• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوچتا ہوں کہ ان دنوں قائد اعظم  کی روح کس قدر اداس ہوگی۔ انہوں نے پاکستان کے حصول کیلئے زندگی کے آخری سال وقف کردئیے اور دن رات صحت کی پرواہ کئے بغیر انگریزوں اور کانگریس کے خلاف جنگ لڑتے رہے۔ مقصد مسلمانوں کیلئے ایک ملک بنانا تھا جس میں انہیں مکمل تحفظ حاصل ہو اور وہ خوشحال زندگی گزاریں۔ ان کے سینکڑوں بیانات کا ذکرکرنا ممکن نہیں۔ صرف ان چند سطروں پر غور کیجئے”پاکستان کا مطلب صرف یہ نہیں کہ ہم غیر ملکی حکومت سے آزادی چاہتے ہیں، اس سے اصل میں مسلم آئیڈلوجی(Ideology)مراد ہے جس کا تحفظ ضروری ہے۔ ہمیں صرف آزادی ہی مطلوب نہیں ،ہمیں اس قابل بھی بننا ہے کہ اس کی حفاظت کرسکیں اور اسلامی تصورات اور اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکیں“۔ قائد اعظم کا یہ بیان1943ء کا ہے۔ اسلامی اصولوں پر استوار جس جمہوری فلاحی ریاست کا وہ تصور شرمندہ تعبیر کرنا چاہتے تھے وہاں اب یہ حال ہے کہ مسلمان اپنے مسلمان بھائیوں کا بے دریغ خون بہارہے ہیں۔ مذہبی فرقہ واریت اور باہمی نفرت کو ایک منصوبے کے تحت ہوا دی جارہی ہے اور پاکستانیوں کو آپس میں لڑانے کا سامان مہیا کیا جارہا ہے۔ گزشتہ چند دنوں سے ہزارہ برادری کے سینکڑوں خاندان اپنے پیاروں کی میتوں کو کوئٹہ کی سڑک پر رکھے دفنانے سے انکاری ہیں۔ اس طرح کے دردناک اور دل کو پاش پاش کرنے والے ا حتجاج کی مثالیں شاید ہی تاریخ میں موجود ہوں۔ ان کا احتجاج بہرحال جائز ہے کیونکہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران بلوچستان میں ہزارہ برادری کے تقریباً گیارہ سو افراد کا خون بہایا جاچکا ہے۔ سارا ملک ان کے غم میں سوگوار ہے اور قومی لیڈران ان سے اظہار ہمدردی کے لئے کوئٹہ جارہے ہیں، ان کا احتجاج اس کھلے ظلم کے خلاف بھی ہے اور بے حس نااہل صوبائی حکومت کے خلاف بھی جو نہ صرف لوگوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے بلکہ مجرموں تک بھی نہیں پہنچ سکی۔ مجرموں کی سرکوبی تو دور کی بات ہے مظلوم آنسوؤں اور آہوں کے درمیان کچھ صوبائی وزراء کے ملوث ہونے کا بھی الزام لگارہے ہیں۔ کیا کوئی یہ تصور کرسکتا ہے کہ حکومت کے اراکین اپنے ہی شہریوں کے قتل عام میں شامل ہوں؟۔ پھر لوگ ایسے نظام اور ایسی جمہوریت سے کیوں متنفر نہ ہوں، ملک ،حکومتیں، نظام اور قیادتیں پرامن زندگی اور محفوظ طرز حیات کے لئے بنائی اور منتخب کی جاتی ہیں۔ جب حکومت عوام کو احساس تحفظ مہیا نہ کرسکے تو اس کے اقتدار میں رہنے کا جواز باقی نہیں رہتا۔ وفاقی حکومت نے بلوچستان کی نااہل حکومت کو رخصت کرنے میں بڑی تاخیر کردی اور اس تاخیر نے سینکڑوں قیمتی جانوں کا خون پی لیا۔ اس تاخیر کی بنیادی وجہ سیاسی تقاضے تھے کیونکہ وفاقی حکومت اپنی ہی حکومت کو ختم کرکے نااہلی کی سند حاصل نہیں کرنا چاہتی تھی۔ کتنا اچھا ہوتا کہ جب سپریم کورٹ نے بلوچستان حکومت کے جواز پر فیصلہ دیا تھا، وفاقی حکومت اس وقت بلوچستان کی حکومت کا بوریا بستر لپیٹ دیتی، وہاں صورتحال اس قدر تکلیف دہ تھی کہ ایک طرف معصوم شہریوں کا خون بہہ رہا تھا تو دوسری طرف بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نواب رئیسانی قوم کا لطیفوں اور چٹکلوں سے دل بہلا رہے تھے۔ ”ڈگری ڈگری ہوتی ہے چاہے وہ جعلی ہو“، ”گرمی سردی حکومت کو بھی لگتی ہے“۔ وزیراعلیٰ کا زیادہ وقت اسلام آباد میں گزرتا اور ان کا نوابی ٹھاٹھ باٹھ امن عامہ اور احساس تحفظ کی بجائے مہنگے طیارے اور شان و شوکت کے تقاضے کرتا۔ سنگدلی ملاحظہ فرمایئے کہ ہزارہ برادری کا قتل عام ہور ہا ہے اور لوگ میتیں سڑک پر رکھے احتجاج کر رہے ہیں اور صوبے کے وزیراعلیٰ دبئی میں عیش کر رہے ہیں، حکومتی ذمہ داری اور انسانی ہمدردی کا تقاضا تھا کہ وہ فوراً وطن لوٹتے لیکن انہوں نے فوراً واپس آنا پسند نہیں کیا۔ خود وزیراعظم نے بھی کوئٹہ تشریف لانے میں دو دن ضائع کر دیئے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وفاقی حکومت کی سرد مہری کی برف بھی اسوقت پگھلی جب اتحاد المسلمین نے پورے ملک میں احتجاج کا سلسلہ شروع کیا۔ اسمبلیوں اور سیاستدانوں کا یہ حال ہے کہ جب سپریم کورٹ نے بلوچستان حکومت کو نااہل قرار دیا تو وزیراعلیٰ نے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے کے لئے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا ڈرامہ رچایا۔ اراکین اسمبلی کا کردار قابل غور ہے کہ اراکین اپنے بیلٹ پیپرز دکھا دکھا کر اور وفاداری کا یقین دلا کر پرچیاں بیلٹ باکس میں ڈالتے رہے۔ کیا ان اراکین اسمبلی کو علم نہیں تھا کہ بلوچستان کے شہریوں کے سروں سے احساس تحفظ کی چھت اڑ چکی ہے، ٹارگٹ کلنگ عروج پرہے اور قاتلوں، مجرموں کو کھلی چھٹی مل چکی ہے۔ پھر بھی انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی نفی کرتے ہوئے اسی حکومت کے حق میں ووٹ دیئے۔ ظاہر ہے کہ ایسے ووٹوں کی قیمت وصول کی جاتی ہے کبھی وزارت اور کبھی کسی اور شکل میں…بلوچستان کی نوابی جمہوریت کا سب سے بڑا شاہکار حکمرانوں کا یہ سیاسی حربہ تھا جس کے تحت بلوچستان اسمبلی کے ایک کے سوا سارے اراکین کے سروں پر وزارت کی کلغیاں سجاد دی گئیں اور بلوچستان کے بجٹ پر ناقابل برداشت بوجھ ڈال دیا گیا ،رفتہ رفتہ صورتحال اس قدر بگڑ گئی کہ کوئٹہ سے باہر قومی پرچم لہرانا مشکل ہوگیا اور قومی ترانہ بجانا ممکن نہ رہا۔ بلوچستان میں دہائیوں سے آباد غیر بلوچیوں کو چن چن کر قتل کیا جانے لگا۔ حتیٰ کہ وہاں دہائیوں سے تعلیم کی روشنی پھیلنے والے اساتذہ اور عوام کی خدمت کرنے والی این جی اوز بھی محفوظ نہ رہیں۔ جب صورت یہ ہو تو لوگ حکومت کے خلاف سراپا احتجاج کیوں نہ ہو، لوگ جمہوری نظام کی حمایت کیوں کریں اور لوگ حکمرانوں کا دامن تار تار کیوں نہ کریں؟ گورنر راج لگ چکا لیکن میں اس کی کامیابی کا بھی شاکی ہوں کیونکہ بلوچستان کی صورتحال کو کنٹرول کرنا اب سویلین حکومت کے بس کا روگ نہیں رہا۔ فوج کی طلبی بھی اپنے اندر سنجیدہ مضمرات رکھتی ہے کیونکہ بلوچستان کے باغیوں کو ایجنسیوں سے شکایات ہیں، انہوں نے ایجنسیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کر رکھا ہے اور گم شدگان (Missing)افراد کے خاندان بھی فوجی ایجنسیوں کو ہی موردا لزام ٹھہراتے ہیں۔ اس وقت بلوچستان میں اس بداعتمادی، باہمی نفرت اور مختلف گروہوں کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں کو ختم کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے اور جو حکومت بداعتمادی اور نفرت کے زخموں پر مرہم نہی رکھ سکے گی وہ قتل و غارت کے سلسلے کو بھی روکنے میں ناکام رہے گی۔ یہ درست ہے کہ بلوچستان میں بیرونی ہاتھ بھی کارفرما ہے لیکن بیرونی ہاتھ بھی اس بداعتمادی اور باہمی نفرت سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ ایک طرف بلوچستان کے ناسور سے خون بہہ رہا ہے تو دوسری طرف کراچی بھی میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ ہر روز بے گناہ لوگ مارے جارہے ہیں اور مختلف قسم کے مافیاز ٹارگٹ کلنگ کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ افسوس وفاقی حکومت بلوچستان کی مانند سندھ حکومت کی نااہلی سے بھی چشم پوشی کررہی ہے اور اپنی پارٹی حکومت کی ناکامی پر پردہ ڈال رہی ہے۔ آخر کب تک؟ کیا حکومت اس وقت کے انتظار میں ہے جب کراچی میں بھی ظلم کے مارے لوگ میتیں سڑکوں پر رکھ کر احتجاج شروع کریں اور سینہ کوبی کریں؟ سیاستدانوں کے سوچنے کی بات یہ ہے کہ عوام کو جمہوریت اور سیاستدانوں سے متنفر کون کررہا ہے اور خون کے بہتے اس دریا کا رخ کس کی طرف ہوگا؟
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ قائد اعظم کی روح کس قدر اداس اور غمگین ہوگی کہ ایک طرف ان کے قائم کردہ ملک میں ان پر دوہری شہریت اور برطانیہ سے وفاداری کے الزامات لگائے جارہے ہیں، ان کی ذات پر کیچڑاچھالا جارہا ہے اور دوسری طرف بلوچستان میں انسانوں کے خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ سندھ میں خانہ جنگی کی سی کیفیت اور قتل عام کا سلسلہ جاری ہے۔ خیبر پختونخوا دہشتگردی کا شکار ہے۔ سارا ملک خوف و ہراس کی گرفت میں ہے اور پاکستان دشمن قوتیں سرحدوں کے محافظوں کو نشانہ بنارہی ہیں۔ قائد اعظم نے 24اپریل1943ء کو مسلم لیگ کے دہلی اجلاس میں کہا تھا میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو خبردار کرتا ہوں جو عوام کے حقوق روندنے والے ظالم نظام کی پیداوار ہیں اگر پاکستان بنانے کا مقصد ان کا اقتدار ہے تو مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہئے۔ قائد اعظم کے خواب کے برعکس پاکستان پر جاگیردار، نواب، وڈیرے اور سرمایہ دار حکمرانی کررہے ہیں۔ ان طبقوں کے سیاسی کردار، نااہلی اور بے حسی نے لوگوں کو نظام سے مایوس کردیا ہے۔ یقین رکھیئے جب تک عوام میں روایتی اور آزمودہ بالا دست خاندانوں سے نجات کا شعور پیدا نہیں ہوتا اور قیادت نچلے طبقوں سے نہیں ابھرتی، پاکستان کا مقدر نہیں بدلے گا، نہیں بدلے گی۔
تازہ ترین