• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدیلہ سلیم 

عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ بچے کتنے ہی ذہین کیوں نہ ہوں لیکن ان میں اعتمادکی کمی لازمی ہوتی ہے اور وہ اپنی بات کو درست طر یقے سے بیان ہی نہیںکر سکتے ۔ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتیں باہر تو نہیںآسکتیں لیکن ان میں خود اعتمادی پیدا کرنے میںا سکول کے علاوہ والدین کا بھی ہاتھ ہوتا ہے اس لیے ان کی بھر پورتوجہ بچے میں خود اعتمادی پیدا کر کے انہیں کامیاب زندگی کی سیڑھی پر قدم رکھنے میں رہنمائی کر سکتی ہے .حال ہی میں بچوں کی تربیت کے حوالے سےا یک تحقیق کی گئ ،جس میں یہ بتایا گیا ٍہے کہ بچے کے اندر خود سیکھنے کا عمل 5 سال کی عمر سے شروع ہوجاتا ہے اور اس عمل کو مضبوط بنانے میں والدین کا بہت ہی اہم کردار ہوتا ہے ۔بچے کو جب والدین پر اعتماد نظر آتا ہے تو یہی وہ وقت ہوتا ہے جب بچےوالدین سے سیکھتے ہیں ۔والدین کو چاہیے کہ یہ دیکھیں کہ ان کے بچے میں کوئی منفرد صلاحیت موجود ہے تو اس کی کمیو نیکشن کے انداز کو مدنظر رکھتے ہوئےمحتاط انداز سے الفاظ اور انداز کا انتخاب کرتے ہوئے بچے میں اعتماد پیدا کر سکتے ہیں ۔بچوں کی خود داری اور اعتماد کو بڑھانے میں والدین کی حوصلہ افزائی کلیدی حیثیت رکھتی ہے ،تاہم حد سے زیادہ تعریف یا پھر بالکل ہی تعریف نہ کرنا بچوں میں غیر ضروری توقعات، عدم تحفظ اور خوش پسندی پیدا کردیتی ہے ۔

جب بچہ آپ کی ہدایت پر عمل نہ کرے تو آپ خود اس صورت حال میں رہنے کی کوشش کریں اور بچے کو تعاون کا موقع دیں اور اگر بچہ پھر بھی آپ کی بات نہ سننے تو ذرا سا دور ہٹ جائیں ۔ہدایت دینے کی بجائے سوالیہ انداز میںبات کریں ۔اکثر والدین کو یہ کہتے سنا ہے کہ زیادہ تعریف اور انعام سے بگڑ بھی جاتے ہیں۔بچوں کی حوصلہ افزائی کیے بغیر ان سےاچھے رویے کی توقع کرنا غیر حقیقی ہے ۔چوں کہ بچے اپنے اردگرد کےلوگوں کا رویہ اپناتے ہیں ۔آپ بچے کے سامنےجو کچھ کہتے ہیں اور کرتے ہیں اس سے اس کا انداز اور رویہ متاثر ہوتا ہے ،آپ اس کے لیے ایک رول ماڈل بن جاتے ہیں ۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو بچے منفی رویہ رکھتے ہیں انہیں بدلنے کے لیے تعریف اور حوصلہ افزائی بہت اہم ہے ۔ بچوں میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے انہیں حدود اور پابندیوں کی ضرورت ہوتی ہے ؛ اسی سے انہیں اچھے برے کا پتہ چلتا ہے ۔والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کا صرف مثبت پہلوہی نہ دکھائیں بلکہ اسے منفی تجربات سے لڑنا بھی سکھائیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب بچے کسی مشکل کا سامنہ کریں تو انہیں سکھائیں کہ اس مشکل کا سامنا کرتے ہوئے آگے کی طرف کیسے بڑھنا ہے ۔ یہاں تک کہ بچوں کے لیے کام کو آسان کردیں، جس سے بچہ ناکامی سے کامیابی کی جانب مڑنے کا عمل نہیں سیکھ پاتا، اس لیے بچے سے غلطی ہونے دیں اور اس سے اسے سیکھنے کا موقع بھی دیں بلکہ اپنی غلطیوں کوبچوں کے ساتھ شیئر کریں۔اگر آپ کا بچہ غلط رویہ اختیار کرتا ہے تو اسے بتائیں کہ تم غلط نہیں ہو بلکہ تمہارا رویہ اچھا نہیں ہے۔

بعض مائیں دو ڈیڑھ سال کے بچے کو اس طرح ڈانٹ رہی ہوتی ہیں کہ جیسے وہ چھ سات سال کا ہے ۔ اس طرز عمل سے بچہ منفی اثرات اپناتا ہے اور زندگی کی خوبصورتیوں کو بھی غلط انداز میں ہی سوچتا ہے ۔ اکثر بچے کسی نہ کسی چیز سے خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔مثلاً بارش،تیز ہوا،بجلی کی گھن گرج، مختلف جانوروں سے انھیں خوف آتا ہے اور رات کو سوتے میں بھی اگر اس قسم کا کوئی خواب دیکھ لیں تو ڈرنے لگتے ہیں۔ بچوں میں یہ ڈر ماحول میں موجود اشیاء سے متعلق ہوتا ہے ۔ بچوں میں اس خوف کی شدت کو کم کرنے یا ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں اعتماد میں لیں۔سونے سے پہلے بچے کو ایسی کہانیاں سنائیں ،جس سے بچے میں خوف کی شدت کم ہوجائے اور ان کی سوچ میں حقیقت پسندی شامل ہو۔ والدین، اساتذہ بچوں کو ڈراتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ اس طرح بچہ عدم تحفظ کا شکار ہوسکتا ہے اور اس طرح وہ ان میں خوف کی کیفیت پیدا کرکے ان کی صلاحیتوں کو دبارہے ہیں۔ بچے کو کسی حرکت سے منع کرنے کے لیے ڈرانا نہایت ہی غلط بات ہے ۔ اس کے لیے ضروری ہے اسے مناسب الفاظ میں سمجھائیں۔اس سے محبت کریں۔ اسے اعتماد میں لیں۔ آپ دیکھیں گی کہ وہ بھی آپ سے محبت کرے گا اور آپ کی کہی ہوئی بات اس پر اثر کرے گی۔والدین کا فرض ہے کہ وہ بچے کی ذہنی تربیت مثبت انداز سے کریں۔ اس کی کامیابیوں پر خوشی کا اظہار کریں۔ اس کی حوصلہ افزائی کریں اور اگرناکامی کاسامنا کرنا پڑے تو اسے دل برداشتہ نہ کریں ۔والدین کے گھریلو جھگڑے بھی بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔والدین کے درمیان تنائو انہیں ڈپریشن میں مبتلا کر دیتا ہے ۔اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کے سامنےلڑائی جھگڑوں سے اجتناب کریں والدین اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ ذہین دیکھنے کے خواہاں ہوتے ہیں، تاکہ بچے حصول علم کے میدان میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے والدین خصوصا ًماؤں کی جانب سے مختلف طریقے بھی اختیار کیے جاتے ہیں۔ دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ بہت سے بچے کم سنی میں تنہائی، لا پرواہی جیسی عادات کے ساتھ بول چال میں نہایت کمزور واقع ہوتے ہیں، مگران کے بعض جسمانی اور نفسیاتی عوارض کو دور کردیا جائے تو وہ بچے کامیاب سائنسدان،علماء، موسیقار ، موجد اور فن کار بن کر ابھرسکتے ہیں۔ بچے کی ذہانت سے زیادہ اس پرکام کا بوجھ نہ ڈالیں ۔ ایسا نہ ہو کہ کام کے بوجھ تلے دب کر بچہ ناکام اور مایوس ہوجائے ۔ بچے کی محدود صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں ہمہ وقت اس کی مدد جاری رکھیں اوردوسرے بچوں کے سامنے اپنے بچے کی برائی کرنے سے گریز کریں۔

تازہ ترین