• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ کا دھندلایا ہوا بین الاقوامی سیاسی منظرنامہ

خیال تازہ … شہزادعلی
نیویارک ٹائمز صفحہ اوّل پر راجر کوئن کا نقطہ نظر شائع ہوا ہےکہ بریگزٹ ایک ایسے بڑے بلیک ہول black hole کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں پر ہر چیز بتدیج ایسے غائب ہو جاتی ہے جن کا پھر کوئی سرا ملنا ممکن نہیں رہتا، راجر کوئن 1990 سے اس اخبار سے منسلک ہیں، فارن ایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں بدھ اور ہفتے کے روز ان کا کالم شائع ہوتا ہے۔ ان کی رائے میں اب بھی بریگزٹ ہوسکتا ہے۔ لیکن پہلی مرتبہ اس کے وقوع پذیر ہونے کے حوالے بعض اشارے جو مل رہے ہیں وہ پہلے سے بھی بہتر نہیں ہیں۔ ان کا جائزہ اپنے قارئین سے شیئر کرنا موجودہ قومی منظر سمجھنے کے لئے برمحل ہوگا، انہوں نے بریگزٹ ریفرنڈم کا تقریباً” تین سال کا عرصہ گزرنے کے بعد ایک کامیڈین کے موجودہ صورت حال پر تبصرہ کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ وہ کامیڈین کہتا ہے کہ اب تک وہ اس کو اس طرح سمجھ پائے ہیں کہ پارلیمنٹ تھریسامے کی ڈیل کو نو کہہ چکی ہے۔ وزیراعظم برطانیہ کا ریفرنس دیا ہے “ اور وہ نو ڈیل کو ناں ، نہیں نو No کہہ چکے ہیں ، لیکن ان میں سے کچھ نو ڈیل کو ہاں، یس yes کہہ چکے ہیں لیکن نو ٹو تھریسامے ڈیل، لیکن ان کے پاس درحقیقت اپنی کوئی ڈیل ہے نہیں۔ جو کہ ایک بگ ڈیل ہے ۔ کیونکہ ایک ڈیل کے بغیر نو ڈیل کا زیادہ امکان ہے جسے ڈیل کیا جاسکے اور جو لوگ ڈیل چاہتے ہیں وہ اس کو ڈیل نہیں کرسکتے۔ باالفاظ دیگر برطانیہ کی پارلیمنٹ ڈیل اور نو ڈیل کے الفاظ کی گھتیوں میں الجھ کر رہ گئی ہےیا پھرٹام بالڈون جو دوسرے ریفرنڈم کی مہم پیپلز ووٹ کے کمیونی کیشن ڈائرکٹر ہیں کے الفاظ میں بریگزٹ کا مسئلہ تھریسامے نہیں بلکہ بریگزٹ ہے۔ راجر کوئن لکھتے ہیں کہ ہم یہاں پر ہیں: بریگزٹ ممکن نہیں کیونکہ یہ کوئی سینس sense نہیں بناتا، واضع کیا ہے کہ ریفرنڈم کو منعقد ہوئے تین سال کا عرصہ بیت گیا لیکن یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ رہی، انہوں نے اس کی جو وجہ بیان کی ہے وہی اصل حقیقت ہے، اور بریگزٹ تعطل کا اصل سب ہے۔ وجہ: درحقیقت برطانوی کسی ایسے عمل سے گزر نہیں سکتے جو ان کی آمدنیوں کو کم کردے، ان کو غربت سے دوچار کردے، ملازمتوں سے محروم کردے، سرمایہ کاری کو ڈرین کردے یعنی انویسٹممنٹ ڈبو دے۔ ان کی منڈیوں، مارکیٹوں کو ایسی تجارتی، ٹریڈ ڈیل کے سامنے ایکسپوز کردے جس میں ان کی کوئی شنوائی ہی نہ ہو، یہی وہ سوچیں ہیں جو یورپ سے انخلا کی صورت میں برطانیہ کے اکثر لوگوں کے ذہن رسا میں اب ابھرتی ہیں۔ اور کسی فیصلہ کے امر میں مانع ہیں۔ اور ان کو اس امر کا ادراک بھی ہورہا ہے کہ یہ بریگزٹ برطانیہ کے بریک اپ، ملک کے حصے بخرے کرنے کی طرف لیڈ کرے گا، اسی باعث یہ ان کی زندگیوں کا ایک مشکل ترین ٹاسک ہے۔ مذکورہ جائزہ کار کے مطابق ایگزٹ ڈیڈ لائن جو پہلے 29 مارچ تھی اس میں یورپی یونین کی طرف سے اختتام اکتوبر تک توسیع ان نزدیک یہ ایک بریگزٹ کے خاتمے کی شروعات ہے، بریگزٹ شاید اب بھی ہوجائے مگر فرسٹ ٹائم اس کے رونما ہونے کے "طاق" " جفت" سے بہتر نہیں ہیں، مومنٹم، ری مین کیمپ Remain” camp کے ساتھ ہے، یعنی لوگوں کی اخلاقی حمایت یورپ کے ساتھ رہنے کے حمایتی لوگوں کو حاصل ہے۔ حال ہی میں چھ ملین سے زائد لوگ یونین کے ساتھ رہنے کی ایک پٹیشن پر دستخط کر چکے ہیں، ایک ملین لوگ حال ہی میں مارچ بھی کرچکے ہیں، بریگزٹیرز انخلاء کے حمایتی شکست سے دوچار ہورہے ہیں۔ ایک ممتاز ریڈیو براڈ کاسٹر نک فراری نے اس مہینے اعلان کیا کہ وہ اپنا مائنڈ چینج کرلیں گے، یورپ کے ساتھ رہ لیں اور ہم دیگر معاملات کی طرف توجہ دیں اس معاملہ پر بہت ہوچکا ہے، جو چھ ماہ کی توسیع کی مدت ملی ہے اس عرصہ میں کچھ بھی ہوسکتا ہے، اس سارے عمل یعنی بریگزٹ ساگا کو پاگل پن کے ایک ایکٹ سے تعبیر کیا گیا ہے، جیسا کہ دی نیو سٹیٹسمین میں اس بابت مارٹن فلیچر نے سوال اٹھایا جس میں انہوں نے واضح کیا کہ کوئی بھی سنجیدگی سے یہ سوچ نہیں سکتا کہ اگر برطانوی اس انخلاء کے نتائج سے آگاہ ہوتے تو وہ ایسا فیصلہ نہ کرتے، برطانیہ اب تقریبا یقینی طور پر یورپی یونین کی پارلیمنٹ کے مئی الیکشن میں حصہ لے گا، جبکہ یہ اندازہ لگایا گیا ہےکہ اس مرتبہ یورپ کے ساتھ رہنے کے حمایتی برطانوی بہت زیادہ تعداد میں باہر نکلیں گے جبکہ انخلا کے سپورٹرز جو روٹھے ہوئے ہیں شاید بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے نہ آئیں، ایک تازہ پول یہ تجویز کر رہاہںے کہ حزب مخالف کی بڑی جماعت لیبر پارٹی کو اس وقت حکمران جماعت کنزرویٹو پر آرام دہ برتری حاصل ہے، لیکن یہ سپورٹ مخالف سمت میں بہہ جائے گی اگر ٘لیبر نے اپنے منشور میں یورپین یونین رکنیت کے لئے ایک دوسرے ووٹ کی حمایت نہ کی۔ ساتھ ہی وزیراعظم تھریسا مے ایک کارآمد معاہدے کے لئے کوشاں رہیں گی، لیبر کے ساتھ حالیہ مذاکرات ان کی ایک تازہ شطرنج کی چال تھی، لیبر یورپ کے ساتھ ایک نرم انخلاء، بریگزٹ کے پارٹ کے طور پر ایک کسٹم یونین کی خواں ہے، مگر یہ آئیڈیا سخت گیر ٹوریز کے لئے ایک بد دعا کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن اس تجزیہ کے مطابق یہ اس لیے بھی ایک بری ڈیل ہے کیونکہ اس سے برطانیہ کو یورپ کے ساتھ تمام تجارتی معاہدات پر اپنی کوئی بات مزید منوائے بغیر دستخط کرنے پڑیں گے۔ ٹوریز ممکن ہے کہ کسی سخت گیر جیسا کہ بورس جانسن ہیں کی حمایت کرکے مسز مے کو وٓوٹ کردیں، وہ شاید ایک نئے انتخاب کا بگل بجا دیں، لیکن ہر صورت میں ٹوریز گھائل اور کمزور معلوم ہوتے ہیں، ایک قابل ذکر بات یہ ہوئی ہے کہ ڈیلی ٹیلی گراف کے سابق چیف پولیٹیکل کمنٹیٹر، تبصرہ کار پیٹر اوبورن نے اپنا مائنڈ تبدیل کر لیا ہے، انہوں نے ایک قابل ذکر طور پر حال ہی میں اپنی تحریر میں واضح کیا ہے کہ وہ اگرچہ ٹوری یورپین یونین چھوڑنے کے مضبوط حمایتی رہے ہیں لیکن اب ان پر یہ واضح ہوچکا ہے کہ برطانیہ کا یورپ سے انِخلاء ہمارے ملک کے لئے ایک بڑا طوفان ثابت ہو گا، انہوں نے برطانیہ کے یورپ سے علیحدگی کے انتہائی مضر معاشی نقصانات کا مشاہدہ کرتے ہوئے ای یو کو ایک ایسی گلو، گوند کا حصہ قرار دیا جو ہم کو یو کے میں ایک دوسرے سے جوڑے، چپکائے ہوئے ہے۔ سکاٹ لینڈ یونین کے اندر رہنا چاہتا ہے، شمالی آئرلینڈ، جمہوریہ آئرلینڈ کے ساتھ ایک سخت سرحد نہیں چاہتا، جو ای یو کا ایک رکن ملک ہے، ایک اوپن انٹرا آئریش بارڈر 21 سالہ پرانے گڈ فرائڈے اگریمنٹ کا مرکزی خیال تھا، لیکن یورپین یونین کے اثرورسوخ کے بغیر غیر متحد برطانیہ کے اندورنی اختلافات جلد ایک بریکنگ پوائنٹ پر پہنچ جائیں گے۔اس تناظر میں یہ واضح ہوچکا ہے کہ ایک بلیک ہول جہاں پر ہر شے ایک خواب کی طرح غائب ہوجاتی ہے بالآخر بریگزٹ کے لئے ایک اچھا آرام دہ مقام ہو گا جبکہ وزیر اعظم اور حکومتی جماعت کو درپیش حلات کا جو تازہ منظر ہے اس پس منظر میں دی ٹائمز کا اداریہ، “ٹوری چوائیسز" بھی لائق توجہ ہے، کہ کنزرویٹوز کو یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ یہ پارٹی آف نو ڈیل بریگزٹ یا نوجوان افراد سے منسلک ہونا چاہتی ہے؟ تھریسا مے نے ممبران پارلیمنٹ کو بتایا ہے کہ وہ ان ایسٹر ہالیڈیز کو بہتر طور پر بروئے کار لائیں تاکہ ہماری واپسی پر ہم یورپی یونین کو ایک ڈیل کے ساتھ جتنا جلد ممکن ہو سکے چھوڑنے کا فیصلہ کرسکیں۔ یہ ایک وش فل سوچ دکھائی دیتی ہے۔ ایک نتیجہ ای یو سے آرٹیکل 50 کے چھ ماہ کی ایکسٹینشن کمپرومائز کا نکلا ہے جبکہ تھریسامے تین مہینے کا اضافہ چاہتی تھیں۔پھر تھریسامے کا مستقبل برطانوی اخبارات کی جلی سرخیوں میں زیر بحث ہے، واضح کیا جارہا ہے کہ بریگزٹ معاملہ پر ناکامی سے تھریسامے کا مستقبل دائو پر لگ گیا ہے۔جیسا کہ میٹرو لندن : مئی کو لازمی مئی میں جانا پڑے گا۔ جبکہ دی ٹائمز کا کہنا تھا کہ ٹوری قیادت کے کم از کم تین امیدوار بریگزٹ ڈیل کے کامنز سے منظوری تک لیڈرشپ مقابلہ سے بچنا چاہتے ہیں۔ ادھر خزانہ کے وزیر فلپ ہیمنڈ کا کہنا ہے کہ ملک کے ای یو سے انخلاء کے معاملے پر برطانوی پارلیمنٹ اور ریفرنڈم کرانے کی تجویز پر غور کرسکتی ہے، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہر چند کہ ان کی پارٹی کی حکومت ایک سیکنڈ ریفرنڈم کی مخالف ہے مگر اس امر کا قوی امکان ہے کہ ایسی تجویز پارلیمنٹ میں پیش ہوجائے، تاہم وزیر خزانہ کا یہ بھی خیال ہے کہ پارلیمنٹ جوں سے قبل ہی بریگزٹ معاملے کی منظوری دے کر ملک میں جاری موجودہ بحرانی صورتحال کو حل کردے گی، جس سے دوسرے ریفرنڈم کے مطالبے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی، جبکہ جو لچکدار توسیع ای یو کی طرف سے ملی ہے اس حوالے یورپین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک کا معقول مشورہ بھی شامل ہے کہ اس بار برٹش فرینڈز وقت ضائع نہ کریں یعنی کسی حتمی حل پر پہنچنے کی سعی کریں۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہںے کہ بنا معاہدہ کے برطانیہ کے اخراج سے زیادہ نقصانات کے اندیشے ظاہر کیے گئے ہیں، جبکہ یورپی ای یو سے انخلاء کے لیے بریگزٹ ڈیل پر کسی قسم کا واضح فیصلہ نہ کئے جانے کی وجہ سے اس وقت برطانیہ اپنی جدید تاریخ کے جس بدترین بحران سے گزر رہا ہے اس پر مختلف نسلی طبقات کو دہری تشویش ہے ایک تو برطانیہ کا شہری اور اور رہائشی ہونے کے باعث یورپ سے علیحدگی کے کسی بھی ممکنہ نقصان سے رنگ دار برطانوی بھی متاثر ہوں گے دوسرا بعض کو یہ خدشات بھی لاحق ہیں کہ ریفرنڈم میں زیادہ ووٹ جو علیحدگی کے لئے پڑے تھے ایک اہم نقطہ برطانیہ کی شناخت کو ابھارنا تھا اور اس ریفرنڈم کے بعد برطانیہ جو ایک کثیر النسل، کثیر المذاہب اور کثیر الثقافت امیج کا عالمی مظہر تھا اس تصور کو زک پہنچا ہے، اس لئے اقلیتی طبقات کے ساتھ کسی بھی طرح کےاختلافات اور منافرت کے ابھرنے کے امکانات کے سامنےبھی ای یو گویا ایک مضبوط ڈھال ہے، چاہے محدود پیمانے پر ہی سہی لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں کو سزا دو کا ڈے منانے کی بعض عناصر نے اپیل کی تھی، اس سے نہ صرف مسلمان کمیونٹی بلکہ دیگر رنگ دار لوگوں میں بھی عدم تحفظ کا احساس ابھر رہا ہے، اور یہ بھی شاید سچ ہو کہ بریگزٹ کی صورت میں برطانیہ کے ای یو سے آزاد ہوجانے کے باعث پاکستان اور دیگر ممالک جو ای یو کا حصہ نہیں کے ساتھ شاید برطانیہ نئے معاشی معاہدات طے کرسکے جس سے ان ملکوں کی معیشت کے ساتھ برطانیہ کو بھی فائدہ پہنچ سکے مگر برطانوی عوام میں بریگزٹ کی صورت میں شناخت کا عنصر زیادہ نمایاں ہونے کے قوی امکانات ہیں جس سے برطانیہ کے اندر آباد نسلی اقلیتوں کے خلاف منافرت کی فضا ابھر سکتی ہے۔ ادھر دی ٹائمز نے ایک چونکا خیز تازہ اداریے میں برطانیہ کے بڑھتے ہوئے سیاسی اور آئینی بحران کی نشاندہی کی ہے برطانیہ کے سیاسی نظام سے دلچسپی رکھنے والوں کے اس طرح کی تبدیلیوں سے باخبر رہنا بھی ضروری ہے، خبار کے مطابق کہ جو اکثر کہا جاتا ہے کہ بریٹن ایک پولیٹیکل اور آئینی بحران سے دوچار ہے اس کا کیس بنتا ہے یہ بحران پولیٹیکل کلاس نے بنایا ہے جو ایک برطانیہ کی کل آبادی میں ایک اقلیتی طبقہ ہے۔ اس موقر اخبار نے موجودہ پارٹی ممبرشپ سسٹم کو تفصیل سے زیر بحث لایا ہے یہ واضح کیا گیا ہے کہ اس وقت لیبر کی چار لاکھ اور ٹوریز ایک لاکھ چوبیس ہزار کے قریب ممبرشپ ہے۔ برطانیہ کا پارٹی سسٹم ممبرشپ پر بنیاد کرتا ہے لیکن گراوتھ بڑھاوا کے باوجود جو 2013 سے ہوا لیبر کی ممبر شپ بھی کل رائے دہندگان کا صرف ایک اعشاریہ چھ فیصد ہے جبکہ 1983 میں یہ چار فیصد تھی یعنی مجموعی طور پر ماضی میں لوگوں میں سیاسی جماعتوں کی ممبرشپ لینے کا جو جذبہ ہوتا تھا وہ بوجوہ غائب ہوگیا ہے ایک تازہ پول میں معلوم ہوا ہے کہ ملک کے صرف آٹھ فیصد لوگ کسی پارٹی کے ممبر ہیں ۔ یہ بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ لیبر ایم پیز جنہوں نے پارٹی چھوڑ کر ایک نئی پارٹی تشکیل دی ہے اصل میں انہیں اپنی مقامی تنظیموں سے ڈی سلیکشن کے خوف کا سامنا تھا اسی طرح ٹوری کے بڑے سیاستدانوں ڈومینک گریو اور نک بولز کو یورپ کے مسئلہ پر اپنی کنزرویٹو ایسوسی ایشنز کی طرف سے عدم اعتماد کے ووٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سارے سیناریو سے واضح ہوتا ہے کہ برطانیہ پر قومی سیاسی سطح پر منظر بدستور دھندلا نظر آتا ہے۔ حالانکہ کئی لوکل اتھارٹیز میں مقامی حکومتوں کے انتخابات 2 مئی کو منعقد ہورہے ہیں جبکہ قومی منظر نامہ ووٹروں کے پرسیپشن perception پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ لوکل الیکشن میں شامل کئی سیاسی کارکن یہ نشاندہی کر رہے ہیں کہ اس مرتبہ رائے دہندگان کا مورال اس بریگزٹ ساگا نے بہت ڈائون کر دیا ہے۔ اس لئے کم ٹرن آؤٹ کے خدشات کے پیش نظر ہر امیدوار اپنے ووٹروں کو ووٹ لازمی ڈالنے کی ترغیب بھی دے رہا ہے۔
تازہ ترین