• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل ایک جادوگر پاکستان آچکا ہے۔ صحافیوں، ریڈیو، ٹیلی ویژن، سیاسی اور غیر سیاسی دھڑوں کو انٹرویو دیتا پھر رہا ہے۔ وردی اور بغیر وردی والے افسران اس سے مل رہے ہیں۔ اس سے اگر نہیں مل سکا ہے تو وہ ہے مگرمچھوں کا وفد۔ اس ملاقات کے نہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ مگرمچھ پانی سے باہر نہیں آتے اور جادوگر کی پانی سے جان جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ جادوگر کو تیرنا نہیں آتا۔ جادوگر کی جادوئی چال میں پھنسے ہوئے لوگ میری بات کا یقین نہیں کریں گے۔ وہ لوگ صرف جادوگر کے منہ سے نکلی ہوئی بات پر اعتبار کرتے ہیں، اس قدر یقین سے اعتبار کرتے ہیں کہ ان کا اعتبار ہر لحاظ سے اعتقاد لگتا ہے۔ اپنے انٹرویوز اور جلسے جلوسوں میں جادوگر کہتا پھرتا ہے کہ اس کے منہ سے جو بھی بات نکلتی ہے سچ پر مبنی ہوتی ہے، وہ جب بھی بولتا ہے سچ ہی بولتا ہے سچ کے سوا کبھی کچھ نہیں کہتا۔ وہ اس قدر کھرا ہے کہ اس کو کبھی بھی قسم اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور نہ ہی قسم بٹھانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ اگر چاہے تو منہ سے آگ اگل سکتا ہے، پرندوں کی طرح اڑ سکتا ہے، مچھلی کی طرح تیر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جادوگر کے معتقد میری بات پر اعتبار نہیں کرتے انہیں یقین ہے کہ جادوگر منہ سے آگ اگل سکتا ہے، پرندوں کی طرح اڑ سکتا ہے، مچھلیوں اور مگرمچھوں کی طرح پانی میں تیر سکتا ہے۔ اگر چاہے تو پانی پرچل سکتا ہے، پانی پر دوڑ سکتا ہے۔
میرا دوست راہی متوالا چشم دید گواہ ہے کہ جادوگر کوتیرنا نہیں آتا۔ اس نے اپنی آنکھوں سے جادوگر کو سوئمنگ پول میں تقریباً ڈوبتے ہوئے دیکھا تھا۔ گارڈ اگر سوئمنگ پول میں فوراً نہیں اترتے تو جادوگر آج ہمارے درمیان نہ ہوتا۔ وہ دن اور آج کا دن جادوگر سوئمنگ پول ، تالاب، دریا، سمندر دیکھ کر بوکھلا جاتا ہے، اس کی گھگھی بندھ جاتی ہے۔ میں نے راہی متوالے سے پوچھا تھا ”جادوگر کو جب تیرنا نہیں آتا تو پھر وہ سوئمنگ پول میں کیوں اترا تھا؟“ ”ڈنمارک کے ایک ہوٹل میں جادوگر کو اس حادثے سے دوچار ہونا پڑا تھا“۔ راہی متوالے نے کہا”جادوگر نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے سوئمنگ پول میں جل پریوں کو نہاتے ہوئے دیکھا، وہ ہوش و حواس کھو بیٹھا تھا دوڑتے ہوئے وہ گراؤنڈ فلور پر پہنچا اور آناً فاناً سوئمنگ پول میں کود پڑا، مرتے مرتے بچا تھا“۔
یہ قصہ جادوگر کے پیروکار قبول کرنے کو تیار نہیں۔ جادوگر اکثر پاکستان سے باہر رہتا ہے۔ ساؤتھ ایشیاء، یورپ اور امریکہ میں کرتب دکھاتا پھرتا ہے۔ خرگوش کو کبوتر اور کبوتر کو خرگوش بناتا رہتا ہے، طوطے سے توپ چلواتا ہے۔ اپنے پاکستانی چاہنے والوں کی نظروں سے دور بیرون ملک جادو دکھانے کے علاوہ جادوگر کیا کرتا ہے، کوئی کچھ نہیں جانتا۔ ویسے پاکستانی مرید اور پیروں کو دل و جان سے ماننے والے اس بات سے کسی قسم کا سروکار نہیں رکھتے کہ ان کے پیرسائیں مختلف ماحول اور حالات میں مہل وقوع کے مطابق خود کو کیسے ڈھالتے ہیں۔ پیر سائیں یوسف رضا گیلانی جب اسلام آباد میں ہوتے ہیں تب بیرون ملک بلکہ ممالک میں بنے ہوئے لباس میں ملبوس ہوتے ہیں۔ ان کے جوتے بھی باہر کے بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ جسم ان کا ملتانی ہوتا ہے اور جسم پر آویزاں ہر شے فرعونی یعنی فارین ہوتی ہے اور جب پیر سائیں ملتان میں ہوتے ہیں تب سفید چادر سر پر ڈال کر مراقبے میں ہوتے ہیں اور روحانیت کی باتیں کرتے ہیں۔ دنیا کو دھوکہ اور فریب کہتے ہیں دنیا سے دل نہ لگانے کی تلقین کرتے ہیں ۔ سادہ زندگی گزارنے کی صلاح دیتے ہیں۔ مرید سر جھکا کر ان کی باتیں سنتے ہیں یوسف رضا گیلانی کے ولی عہد سید عبدالقادر گیلانی کو اربوں کھربوں روپے کی لین دین کے کیس میں سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونا پڑا تھا۔ گاڑی سے اتر کر عدالت تک چند میٹر کا فاصلہ تھا۔ سید عبدالقادر گیلانی کی چال ڈھال میں بلا کی رعونیت تھی۔ اپنے والد کی طرح ان کی گردن بھی اکڑی ہوئی تھی۔ تکبر ان کی چال ڈھال سے چھلک رہا تھا۔ یوسف رضا گیلانی کے بعد سید عبدالقادر گیلانی کو گدی نشین ہونا ہے۔ لوگوں کو روحانیت کا درس دینا ہے اور پاکستانی سیاست پر بلاول زرداری کا ہم رکاب بن کر چھا جانا ہے۔ ایسے میں جادوگر کے معتقدوں کا اس بات سے انکار کرنا کہ جادوگر تیرنا نہیں جانتا، اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ یقین ہو تو ایسا! ویسے بھی خرگوش کو کبوتر اور کبوتر کو خرگوش بنا دینا کوئی مذاق نہیں ہے۔
مجھے فخر ہے کہ میں پاکستان کنگال پارٹی یعنی پی کے پی کے اس وفد میں شامل تھا جس کو جادوگر سے پانچ منٹ ملنے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ ملک سے بیشمار وفود نے جادوگر سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ ہم خوش نصیب تھے کہ اس نے ملنے کے لئے ہمیں پانچ منٹ کا وقت دیا تھا۔ ورنہ کئی وفود کو ایک یا دو منٹ ملے تھے جادوگر سے نیاز حاصل کرنے کے لئے۔ کچھ ایسے وفود بھی تھے جن کو ملاقات کے لئے تیس سیکنڈ ملے تھے۔ پانچ منٹ کی ملاقات کو مفید بنانے کے لئے ہم نے فیصلہ کیا کہ جادوگر سے لانگ مارچ کے بارے میں کچھ نہیں پوچھیں گے۔ ہم کنگلے لانگ مارچ کی افادیت سے بخوبی واقف ہیں۔ ایک مرتبہ پاکستان کے لوگ بولنا بھول گئے تھے۔ ان کے اطراف جو کچھ ہوتا تھا اس پر نہیں بولتے تھے، خاموش رہتے تھے۔ کھاتے پیتے گھرانوں کے فیش ایبل مرد خواتین اور بچوں نے لانگ مارچ کیا تھا اور لوگ پھر سے بولنے لگے تھے۔ ایک مرتبہ لوگ دیکھنا بھول گئے تھے۔ ان کے اطراف جو کچھ ہوتا تھا وہ نہیں دیکھتے تھے، آنکھیں بند رکھتے تھے کھاتے پیتے گھرانوں کے مرد عورتوں اور گول مٹول بچوں نے لانگ مارچ کیا تھا اور لوگوں نے دیکھنا شروع کردیا تھا۔ ایک مرتبہ لوگ سننا بھول گئے تھے۔ وہ چیخنے چلانے اور آہ و زاری کی آوازیں نہیں سنتے تھے، کھاتے پیتے گھرانوں کی خواتین، مرد اور بچے جوگر پہن کر سڑکوں پر نکل آئے تھے اور انہوں نے لانگ مارچ کیا تھا اور بہروں نے فوراً سننا شروع کردیا تھا۔ کھاتے پیتے گھرانوں کی خواتین مرد اور بچے جوگر پہن کر لانگ مارچ کرنے نکل پڑے تھے ملک میں خوشحالی لوٹ آئی تھی۔ یہ سنی سنائی باتیں نہیں ہیں میں ان کہانیوں کا چشم دید گواہ ہوں۔ میں نے لانگ مارچ کی کرامتیں دیکھی ہیں لہٰذا جادوگر سے لانگ مارچ کے فوائد کے بارے میں پوچھنا فضول تھا۔
ہم نے کہا ”ملک میں پینتیس ہزار اسکول بند پڑے ہیں“۔جواب ملا ”لانگ مارچ کرو، اسکول کھل جائیں گے“۔ہم نے کہا ” ہم مقروض ہو گئے ہیں“۔جواب ملا ”لانگ مارچ کرو، قرض اتر جائے گا“۔ہم نے کہا ”آج کل کرپشن عروج پر ہے“۔جواب ملا ”لانگ مارچ کرو،کرپشن پر زوال آجائے گا۔ہم نے کہا ”چھینا جھپٹی کے علاوہ کراچی میں روزانہ بیس آدمی قتل ہوتے ہیں“؟جواب ملا ”لانگ مارچ کرو، سڑکوں پر موم بتیاں جلاؤ، سب ٹھیک ہو جائے گا“۔ہم نے پوچھا” پاکستان کنگال پارٹی کی ممبر شپ پندرہ کروڑ ہے،آپ ہمارا مستقبل کیسا دیکھتے ہو؟“
جواب ملا ”عنقریب تمہاری ممبر شپ بیس کروڑ ہو جائے گی“۔ہم نے پوچھا ”پی کے پی پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی ہے، ہمارا لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے؟“جواب ملا ”گول گپے کھاؤ اور خوش رہو“۔شرف ملاقات کے پانچ منٹ ختم ہو گئے۔
تازہ ترین