاصل کیے جانے والے 26؍ ملین ڈالرز میں کوئی بھی رقم سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور موجودہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے اکائونٹ میں براہِ راست نہیں آئی۔ سرکاری ذریعے نے کہا کہ یہ ترسیلات زر شہباز شریف کی اہلیہ اور بچوں کے اکائونٹس میں آئیں اس طرح رقم کی ان ترسیلات سے شہباز شریف کو بالواسطہ فائدہ ہوا۔ شہباز شریف فیملی سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے سرکاری دعوے کو مسترد کیا اور کہا کہ کوئی اسکینڈل اور کک بیکس نہیں، اور کسی جرم سے کچھ حاصل نہیں کیا۔ تمام سرمایہ کاری پاکستان کے قوانین کے مطابق کی ہے، کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا اور تمام فنڈنگ بینکنگ چینل کو استعمال کرتے ہوئے کی گئی ہے۔ گزشتہ ہفتے، روزنامہ جنگ نے ’’شہباز شریف فیملی نے 3؍ ارب 69؍ کروڑ روپے کی منی لانڈرنگ کی، پی ٹی آئی دستاویز‘‘ کی سرخی کے ساتھ خبر شائع کی تھی جس کی بنیاد وہ دستاویز (بریف) تھی جو وزیراعظم اور حکومت میں دیگر حکام کو فراہم کی گئی تھی۔ اس نمائندے نے شہباز شریف فیملی کے ساتھ وابستہ ایک قریبی ذریعے سے رابطہ کیا تاکہ نیب، سرکاری دستاویز اور وزراء کے دعووں کے متعلق ان کی رائے معلوم کی جا سکے۔ 26؍ ملین ڈالرز کی رقم کو چیلنج کیے بغیر، شریف فیملی کے قریبی ذریعے نے اس نمائندے کو مندرجہ ذیل جواب بھیجا:’’حمزہ شہباز کے حوالے سے 2008ء تا 2019ء تک کے عرصہ کو دیکھیں تو کوئی ترسیلات نہیں۔ 2008ء تا 2019ء تک کے عرصہ کیلئے سلیمان شہباز کا معاملہ دیکھیں تو ان کے ایف بی آر ریکارڈ میں تمام ترسیلات کا ذکر موجود ہے۔ مجموعی رقم / مالیت میں سلیمان شہباز کی جانب سے لیے گئے قرضہ جات کی تفصیلات بھی ایف بی آر میں موجود ہیںک۔ ان میں سے کچھ قرضے ابو ظہبی سے ملے اور کچھ لوکل پارٹیوں نے دیے، ان سب کی تفصیلات ایف بی آر کے پاس موجود ہیں۔ سلیمان شہباز کو اکائونٹ میں موصول ہونے والی رقوم اسٹیٹ بینک یا قانونی بینکنگ چینلز کے ذریعے ملی۔ اثاثوں کی مجموعی مالیت کے حوال سے بات کریں، اور اگر تمام واجبات کو بھی ذہن میں رکھیں جن میں تمام قرضہ جات شامل ہیں، تو یہ اثاثے مالیت کے لحاظ سے بہت ہی کم رہ جائیں گے۔ قرضوں میں اضافے کی وجہ سے مالیت بڑھ گئی جس سے اثاثوں میں توازن ظاہر ہوگا۔ اثاثوں میں سب سے بڑا حصہ وراثت میں ملنے والی زمینوں اور شوگر مل کا ہے۔ ورثہ میں ملنے والے اثاثوں پر قرضہ حاصل کیا گیا اور نتیجتاً مزید اثاثے بنائے گئے۔ جو بھی اثاثے بنائے گئے انہیں دیکھ کر معلوم ہوگا کہ قرضہ جات کا تناسب بڑھ رہا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت / نیب کی جانب سے جو بھی دعوے کیے جا رہے ہیں اور جسے منی لانڈرنگ کہا جا رہا ہے ان کی تفصیلات انہوں نے حمزہ اور سلیمان شہباز کے ٹیکس ریٹرنز سے حاصل کی گئی ہیں اور یہ تفصیلات وہ ٹیکس ریٹرنز میں باقاعدگی کے ساتھ ظاہر کرتے رہے ہیں۔ قانون کے مطابق ملک میں آنے والی ترسیلات قانونی ہیں اور ان کی حفاظت کی ضمانت دی جاتی ہے اور یہ سرمایہ کار کے حق کے طور پر ظاہر کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی اسکینڈل نہیں، کوئی کک بیک نہیں اور یہ جرائم سے حاصل نہیں کی گئیں۔ تمام سرمایہ کاری پاکستان کے قوانین کے مطابق کی ہے۔ کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا گیا اور تمام فنڈنگ بینکاری چینلز کے ذریعے ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی، تمام ترسیلات / فنڈنگ ملک میں آئی ہیں۔ آنے والی تمام ترسیلات کا کام قانونی بینکاری چینلز کے ذریعے اور قانون کے مطابق کیا گیا اور متعلقہ حکام کو اس سے آگاہ بھی کیا گیا۔‘‘شہباز شریف فیملی کے جواب میں اس حوالے سے کوئی تبصرہ شامل نہیں اکثر ترسیلات جعلی افراد نے بھیجیں جس کا حکومت نے دعویٰ بھی کیا ہے۔ سرکاری ذریعے کے مطابق، ترسیلات کا جواب اس صورت میں دینا پڑتا ہے جب یہ مشکوک ہو جائے اور بھیجنے والا جعلی شخص ہو۔ حکومت کے اہم لوگوں کو بھیجی جانے والی دستاویز (بریف) میں حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ 200؍ سے زائد ترسیلات بھیجی گئیں اور منی لانڈرنگ کے ذریعے شہباز شریف فیملی کے اکائونٹس میں آنے والی رقم 26؍ ملین ڈالرز (تقریباً تین ارب 69؍ کروڑ روپے) ہے۔ یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ادائیگیوں کی ان ہدایات (Instructions) کے ذریعے رقم بھیجنے والے افراد کی تفصیلات حاصل کی گئی ہیں، متعلقہ بینکوں سے ہی ان ہدایات کی نقول حاصل کی گئی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ترسیلات بھیجنے والے کچھ افراد پاکستان سے باہر کبھی نہیں گئے۔ بریف میں بتایا گیا ہے کہ کچھ ترسیلات ایسی بھی ہیں جو پاکستان پہنچیں تو انہیں بھیجنے والے اُس ملک میں موجود ہی نہیں تھے جہاں سے یہ رقوم بھیجی گئی تھیں، ان افراد کا شناخت نادرا سے حاصل کی گئی ہے اور ایف آئی اے کو ایسی ترسیلات کا علم ہی نہیں۔ بریف میں لکھا ہے کہ یہ واضح ہے کہ ان افراد کی شناخت جعلی انداز سے استعمال کی گئیں اور انہیں اس کی خبر ہی نہ تھی۔ دیگر ترسیلات بھیجنے والے بھی جعلی ہیں۔بریف کے مطابق، سب سے اہم بات یہ کہ ترسیلات بھیجنے والے افراد کے پاس ایسے وسائل ہی نہیں کہ وہ اتنی بڑی رقوم بھیج سکیں یا ہزاروں ڈالرز کی صورت میں کہیں سرمایہ کاری کر سکیں، مثلاً ترسیلات بھیجنے والوں میں سے ایک شخص کی شناخت پاپڑ فروخت کرنے والے اور ایک اور شخص کی شناخت ریڑھی لگانے والے کے طور پر ہوئی ہے۔ بریف میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جن افراد کی شناخت جعلسازی کے ذریعے استعمال کی گئی ہیں وہ کم آمدنی والے لوگ ہیں اور ان کے پاس اتنی رقم یا وسائل نہیں کہ وہ ہزاروں لاکھوں ڈالرز میں سرمایہ کاری کر سکیں۔ یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ غیر ملکی ترسیلات کی رقم شہباز شریف کی فیملی کے اکائونٹس میں آئی جس سے شہباز شریف کے خاندان نے اپنا کاروبار کھڑا کیا۔

تازہ ترین