• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غیرملکی ترسیلات زر پر انکوائری سے استثنیٰ کا قانون ختم کرنے پر غور

اسلام آباد (انصار عباسی) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ (پی ای آر اے) 1992ء کا قانون ختم کرنے پر غور کر رہی ہے، اس قانون کے تحت پاکستان کے تمام شہریوں کو بیرون ممالک سے بینکنگ چینلز کے ذریعے غیر ملکی کرنسی میں حاصل ہونے والی رقم (جس کی مالیت چاہے کتنی بھی ہو) پر انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ یا کسی اور ادارے کی تحقیقات سے استثنیٰ حاصل ہے۔ ایک وزارتی ذریعے نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ اس معاملے پر بحث و مباحثہ جاری ہے اور امکان ہے کہ پی ای آر اے 1992ء کا قانون ختم ہو جائے گا۔ ذریعے نے کہا کہ اس بات پر غور کیا جار ہا ہے کہ اس قانون کے خاتمے کو ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے ساتھ جوڑ دیا جائے، اس اسکیم کے مستقبل قریب میں اجراء کا فیصلہ حکومت پہلے ہی کر چکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پی ای آر اے 1992ء کا قانون غیر ملکی زر مبادلہ وطن لانے کی حوصلہ افزائی کرنے کیلئے نافذ کیا گیا تھا لیکن اس قانون کے تحت حاصل استثنیٰ کو ملک کا کاروباری طبقہ واضح طور پر اپنے اس دھن کو سفید کرنے کیلئے استعمال کرتا رہا ہے جس پر انہوں نے ٹیکس نہیں دیا ہوتا۔ تاہم، پی ای آر اے 1992ء کا قانون پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ اگر یہ قانون مکمل طور پر ختم کر دیا گیا تو اس سے پاکستانیوں کو حاصل یہ اجازت بھی متاثر ہوگی کہ وہ پاکستان کے اندر اور باہر غیر ملکی کرنسی ٹرانسفر کر سکتے ہیں۔ اس قانون کے تحت غیر ملکی کرنسی اکائونٹس پر درج ذیل استثنیٰ دیا جاتا ہے: ’’ ۱) پاکستان کے تمام شہریوں، چاہے ہو ملک میں مقیم ہوں یا بیرون ملک، جن کے پاس پاکستان میں غیر ملکی کرنسی اکائونٹس ہیں، اور دیگر تمام افراد جن کے پاس ایسے اکائونٹس ہیں، کو غیر ملکی کرنسی اکائونٹس کے مالی ذرائع کے حوالے سے انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ یا کسی دوسرے ٹیکس ادارے سے استثنیٰ حاصل رہے گا۔ لیکن پاکستان میں مقیم شہریوں، اداروں، کمپنیوں اور پاکستان میں قائم، رجسٹرڈ دیگر اداروں، تنظیموں کو 16؍ دسمبر 1999ء کے بعد کھولے جانے والے غیر ملکی کرنسی اکائونٹس یا ان میں رکھی جانے والی رقوم یا اس تاریخ کے بعد ان رقوم میں کیے جانے والے اضافے پر استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا۔ ۲) غیر ملکی اکائونٹس اور ان سے ہونے والی آمدنی پر ویلتھ ٹیکس اور انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوگا اور ان میں سے زکواۃ کی لازمی کٹوتی بھی نہیں کی جائے گی لیکن پاکستان میں مقیم شہریوں، اداروں، کمپنیوں اور پاکستان میں قائم، رجسٹرڈ دیگر اداروں، تنظیموں کو 16؍ دسمبر 1999ء کے بعد کھولے جانے والے غیر ملکی کرنسی اکائونٹس یا ان میں رکھی جانے والی رقوم یا اس تاریخ کے بعد ان رقوم میں کیے جانے والے اضافے پر استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا۔ ۳) تمام بینک ایسے غیر ملکی اکائونٹس کے ذریعے ہونے والے لین دین پر رازداری برقرار رکھیں گے (ماسوائے فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکٹ 1947ء VII برائے 1947ء کے تحت یا انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء XLIX برائے 2001ء کے تحت اس کے برعکس ضرورت محسوس کی جائے)، ۴) اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور دیگر بینک غیر ملکی کرنسی اکائونٹس میں رقوم رکھنے یا نکالنے کے حوالے سے کوئی پابندی عائد نہیں کریں گے اور اگر کوئی پابندی ہے تو اسے فوری طور پر ختم کیا جائے گا لیکن شرط یہ ہے کہ ایسے اکائونٹس میں پاکستان کا کوئی بھی شہری جو پاکستان میں مقیم ہو اس وقت تک رقم شامل نہیں کرا سکے گا جب تک وہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے تحت فائلر نہ ہو۔ اس کے علاوہ، وفاقی حکومت غیر ملکی کرنسی اکائونٹس میں رقم ڈلوانے یا نکلوانے کے حوالے سے قوائد و ضوابط بنا سکتی ہے۔‘‘ اگرچہ پی ای آر اے 1992ء قانون کے خاتمے سے ملک کے کاروباری طبقے میں اتھل پتھل مچ جائے گی لیکن سابق سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود دی نیوز میں شائع ہونے والے اپنے آرٹیکل میں کہہ چکے ہیں کہ جس وقت ملک میں مالیات کو دستاویزی شکل دی جا رہی ہے اس وقت یہ ضروری ہے کہ ایک ایسی خرابی (پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ یعنی پی ای آر اے 1992ء) دور کی جائے جس نے ہمارے غیر ملکی زر مبادلہ کے نظام کو طاعون زدہ بنا رکھا ہے۔ سابق سیکریٹری خزانہ کا کہنا تھا کہ اس قانون کے تحت شہریوں کو غیر ملکی کرنسی اکائونٹس رکھنے، اس میں رقوم جمع کرانے اور نکوالنے کی سہولت حاصل ہے۔ یہ ملک سے سرمایہ باہر لیجانے اور اکثر اوقات ادائیگیوں کے توازن میں مسائل پیدا کرنے کی واضح ترکیب ہے۔ شہری منی ایکسچینج سے ڈالرز خرید سکتے ہیں اور انہیں اپنے غیر ملکی اکائونٹس میں محفوظ کر سکتے ہیں۔ (ڈالرائیزیشن کا) یہ عمل یقینی طور پر غیر ملکی زر مبادلہ کی قلت پیدا کرتا ہے بالخصوص اس وقت جب ملک کو بیرونی کھاتوں کے مسائل کا سامنا ہے، جس سے فی الوقت ہم نمٹ رہے ہیں۔ آئندہ بجٹ میں عدم استحکام کی اس ترکیب کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ قانون کا سیکشن نمبر 4؍ غیر ملکی کرنسی رکھنے، خریدنے یا فروخت کرنے کی آزادی کے متعلق ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ ۱) پاکستان کے تمام شہری، جو ملک میں یا ملک سے باہر مقیم ہیں، اور دیگر تمام ا فراد کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ کسی بھی صورت میں غیر ملکی کرنسی رکھ سکتے ہیں، لا سکتے ہیں، فروخت کر سکتے ہیں یا ٹرانسفر کر سکتے ہیں اور وہ اسے پاکستان کے اندر یا باہر لیجا سکتے ہیں۔ ۲) سیکشن نمبر ۱ میں جو کچھ بھی لکھا ہے کہ اس کا اطلاق ان پر نہیں ہوگا 1) اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکٹ 1947ء کے سیکشن 4؍ کے ذیلی سیکشن 1؍ کے تحت حاصل عمومی اجازت کے تحت بطور قرض حاصل کی جانے والی کوئی بھی غیر ملکی کرنسی، 2) پاکستان سے برآمد کی جانے والی اشیاء کی بیرون ملک سے آنے والی ادائیگی، 3) غیر ملکی شہریوں کو فروخت کی گئی اشیاء یا ضمانتوں سے حاصل ہونے والی رقم، 4) پاکستان میں رہتے ہوئے یا پاکستان سے باہر فراہم کی گئی خدمات کے عوض بیرون ملک سے حاصل ہونے والی رقم، 5) پاکستانیوں کمپنیوں اور اداروں بشمول بینکوں کے بیرون ملک قائم دفاتر اور شاخوں کو ہونے والا منافع یا آمدنی، 6) پاکستان میں کسی بھی مجاز ڈیلر (منی چینجر یا ایکسچینج کمپنی) سے کسی بھی مقصد کیلئے خریدا جانے والا زر مبادلہ، 7) سرحد پار یا ملک کے اندر رہتے ہوئے غیر ملکی کرنسی کی نقد صورت میں 10؍ ہزار ڈالرز سے زائد یا مساوی مالیت میں منتقلی جس پر سالانہ حد مقرر کی گئی ہے اور جیسا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے واضح کر رکھا ہے۔

تازہ ترین