• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نگہت ہاشمی

’’انسا نیت کی تعمیر میں عورت کا کردار ‘‘ بڑ ااہم ہے۔ اس وقت ساری دنیا کی خواتین اور ساری دنیا کے انسان اس جا نب نظر لگا ئے ہوئے ہیں کہ عورت کس رخ پر جاکر انسانیت کی تعمیر کے کام کر تی ہے ۔ حضرت جبرائیلؑ نے نبی ﷺسے ایک سوال کیا ۔ یہ ان سوالات میں سے ایک ہے جو دین سکھانے کے لیے جبرائیل نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے انسا نی شکل میں آکرنبی ؐسے کیے تھے ۔ سوال یہ تھا کہ اے اللہ کے رسولؐ یہ بتائیں کہ قیا مت کی علامات کیا ہیں ؟

قیا مت کی علا مات کے بارے میں سوال بہت اہم تھا ۔ رسول اللہ نے قیامت کی علا مات میں سے ایک علا مت یہ بتائی کہ جب لو نڈی اپنے آقا کو جنے گی یعنی جب عورت اپنے مالک کو جنے گی ۔(بخاری50: )اس کی بہت سی تفاسیر کی گئیں ۔ سادہ لفظوں میں دیکھیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت اپنے بیٹے کے ہاتھوں مغلوب ہو جائے گی ۔ عورت پر بیٹے کا غلبہ کیسے ہو گا ؟ عورت اپنے ہی بیٹے کو اپنا مالک کیسے بنا دے گی ؟کیسے وہ آقا کے مقام پر رکھے گی؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت اپنے ہی پیدا کردہ بیٹے سے محبت کے ہاتھوں اتنی مغلوب ہو جائے گی کہ اس کی اس طرح سے بات ما نے گی گو یا کہ وہ اس کا حاکم ہے ا ور وہ اس کی محکوم ۔ آج کے دور میں جتنی محبت والدین اپنی اولاد سے کرتے ہیں، جس برے طر یقے سے ان کی محبت میں گر فتار ہیں تا ریخ میں ایسا کبھی نہیں ہو ا ۔ اس میں کو ئی شک نہیں کہ یہ فطری محبت ہے اور یہ ہر دور کے والدین کے دل میں ہو تی رہی ہے ۔ ہر دور کے والدین اس محبت کے ہاتھوں اپنی اولاد کی پروا کرتے رہے ہیں لیکن کبھی والدین ایسے مغلوب نہیں ہو ئے جیسے آج کے دور میں والدین مغلوب ہو گئے ۔آپ غور کیجئے کہ والدین نے اولاد کی محبت میں کیا کچھ نہیں کر ڈالا! کیااپنی ساری زندگی کی کمائی اور سارا اثاثہ اپنی اولاد پر نہیں لٹا دیا !آج کے ماں باپ اپنی اولاد کی محبت میں پہلے سے زیادہ گر فتار ہیں ۔ وہ اپنا سا را مال ، سارا وقت ، صلاحیتیں ، اپنا کل اثاثہ سب کچھ اپنی اولاد پر خرچ کر دینا چا ہتے ہیں ۔ اس صورت حال نے عورت سے اس کا امتیازی اعزاز چھین لیا ہے ۔ عورت کے اندر رب کائنات نے ایسی صلاحیت رکھی ہے کہ وہ پوری انسا نیت کے لیے عظیم خد مت انجام دے سکتی ہے ۔ عورت انسا نیت کی معلم ،عورت انسا نیت کی معمار بن سکتی ہے ۔ عورت انسانیت کے لیے خدمت گار بن سکتی ہے، مگر اولاد کی محبت عورت پراس قدر غالب آگئی ہے کہ وہ اپنا آفا قی کردار اد اکر نے کے قا بل نہیں رہی ۔

اس میں کو ئی شک نہیں کہ عورت کی زندگی بچوں سے لا ڈ پیار سے شروع ہو تی ہے اور اسی پر ختم ہو جاتی ہے ۔ عورت عملا ًاس قا بل نہیں رہ گئی کہ انسا نیت کی تعمیر کے لیے اعلیٰ کام کر سکے ۔ کہاں گئی وہ عورت جو محبت کی علا مت تھی ؟ آج وہ بیٹے کی محبت کی علا مت بن گئی ہے۔ عورت نے انسانیت کی محبت کی علا مت بننا تھا ۔ اس نے محبت کے دائرے کو محدود کیا تو نتیجہ یہ ہوا کہ خود مغلوب ہوگئی اور محکوم بن کر رہ گئی۔ یہ محکو میت دراصل اولاد کی محبت کی مغلو بیت ہے ۔ اولاد کی محبت نے پھر اولاد کو کیا بنا دیا، یہ محبت اولاد کی تر بیت تو نہیں کرواسکی ۔ یہ محبت اپنے بیٹے کو اچھا انسان نہیں بنا سکی ۔ اس محبت نے خود پر ست انسانوں کی فوج ظفر مو ج تیار کی ہے ۔ اس محبت نے اقدار کا بحران (Value crisis) پیدا کیا ہے ۔ عورت نے اپنی محبت میں ایسے افراد کو تیار کیا ہے جن کی ذاتی خواہشیں ان کی راہ نما ہیں ۔ عجیب بات ہے لیکن ہے سچ کہ آج ذاتی خوشی حاصل کر نا ہی سب کا واحد مقصد بن گیا ہے خواہ اس خو شی کے حصول کے لیے وہ دوسروں کی خوشیوں کا خاتمہ ہی کیوں نہ کر دیں ۔اس موقع پر رک کر عورت کو اپنی ذات کی طرف، اپنے آپ کی طرف دیکھنا چا ہیے، کیسے وہ اتنی گہری محبت میں گر فتار ہو ئی، کیسے وہ مغلوب ہو گئی ۔

آج بچوں کو دیکھیں مائوں کے ساتھ بڑھاپے میںکیسا سلوک کرتے ہیں ،انہیں’’ اولڈ ہائوس‘‘ میں پہنچا دیتے ہیں ۔ اپنی ذاتی خوشی کے لیے کیسے وہ محبت بھرے دلوں کو توڑتے ہیں ، کرچی کر چی کر ڈالتے ہیں ۔ عورت نے اپنی محبت میں کیا پایا ؟ وہ لہو لہان ہو گئی ۔کیوں بنایا تھا اپنے بیٹے کواپنا حاکم ؟کیوں اس کی محبت میں مغلوب ہوئی ؟کیوں اس کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا ؟اولاد کی محبت فطرت میں ہے لیکن اولاد کی محبت میں کیا یہاں تک پہنچنا ہی سب سے بڑا خواب تھا ؟

پھر عورت کے دوسرے کردار کودیکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو مرد کے لیے سکون کا ذریعہ بنایا ہے۔ سورۃالروم میں رب العزت نے فرمایا: اوراُس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اُس نے تمہارے لیے تمہاری جنس ہی سے بیویاں پیدا کیں،تاکہ تم اُن سے سکون حاصل کرسکواوراُس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی،بلاشبہ اس میںیقیناًاُن لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو غوروفکر کرتے ہیں۔(الروم21)

اللہ تعالیٰ نے عورت کو اس طرح بنایا ہے کہ وہ زندگی میں مرد کے لیے سکون کا باعث بنے ۔یہ پہلو دونوں کے لیے بے حد اہم ہے ۔ اگر مرد اور عورت دونوں ہی اس پہلو کو سامنے رکھیں تب ہی وہ زندگی کے اس سفر کو کا میابی کے ساتھ جاری رکھ سکیں گے لیکن عجیب بات ہے کہ آج فطرت کے اصول کو بدل دیا گیا ۔ مرد نےعورت کواپنے لیے تفریح کا ذریعہ سمجھ لیا۔جانتے ہیں اس کا نتیجہ کیا نکالا ہے ؟اس کی وجہ سے زندگی کا پورا نظام بدل کر رہ گیا ۔ عورت نے فطری طور پر اپناجو فریضہ ادا کرنا تھا وہ ادا نہیں کر پائی اور اپنے آپ کو بہت زیادہ پر کشش بنانے میں مصروف ہو گئی۔ یہ غیر فطری صورت حال تھی، جس کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ عورت کی سب سے زیادہ تو جہ اپنی فطری ذمہ داریوں کی ادائیگی پر نہیں ہے ۔ عورت اپنے وقت کا زیادہ حصہ اپنی تزئین ِمیں لگا دیتی ہے جو مصنوعی ہے ۔ خوب صورت بننے کا شوق اسےاُس حد تک لے گیا ، عورت کو عورت ہی نہ رہنے دیا۔

اگر ہم عورت کے اس رول کو بھی پیش نظر رکھیں ،جس کے بارے میں آج کا انسان غلط فہمی کا شکار ہوا تو عورت کے حقیقی رول کو سمجھنا زیادہ آسان ہو جائے گا ۔آج کے دورمیںتحریک آزادی نسواںاورصنفی برابری کاجو تصورابھرایہ تصورانتہاپسندانہ توہے، عورت کےلئے ایک سلوگن پوری انسانیت پراثراندازہوا:

Don't make coffee, make policy

اس نعرے کے نتیجے میںہی خواتین باہرآکر کام کرنے لگیں ۔پھرکیاہوا،گھرکامحاذ توخالی ہوگیا۔ایک طرف مردوں کے لئے بے روزگاری سامنے آئی اوردوسری طرف بچے اخلاقی تربیت سے محروم ہوگئے۔ عورت کےگھرسے باہرآنے کاکیانتیجہ نکلا؟آج مادّی ترقیاںتوہیں لیکن کیاہماری دنیابہتربن گئی ہے ؟آج کی دنیامیں مادّی ترقیوں کی چمک دمک توہے لیکن دوسری طرف منفی رجحانات میں اضافہ ہوگیاہے۔آج نفرت ہے، تشددہے ، تناؤہے،بے اطمینانی ہے، اقدارکافقدان ہے ۔سبب کیاہے؟مرداورعورت دونوں ہی باہرکے کاموں میں لگ گئے اورگھرکودونوں ہی ویران کرگئے۔ یہ گھرہی توتھاجہاں انسانوں کی سیرت سازی کاکام ہوتاتھا۔

کیااس دنیامیں بہتری لانے کے لئے ہمارافرض نہیں بنتاکہ رک کرسوچیں کہ ان مسائل کاحل کیاہے؟محض تنقید نفع نہیں دے گی۔ہمیں دیکھنا ہےکہ نسل انسانی کوکیسے بہتربنایا جا سکتا ہے؟ان کوکیسے اچھاانسان بنایاجاسکتاہے؟اس کےلئے ضرورت اس امرکی ہے کہ مرداورعورت کے رول کو بیان کیاجائے۔اگرہم فطری اصول کودیکھیں کہ خالق نے اس دنیاکوکس اصول پربنایاہے؟اللہ پاک نے اس دنیاکوزوجین کے اصول پربنایاہے ۔ہرچیزجوڑاجوڑاہے اوریہ جوڑے صرف زندہ مخلوقات کے نہیںہیں۔سب سے زیادہ ضروری چیزجوہم استعمال کرتے ہیں وہ پانی ہے،وہ بھی ہائیڈروجن اورآکسیجن کے ملنے سے بنتاہے ۔ہماری آنکھ دیکھتی ہے۔دیکھنے کاعمل دوچیزوں کی وجہ سے وجودمیں آتاہے ،آنکھ اورروشنی ۔اگریہ دونوں نہیں ہوں گے تودیکھنے کاعمل وجودمیں نہیں آسکتا۔اسی طرح کامعاملہ مرداورعورت کابھی ہے۔ زندگی کی تعمیرجومرداورعورت کی وجہ سے ممکن ہے تب ہی وجودمیں آسکتی ہے جب مرداورعورت اس عمل میں برابرکے حصے دارہوں ۔اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ دونوں کارول طے کیاجائے۔ ایک توصورت یہ ہوسکتی ہے کہ انسان اپنی عقل کے مطابق اس کوطے کرنے کی کوشش کرے اوردوسری یہ صورت ہوسکتی ہے کہ پیداکرنے والے رب نے جوفطری اصول دیااس کومان لیں۔ہم ہرجگہ فطری قوانین پرچلتے ہیں اور ان کوتسلیم کرتے ہیںتواس معاملے میں بھی فطری اصول کو ماننےمیں ہی بھلائی ہے ۔فطری اصول یہ ہے کہ زندگی میںمرداورعورت دونوں کے مشترکہ عمل کے نتیجے میںہی زندگی کی تعمیرہوسکتی ہے ۔اس لیےایڈجسٹمنٹ ضروری ہے ۔ اللہ پاک نے عورت کونصف انسانیت قراردیاہے۔عزت کےاعتبارسے، مرتبے کےاعتبارسے عورت اورمرددونوں کادرجہ برابرہے۔تقسیم کارکااصول رب العزت نے رکھاہے۔انسانی سرگرمیوں کے کچھ امورمردسے متعلق ہیں، کچھ عورت سے متعلق ہیں ۔مردکامردہوناایک ذمہ داری ہےاور عورت کاعورت ہونابھی ایک ذمہ داری ہے۔ دونوں کے لئے کامیابی اورناکامی کاایک ہی معیارہےاوروہ یہ کہ جس کو جوذمہ داریاں تفویض کی گئی ہیں وہ اپنی ذمہ داریوں میں پورا اترے۔

عورت نے تاریخ میںبڑااہم کرداراداکیاہے۔ہم جب تاریخ کوپڑھتے ہیں توہمیں پتہ چلتاہے کہ زیادہ ترکارنامے مردکے ہیں لیکن ہرکامیاب مردکے پیچھے ایک عورت کاہاتھ ہوتاہے۔

عملی میدان میں عورت کیا کرادار اداکر سکتی ہے؟عورتیں کل بھی معلم اور مربی کی حیثیت رکھتی تھیں ،آج بھی ایسا ہو سکتا ہے ۔کل اگر گھر کے اندر اخلاقی تربیت کا سلسلہ جاری تھا تو بچے کو اب ابتدا میں ہی اسکول بھیج دیا جاتا ہے ۔اگر اس پر غور کریں توحل تو ہمارے پاس ہے۔ عورت گھر سے باہر تو آگئی ہے،اس کی ور ک پلیس تو بدل گئی ہے۔ آج اگر ہم یہ چاہیں کہ عورت دوبارہ گھر کی ہو کر رہ جائے تو اب عملا ًایساممکن نہیں ہے۔اب یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں عورت کیا کام کرے ،جس کی وجہ سے انسانی تربیت کا معاملہ آگے بڑھے ، تربیت سازی کا عمل نہ رکے، جس کی وجہ سے اقدار کا جو بحران پیدا ہو گیا وہ ختم ہو جائے ۔ نسل نوکی تربیت کے بارے میں عورت کا کردار آج کے زمانے میں بھی ہے۔ یہ کردار پہلے گھر کے اندر تھا اب گھر سے باہر آکر معاشرے میںانجام دیناہے۔

سوسائٹی میں جتنی سرگرمیاں جاری ہیں ان کو دو بڑے شعبوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ایک تو پیدا واری سرگرمیاں ہیں جیسے صنعتی شعبہ جات ،زراعت وغیرہ جن کے ذریعے زندگی کی ضروریات کی تیاری اور فراہمی کا سلسلہ جاری ہے اور دوسرا شعبہ تعلیمی سرگرمیوں کا ہے۔رسمی اور غیررسمی تعلیم(formal and informal education )دونوں ہی یکساں حیثیت سے اس شعبے میں شامل ہیں۔ یہ شعبہ اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت کرے ،تا کہ انسانیت کو ایسے افراد ملیں جو تربیت یافتہ ہوں ۔

پیداواری شعبے کی اہمیت اپنی جگہ ہے ۔اللہ پاک نے مرد کو جو صلاحیتیں دی ہیں وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر،پیداواری شعبے میں اپنا حصہ ڈال کر انسانیت کی خدمت کر سکتا ہے۔ جہاں تک تعلیمی سرگرمیوں کے شعبہ کا تعلق ہے تو اسے عورت کی تحویل میں دینا چاہیے ۔عورتیں اس کے لیے بالکل درست اور موزوں صلاحیتیں رکھتی ہیں ۔اس دوسرے شعبے میں بہت سی چیزیں شامل ہیں جیسے اسکول ایجوکیشن ،کالج ایجوکیشن وغیرہ۔آج کے حالات کا یہ تقاضہ ہے کہ اخلاقی پابندیوں کے دائرے میں رہتے ہوئے عورتیں تعلیمی سرگرمیوں کو سنبھالیںاور انسانیت کی اخلاقی اور ذہنی تعمیر کا کام کریں ۔وہ انسانوں کی مربی اور معلم بن کر اپنا تاریخی کردار ادا کریں۔ یہ خواتین کے لیے بہت بڑا مشن ہے اور ساتھ ساتھ ان کی بہتر جاب بھی ہے۔

حقوق و فرائض کے معاملے میں مرد، عور ت دونوں برابر کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن تقسیم کار فطرت کا اصول ہے۔ ہماری پوری زندگی اس اصول کے مطابق چل رہی ہے۔ مرد اور عورت کے معاملے میں بھی یہی تقسیم کار مطلوب ہے۔ تقسیم کار کا مطلب صنفی مساوات نہیں ہے۔ فطری اصول اختیار کرنے کی ضرورت ہے، تا کہ ہمارا معاشرہ کسی تضاد کا شکار نہ ہو اور کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتا رہے۔ یہ وقت کا تقاضہ ہے کہ انسانی نسل کی تربیت کے بارے میں عورت اپناکردار اد ا کرے۔ عورت نے فطری ذمہ داری کو اب تعلیمی اداروں کے اندر ادا کرنا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ عورت اس ذمہ داری کے لیے اپنے آپ کو تیار کرے تا کہ تعلیمی اداروں میں اپنے مطلوبہ کردار کو ادا کرنے کے قابل ہو سکے ۔اب اسے باقاعدہ تعلیم اورتعلیم کے میدان میں مہارت حاصل کرنی ہے ۔اب اس نے اپنی ورک پلیس کا چارج لینا ہےاور اپنی فطری ذمہ داری کو ادا کرنا ہے۔عورت پیشہ وارانہ تعلیم کے بغیر اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے اسےمحنت کرنی ہےاور اپنے آپ کو ا س قابل بنانا ہے کہ انسانیت کی تعمیر کے لیےاورانسان سازی کے لیے اللہ پاک نے جو ذمہ داریاں عائد کی ہیں ان ذمہ داریوں کو ادا کر سکے ۔

جس نے زندگی میں اہم کردار اد اکرنا ہو اسے اپنی ذات کی قید سے باہر نکلنا پڑتا ہے، اپنی انا کے خول سےنکلنا پڑتا ہے ۔خود غرضی،تنگ نظری ذات کی قید اورکمزوری ہے۔ اپنا کردار اداکرنےکے لیے ضروری ہے کہ اچھے طریقے سے اپنے آپ کو جان لیں۔ سب سے بڑی بات صبر کی ہے۔ صبر ہی انسان کے اندر اعتدال پیدا کرتا ہے،اس کی وجہ سے انسان اپنی قوت کو غیر ضروری ضائع نہیں کرتا،صبر کی وجہ سے مایوس نہیں ہوتا ،صبر تو مایوسی کو بھی اُمید میں بدل دیتا ہے،صبر کی وجہ سے پختگی پیدا ہوتی ہے، انسان خودکو بدلتا ہے اور دوسروں کو بدلنے کے لیے کوشش کر سکتا ہے۔

دنیا میں کچھ چیزیں ہیں جو بدل سکتی ہیں اورکچھ کبھی نہیں بدل سکتیں ۔جو بدلنے والی نہیں ہیں وہاں خود کوایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے۔ زندگی میں بڑا کرادار اد اکرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ سطحیت سے نکل آئیں ۔اس معاملے میں سادہ طرز زندگی آپ کا مددگار ہوگا۔جو انسان سادہ زندگی گزارتا ہے، اس کے اندراعلیٰ سوچ پیدا ہوتی ہے۔ اپنے وقت کی قدر کو پہچانیں ،غیراہم اور غیر متعلق چیزوں سے خود کو بچائیں ۔اللہ پاک نے آپ کو جوصلاحیت دی ہے، جوامکان آپ کے اندر ہے اس کو باہر لے آئیں۔ جب یہ باہر آئے گاتو یہی کامیابی ہے ۔اللہ تعالیٰ کو عورت سے یہی مطلوب ہے کہ وہ نسل انسانی کی تربیت کرے ۔اسی وجہ سے عوت کو رب العزت نے فطری طور پر ایسا بنایا ہےکہ وہ اپنی اس ذمہ داری کو بہت عمدہ طریقے سے ادا کر سکتی ہے۔ کیا رب العزت نے عورت کو نرمی،شفقت،صبر اور جذباتی تعلق جیسی صفات نہیں دیں؟ یہ صفات تربیت کے لیے ضروری ہیں ۔لیکن ا س کے ساتھ ساتھ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ عورت باقاعدہ طور پر جدید علوم حاصل کرے ۔اس وقت بہت زیادہ ضرورت ہے کہ وہEducational training حاصل کرے ،تا کہ وہ اپنے آپ کو اس قابل ثابت کرے کہ وہ بچوں کی تعلیم وتربیت کر سکتی ہےاور اپنے فریضے کو بھرپور طریقے سے ادا کر سکتی ہے۔ نئی نسل کواخلاقی بحران سے بچانے کے لیے یہی ایک صورت ہے۔ اس لئے اپنے آپ کو ٹرینڈ ٹیچر ثابت کریں۔ یہ نیا نظام ہو گا۔ اس نئے نظام میں آپ تب ہی فٹ ہو سکتی ہیں جب آپ اچھی ٹیچر بنیں ۔اس کے بعد ہی انسان سازی کے عمل کو جاری رکھیں گی توآپ انسانیت کے لیے بڑا کام کرنے کے قابل ہو جائیں گی۔(ان شاء اللہ تعالیٰ)

سچی بات تو یہ ہے کہ عورت انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا تحفہ ہے اور ماں کے روپ میں ہر انسان کی بہت مددگار ہے۔ عورت کی ترقی میں بہت مؤثر کردار ادا کر سکتی ہے۔ماں کی حیثیت سے اس کا کردار بہت عام ہے ۔آپ اپنے ذاتی تجربے سے اس کو جانتی ہیں ۔ماں ہر جگہ ،ہر دور میں اپنا یہ کردار اد اکرتی ہے۔ اسلام نے عورت کے اندر آفاقی ذہن پیدا کیا ہے ۔اسلام چاہتا ہے کہ عورت صرف اپنے بچوں کی مربی نہ رہے ، صرف ان کی معلم نہ بنے ،ساری انسانیت کی مربی ،ساری انسانیت کی معلم بن جائے اور اس صلاحیت کو صرف اپنے بچوں تک محدود نہ رکھے بلکہ خیر کے اس کام کو عام کرے۔ عورت کو اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی تعمیر کے لیے پیدا کیا ہے ،وہ صرف اپنے بچوں کی تعمیر کے لیے پیدا نہیں ہوئی۔ اصل کام کرنے کا یہ ہے کہ آپ اپنی علمی استعداد کو بڑھائیں ۔اس وقت اگر دنیامیں کچھ کردار اد اکرنا چاہتی ہیں تو اپنی تعلیمی استعداد کو بہتر کریں ،ڈگریاں بھی اس راستے کی اہم ضرورت ہیں۔ جتنا زیادہ تعلیم کی اہمیت بڑھ گئی ہے اس کے لیے آپ کا زیادہ اچھی تعلیم حاصل کرنا بھی ضروری ہو گیاہے۔ آج خواتین بڑے پیمانے پرتعلیمی کام کرتی نظر آتی ہیں۔ عام طور پر کہا یہ جاتا ہے کہ عورتیں زیادہ کامیاب اسکول ٹیچر ثابت ہوتی ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ عورتیں اپنے اصل مقام عمل تک پہنچ گئی ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر کوئی عورت تعلیمی اداروں میں ملازمت بھی کرتی ہے تو ملازمت کو مشن کے طور پر انجام دے۔اگرمشنری نہیں بنیں گی تونسل انسانی کی تربیت کا کام نہیں کر سکیں گی۔ آج سب سے بڑا کام تربیت ہے ۔اگر آپ یہ سمجھتی ہیں کہ الفاظ کو منتقل کرنے کے لیے اپناکردار ادا کر دیں تو الفاظ تربیت کے عمل میں ضروری تو ہوتے ہیں لیکن اصل نہیں ہیں ،الفاظ تو چھلکا ہیں ۔آپ جب تک اس کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھیں گی آپ اس کے لیے محنت نہیں کر سکیں گی ،آپ جب تک اس کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھیں گی اس کے لیے ٹریننگ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کریں گی۔انسانوں کی تربیت مشن ہےجس کو چلانے کے لیے عمدہ ، حقیقت پسند اور حساس شخصیت کی ضرورت ہوتی ہے۔استحصالی مزاج نہیں چاہیے، شفقت اور خیر خواہی کے جذبات سے بھرا ہوا ہونا چاہیے ۔ لوگوں کا رویہ منفی بھی ہو تب بھی مثبت رویے پر قائم رہنا ضروری ہے۔ ہر عورت کو رب نے ایسا بنایا ہے کہ اس کے اندر وفاداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے ۔کسی مقصد کے ساتھ تعلق قائم ہو جائے تو یہ تعلق محض عقلی بنیاد پر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا، اس کے لیےگہری دلی وابستگی ضروری ہے ۔گہری دلی وابستگی کے ساتھ شکایت بھی ہو تو مقصد کے ساتھ تعلق قائم رہتا ہے۔ عورت کو فطری طور پر اللہ تعالیٰ نے جذباتی بنایا ہے۔ مرد کے اندر یہ صفت کم پائی جاتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ بے غرض تعلق مرد کی نسبت عورت کے اندر زیادہ پایا جاتا ہے۔ اسی طرح دعوتی کام کے لیے عورت کس قدر موزوں ہے۔ مرد کے سامنے جب کوئی بات کہی جاتی ہے تو اس کے اندرانانیت((Ego کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ جب کبھی وہ کسی کو دعوت دیتا ہے تو عجیب بات ہےEgo clash ہو جاتا ہے اسی وجہ سے حق کو قبول کرنے کے راستے میں یہ رویہ رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت میںیہ بات رکھی ہے کہ وہ بات سن بھی لیتی ہے اور برداشت بھی کر لیتی ہے۔

آپ اچھی مربی اور اچھی معلم بن جائیں معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہوں تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکم سے اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچائیں بھی اور اس کی حفاظت کرنے کے قابل بھی ہوں۔ اللہ پاک ہماری خطائوں سے درگزر فرمائےاور ہمیں بہترین انداز میں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تازہ ترین