• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 اشفاق نیاز، سیال کوٹ

 9 نومبر 1877ء کو سیال کوٹ میں اذانِ فجر کے وقت شیخ نور محمّد کے گھر جس بچّے نے آنکھ کھولی، اُس کا نام ’’محمّداقبال‘‘ رکھا گیا۔ بچّہ بچپن ہی سے انتہائی ذہین اور روشن دماغ تھا۔ اقبال کی پیدائش کے وقت ’’ اقبال منزل ،سیال کوٹ‘‘ میں اُن کے چچا کے بیوی بچّے بھی رہتے تھے۔ موجودہ اقبال منزل کی عمارت، اقبال کے دادا شیخ محمّد رفیق نے 1861ء میں صرف 150 روپے میں خریدی تھی ،جو اُس وقت صرف ایک ڈیوڑھی ، صحن، دالان اور دو کوٹھریوں پر مشتمل تھی ،اسی مکان کی ایک کوٹھری میںاقبال نے آنکھ کھولی اور اپنی والدہ حافظہ امام بی بی ، المعروف ’’بے جی ‘‘کے زیرِ سایہ پروان چڑھے، تربیت پائی۔جب وہ چار سال کی عُمر کو پہنچے، تو والد اُنہیں مولانا ابوعبد اﷲ غلام حسن کے پاس قرآن کی تعلیم دلوانے لے گئے، یوں محلّہ شوالہ کی مسجد سے اقبال کی ابتدائی تعلیم کا آغاز ہوا۔ تقریباً ایک سال بعد انہیں کوچۂ میر حسام الدّین میں سیّدمیر حسن کے مکتب میں اُردو، فارسی اور عربی ادب پڑھنے بٹھا یاگیا۔مو لو ی میر حسن اقبال کو دیکھتے ہی پہچا ن گئے تھے کہ یہ بچّہ آگے چل کر خُوب نام روشن کرے گا، دوسری جانب شیخ نورمحمّد بھی بیٹے کی صلاحیتوں کو بھانپ چکے تھے، وہ چاہتے تھے کہ اُن کے بیٹے کی صلاحیتوں سے پوری قوم مستفید ہو۔ اسی لیے اُن کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجّہ دی جانے لگی۔ مولوی میر حسن نے جس طر یقے سے اقبال کی تر بیت کی، وہ تاریخ کا ایک رو شن با ب ہے۔

اقبا ل کی والدہ بچپن میں انہیں 'پیار سے’’با لی‘‘کہہ کر پکا رتی تھیں ۔وہ چاہتی تھیں کہ ان کا بیٹا کبھی کوئی غلط کام نہ کرے۔جب وہ نو مولود تھے، تو بے جی کو وہم ہو گیا کہ میاں جی جس شخص کے پاس نوکر ی کرتے ہیں، وہ سر کا ر کی پینشن کھا تا ہےاوراُس کی آمدنی حلال نہیں، چناں چہ انہوں نے اقبال کو اپنا دودھ پلانا بند کردیا اور اپنے زیور فروخت کرکے ایک بکری خریدی اور اپنے جگر گوشے کو اس کا دودھ اُس وقت تک پلاتی رہیں ،جب تک انہیں یقین نہیں ہو گیا کہ میاں جی نے وہ نوکری چھوڑ دی ہے ۔یوں اقبال کو بچپن ہی سے حرام رزق سے ’’پرواز میں کوتاہی ‘‘آنے کی تربیت دی گئی تھی۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اسکول میں اُردو کے استاد اِملا لکھوا رہے تھے۔ کم سِن اقبال کی اِملا بہت اچھی تھی، لیکن جب استا د نے لفظ ’’غلط ‘‘لکھوا یا، تو ننّھے اقبال کو شرار ت سو جھی اور انہوںنے ’’ط‘‘ کی بہ جائے’’ت‘‘ لکھا ۔جب اُستاد سبق چیک کرنے لگے، تو لفظ ’’غلت ‘‘پر رُک گئے اور بو لے ’’اقبال میاں ! یہ لفظ آپ نے غلط لکھا ہے۔ اقبا ل نے کہا ـ’’ــــ'ما سٹر صا حب ! آپ ہی نے کہا تھا غلط لکھو، سو میں نے ’’غلت ‘‘لکھ دیا۔‘‘ استا دِ محترم بہت حیران ہوئےاور کہنے لگے ’’میں نے ’’غلت ‘‘کہا تھا ؟ کیا کہہ رہے ہو؟ میں بھلا کیوں غلط کہتا ؟‘‘ اقبال نے پو چھا ،’’اچھا یہ بتائیں کہ آپ نے کیا لکھنے کے لیے کہا تھا؟‘‘ استاد نے کہا ’’غلط‘‘۔اس پر اقبا ل فوراً بو لے ’’تو پھر ٹھیک ہے نا ں، آپ نے غلط پڑ ھا اور مَیں نے غلت لکھ دیا ،اس میں میری کو ئی غلطی نہیں۔ آپ نے ٹھیک کہا ہوتا ،تو میں بھی ٹھیک لکھتا ۔‘‘ اقبا ل کی شرارت استاد کو اتنی پسند آئی کہ وہ بھی مسکرائے بنا نہ رہ سکے۔

اقبال بچپن ہی سے ذہین ہونے کے ساتھ تعلیم کے معاملے میں انتہائی سنجیدہ تھے۔ انہوں نے پانچویں جماعت کاامتحان نمایاں پوزیشن سے حاصل کر کے وظیفہ حاصل کیااور مڈل کے امتحان میں بھی پوزیشن حاصل کی۔ اُن کی ذہانت و سمجھ داری سے کوئی انکار نہیں کر سکتا تھا۔ ایک مرتبہ جب وہ تاخیر سے اسکول پہنچے، تو اُستاد کے استفسار پر بے ساختہ جواب دیا ’’اُستادِ محترم! اقبال ہمیشہ دیر ہی سے آتا ہے۔‘‘یہ اتنا خوب صُورت اور با معنی جملہ تھا کہ اُن کے استاد بھی حیران رہ گئے۔ یہ جملہ بول کر اقبال نے در حقیقت اس طرف اشارہ کیا تھاکہ انسان کو اُونچا مقام اور مرتبہ اچانک حاصل نہیں ہو جاتا بلکہ اس کے لیےسخت محنت اور کوشش کرنی پڑتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بچپن ہی سے حاضر جواب تھے۔

جب وہ میٹرک میں تھے، توایک دن فقیر نے اُن کے گھر کے باہر صدا لگائی’’ اللہ کے نام پر…‘‘اندر سے آواز آئی ’’معاف کرو بابا …‘‘ فقیر ذرا اونچا سنتا تھا، لہٰذا اس نے پھر قدرےاونچی صدا لگائی ’’اللہ کے نام پہ بابا…‘‘ اندرسے ایک لڑکا بہت غصّے میں باہر آیا اورکہا ’’کہا تو ہے، معاف کر بابا اور تُوہے کہ ایک ہی صدا لگائے جا رہا ہے ، جاتا کیوں نہیں ؟‘‘ اندر سے آنےوالا بچّہ اور کوئی نہیں ، محمّد اقبال تھے۔ یہ حرکت اُن کے والد ، شیخ نور محمّد کو اتنی ناگوار گزری کہ اُن کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے اور بیٹے سے کہا کہ ’’کل قیامت ہوگی۔نبی کریمﷺ کے دربا میں جب ساری اُمّت جمع ہو گی، جس میں نیک ،پرہیزگار، عالِم ،فاضل وغیرہ ہوں گے،اُس وقت یہ مظلوم فقیر وہاں پر تمہاری شکایت لے کر آگیا ،تو میں تمہاری اس حرکت کے بارے میں انہیں کیا جواب دوں گا۔‘‘ والد کی یہ بات سن کر اقبال سر جھکا ئے شرمندگی کے باعث کھڑےرہے۔تب والد نے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا’’ میرے لخت ِجگر ! تم اُمّت ِ مسلمہ کے ایک فرد ہو۔ وہ تمام تعلیمات تمہارے سامنے رہنی چاہئیں ،جن کا حکم نبی کریمﷺ نے دیا ہے ۔ تمہیں امیر، غریب، بڑے چھوٹے سب کے لیے نرم گوشہ رکھنا چاہیے۔‘‘اور پھر اقبال نے باپ کی نصیحت اور اُن سے کیے گئے وعدے کی پاس داری تا حیات کی۔ اُس دن کے بعد کبھی کسی فقیر کواپنے دروازے سے خالی ہاتھ نہ جانے دیا۔

ڈاکٹر سر علّامہ محمّد اقبال کو 20 ویں صدی کے معروف ترین اردو، فارسی، شاعر، مصنّف، قانون دان، سیاست دان، مسلم صوفی اور تحریکِ پاکستان کی ایک اہم ترین شخصیت ہونے کا عزاز حاصل ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوّف اور احیائے امّت ِ اسلام کی طرف رہا۔ علّامہ اقبال کو ’’دَورِ جدید کا صوفی‘‘ بھی کہا گیا ہے۔ بحیثیت سیاست دان نظریۂ پاکستان کی تشکیل اُن کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ اسی سبب انہیں پاکستان کا ’’نظریاتی باپ‘‘ قرار دیا گیاکہ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد اور وجہ بنا۔ گوکہ انہوں نے پاکستان کا قیام اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا، لیکن انہیں رہتی دنیا تک پاکستان کے قومی شاعر اور مصوّر ِ پاکستان کی حیثیت حاصل رہے گی۔ آپ پاکستان کی آزادی سے قبل ہی 21 اپریل 1938ء کو اس دارِ فانی سے کُوچ کر گئے۔ تاہم، قوم ایک عظیم شاعر اور مفکّر کے طور پر ہمیشہ آپ کی احسان مند رہے گی۔ کہ بہ قول شاعرِ مشرق ؎

اقبال بھی ’’اقبال‘‘ سے آگاہ نہیں ہے

کچھ اس میں تمسخر نہیں، واللہ نہیں ہے 

تازہ ترین