• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فریئر ہال بحالی کے سفر پر
شان دار عمارت کے دو مناظر

 عکاسی: اسرائیل انصاری

یہ چوبیس اکتوبر 2009کی بات ہے۔اس روز سابق کے ای ایس سی اور ہیری ٹیج فاونڈیشن کے درمیان ایک مفاہمتی یادداشت پر دست خط ہوئے تھے۔ اس ایم او یو کا مقصد ڈینسو حال کی بحالی کے لیے مل کر کام کرنا تھا اور اس کام کے لیے اس وقت کی شہری حکومت کوتمام ضروری سہولتیں فراہم کرنا تھا۔چناں چہ بحالی کا یہ کام کام یابی سے ہوا۔یہ عمارت بھی دیگر قدیم عمارتوں کی طرح کراچی کا ممتاز ثقافتی ورثہ ہے۔تاہم حکومتِ سندھ نے اسے 2010میں ثقافتی ورثےکی فہرست میں شامل کیا تھا۔یہ عمارت چوں کہ بلدیہ عظمی کراچی کی ملکیت میں تھی ، لہذاوہ اس کی بہتری کے بارے میں فیصلہ کرنےکی قانونامجاز تھی۔لہذا ایسا ہی ہوا اور کسی نے اس ضمن میں کوئی اعتراض نہیں کیا،بلکہ اس فیصلے کو شہریوں کی بڑی تعداد نے سراہا تھا۔کیوں کہ اس طرح شہر کی ایک خوب صورت تاریخی عمارت مکمل طور پر تباہ ہونے سے بچ گئی تھی ۔

اسی نوعیت کی ایک کوشش ان دنوں فریئر ہال کو اس کے ماضی کی شان و شوکت لوٹانے کے لیے کی جارہی ہے۔اس عمارت اور اس کے باغ کی بحالی کے کام کے باقاعدہ آغاز کے ضمن میں ہفتہ تیرہ اپریل کو فریئر ہال میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میئرکراچی وسیم اخترکا کہنا تھا کہ بہت جلد کراچی کے عوام فریئر ہال کو بھی خوب صورت پارک کی صورت میں دیکھیں گے جس پر فوری طور پر کام شروع کردیا گیا ہے ۔کراچی کے مخیر حضرات نے اس کی تعمیرنو اور تزئین و آرائش میں دل چسپی ظاہر کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مخیر حضرات نے ایمپریس مارکیٹ پارک اور نہر خیّام کی تعمیر میں بھی دل چسپی لی ہے۔فریئر ہال کو پہلی مرتبہ کراچی کے عوام نے اون کیا ہے۔گارجین بورڈ کے زیراہتمام منعقدہ تقریب کے موقعےپرذرایع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئےان کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے میئر کی حیثیت سے چارج سنبھالا تو محکموں کی طرح کراچی کے آئیکون پارکوں کا بھی برا حال تھا۔فریئر ہال ،باغ ابن قاسم سے بھی بری حالت میں تھا۔بلدیہ عظمیٰ کراچی کے پاس وسائل نہیں تھے، اس لیےاس پارک کی بحالی کے لیے شہر کے مخیر حضرات سے مدد حاصل کرنا پڑی۔ اس مقصد کے لیے شہر کی نام ور شخصیات پر مشتمل گارجین بورڈ قائم کیا گیا جس میں میئر کراچی، میٹروپولیٹن کمشنر، متعلقہ محکموں کے افسران کے علاوہ معروف صحافی، صنعت کار، آرکی ٹٹکچر، انجینئر اور دیگر افراد کو شامل کیا گیا۔اس بورڈ کے قیام کی منظوری کے ایم سی کونسل سے حاصل کی گئی۔ اس پارک کی بحالی پر کے ایم سی کے وسائل خرچ نہیں ہوں گے بلکہ یہ بورڈ اس پر خرچ ہونے والے وسائل کا انتظام کرے گا۔

ایک جانب اس کام کا آغاز ہوچکا ہے اور دوسری جانب اس کام کے آغاز سے قبل حکومت سندھ کے ایم سی کا یہ اقدام قانون کے خلاف قرار دے چکی ہے اور محکمہ ثقافت کا موقف ہے کہ بحالی کے کام کے لیے کے ایم سی کو حکومت سند کی ہیری ٹیج کمیٹی سے اجازت لینا ضروری ہے،بہ صورت دیگر یہ غیر قانونی ہوگا۔یوں اس منصوبے کی راہ میں ابتداہی سے رکاوٹیں کھڑی ہونے لگی ہیں۔چناں چہ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ بیوروکریسی اور بعض بااثر شخصیات اس منصوبے سے خوش نہیں ہیں اور وہ اس کی راہ میں روڑے اٹکاسکتی ہیں۔اس طرح یہ سفر مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔

فریئر ہال کی بحالی کا خواب کوئی نیا نہیں ہے۔ آٹھ جولائی 2013کواس وقت کے صوبے کے گورنر عشرت العبادنےفریئر ہال اور صادقین آرٹ گیلری کا دورہکیا تھا۔اس موقعے پر ان کا کہنا تھا کہ کراچی کی تاریخی عمارات اصل صورت میں بحال کی جائیں۔فریئر ہال کی تزئین و آرائش اور صادقین کے فن پاروں کو محفوظ کیا جارہا ہے۔اس موقعے پر انہوں نے فرئیر ہال اور اطراف کے لیے ماسٹر پلان بنانے کی ہدایت بھی کی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ کراچی کی تاریخی عمارات کو تزئین و آرائش کے ذریعے اصلی حالت میں بحال کیا جائے تاکہ کراچی کا تاریخی ورثہ نئی نسل کو منتقل کیا جاسکے۔ فریئر ہال کو اصلی صورت میں بحال کرنے اور عظیم خطاط صادقین کے فن پاروں کو محفوظ بنانے کے اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔ اس موقعےپر ایڈمنسٹریٹر، کراچی ہاشم رضا زیدی، حمید ہارون، اے پی این ایس کے صدر سرمد علی، سیکریٹری مسعود حامد، یاسمین لاری، دریہ قاضی، ڈائریکٹر جنرل ورکس اینڈ سروسز نیاز سومرو،ڈائریکٹر پارکس عبداﷲ مشتاق اور ہیری ٹیج فاؤنڈیشن کے اراکین اور دیگر افسران بھی موجود تھے۔ گورنر نے ہدایت کی تھی کہ فریئر ہال اور اس کے اطراف کے علاقے کا ماسٹر پلان تیار کیا جائے تاکہ اس تاریخی اور قدیم علاقے کی بحالی کا کام کیا جاسکے ۔ فریئر ہال جیسی عجوبہ روزگار عمارت کراچی کے شان دار ماضی کو ظاہر کرتی ہے۔ تاریخی عمارات کی حفاظت اور تزئین و آرائش کا کام جاری رکھا جائے گا ۔

لیکن وہ کوشش پوری طرح کام یاب نہیں ہوسکی تھی اور اس عمارت اور باغ کی حالت روز بہ روزخستہ ہوتی جارہی تھی۔چناں چہ موجودہ میئر نے فریئر ہال کی تزئین و آرائش کا فیصلہ کیااور گزشتہ برس گارڈین بورڈ قائم کرکے اس یہ کام سونپا گیا۔اس ضمن میں گزشتہ برس چھبیس دسمبر کو کمشنر کراچی کے دفتر میں میئر کراچی وسیم اختر کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میںبحالی کے کام کا جائزہ لیا گیا ۔ گارڈین کمیٹی برائے فریئر ہال نے اجلاس کو فرئیر ہال کی بحالی کے کام کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی۔ اجلاس میں میونسپل کمشنر ڈاکٹر سیف الرحمان، ڈی جی پارکس آفاق مرزا، کمیٹی کے ارکان شاہد فیروز ، شاہد عبد اللہ ، طارق ہدی، دریہ قاضی، ماروی مظہر، کومل پرویز،یاور عباس اور محمدعاصم موجو د تھے۔اس موقعے پر شاہد فیروز نے بتایا کہ گارڈین کمیٹی برائے فرئیر ہال نے بحالی کا منصوبہ معہ ڈیزائن تیار کر لیا ہے۔ اجلاس کو منصوبے کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیاتھا ۔یادرہے کہ بلدیہ عظمی کراچی کا فرئیر ہال میں متعین عملہ گارڈین کمیٹی کی نگرانی میں کام کر رہا ہےاور بلدیہ عظمی نے فرئیر ہال کے انتظامی امور کی نگرانی 30 نومبر کوایک معاہدے کے تحت گارڈین کمیٹی کے حوالے کردی تھی۔منصوبےکے مطابق لائبریری کی بحالی کا کام شاہد عبد اللہ کریں گے۔ شاہد عبداللہ نے اس موقعےپربتایاتھاکہ فرئیرہال کی لائبریری کو خصوصی توجہ درکار ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس عظیم تاریخی عمارت کی لائبریری کو اس کی اصل حا لت میں لانادشوار اور وقت طلب کام ہے۔اس سلسلے میں گارڈین کمیٹی متوقع ڈونرز کی مدد سے فنڈ کے حصول کوششیں کر رہی ہے ۔ کمشنر کا کہنا تھاکہ فرئیر ہال کی لائبریری کی بحالی کےلیے خصوصی کوشش کی ضرور ت ہے ۔ کتابوں کو محفوظ کر نے کےلیےضروری تقاضے پورے کیے جائیں۔

پھر رواں برس گیارہ فروری کو فریئر ہال گارجین بورڈ کا اجلاس میئر کراچی وسیم اختر اور کمشنر کراچی افتخار علی شالوانی کی زیرصدارت بلدیہ عظمیٰ کے صدر دفتر کے کمیٹی روم میں منعقد ہواتھا جس میں فریئر ہال کی تزئین و آرائش اور ترقیاتی پلان پر غور کیا گیاتھا۔اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھاکہ عمارت کو مسلمہ اصولوں کے مطابق بحال اورپارک کو تاریخی حیثیت متاثرکیے بغیر خوب صورت بنایا جائے گا اورصادقین گیلری میں پینٹنگ کی نمائش جاری رکھی جائے گی۔فریئر ہال کی تاریخی عمارت کو ہر قسم کے مسلمہ اصولوں کے مطابق ہی بحال کیا جائے گا۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیاتھا کہ فریئر ہال میں قائم لیاقت لائبریری کو جدید لائبریری میں تبدیل کیا جائے گا تاکہ شہری اس سے بہتر انداز میںاستفادہ کرسکیں۔پارکنگ ایریا کو پارک کے ایک کنارے پر منتقل کیا جائے گا۔ گارڈین بورڈ کے نمائندے نے اس موقع پر ملٹی میڈیا کی مدد سے تزئین و آرائش کے مجوزہ پلان کی پریزنٹیشن دی تھی۔ یاد رہے کہ قیام پاکستان کے بعد اس عمارت کو قومی ورثہ قرار دے کر عمارت کے نچلے حصے میں لیاقت لائبریری بنائی گئی تھی اور عمارت کی اوپری منزل کوممتاز مصور صادقین کی آرٹ گیلری کے نام سے منسوب کردیا گیا تھا۔

فریئر ہال بحالی کے سفر پر
تقریب کے دو مناظر

لیکن اس کوشش کے ابتدائی مراحل ہی سے رکاوٹیں کھڑی کی جانے لگی تھیں۔چناں چہ گزشتہ برس چھ اپریل کو میئر کراچی نے اس جانب اشارہ کیا تھا۔ فریئرہال میں گارڈین بورڈ کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پردست خط کرنے کی تقریب سے خطاب اور صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے میئر کا کہنا تھا کہ فریئرہال گارجین بورڈ کے حوالےکرکے کوئی غیرقانونی کام نہیں کررہے۔ فریئرہال کی بہتری اور ترقی کے لیے اسے گارڈین بورڈ کے حوالے کررہے ہیں کوئی غیرقانونی کام نہیں کیا۔

صوبائی حکومت افراتفری میں خط لکھ رہی ہے۔ میئر کا مزید کہنا تھاکہ فریئرہال کی بہتری کے لیے ان لوگوں پر مشتمل بورڈ تشکیل دیا جو اس شہر کو بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن افسوس اگر کوئی اچھا کام کرنے نکلے توذمے دار لوگوں کی جانب سے بیانات آنا شرو ع ہوجاتے ہیں۔ ہم خدانخواستہ فریئرہال کسی چینی کمپنی کے حوالے نہیں کررہے ۔ورنہ ہماری حکومتیں چین کو پیسے بھی دے رہی ہیں اور کام آؤٹ سورس کررہی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ وفاقی ، صوبائی اور بلدیہ کے محکمے کراچی کی زمینوں کو بیچنے اور ان پرتجاوزات قائم کرانے میںمیں ملوث رہے ہیں۔ نالوں پر عمارتیں بنائی جارہی ہیں،اگر خود اچھا کام نہیں کررہے تو ہمیں توکرنے دیں ۔میئرکا کہنا تھاکہ فریئرہال کی عمارت ، پارک، لائبریری، گیلری میں کوئی تبدیلی نہیں کی جارہی، صرف اسے بہتر کیا جائے گا۔ ہم نے صرف ایم او یو پر دست خط کیے ہیں۔ صوبائی حکومت سمیت متعلقہ اداروں کے تمام قوانین کو مدنظررکھا ہے۔ سٹی کونسل سے منظوری کے بعد مزید کارروائی کے لیے اسےحکومت سندھ کو بھیجا جائے گا جس کے بعد بورڈ اپنا کام شروع کرے گا جو فریئرہال کو بہتر بناکر اس کی خوب صورتی برقرار رکھے گا۔ میئرنے کہاکہ ماضی میں یہاں سے قیمتی نودارات کو چوری کیا گیا۔گارڈین بورڈ کے رکن شاہد فیروزکا اس موقعے پر کہنا تھاکہ فریئرہال کی کوئی کمرشلائزیشن نہیں ہوگی ۔

جمیل یوسف کا موقف تھاکہ ایک ڈیڑھ سال بعد فریئرہال دیکھ کرعوام کوخوشی ہوگی۔ معاہدے پر بلدیہ عظمیٰ کراچی کی جانب سے میئر کراچی وسیم اختر اور گارڈین بورڈ کے چیئرمین شاہد فیروز نے دست خط کیے تھے۔یاد رہے کہ میئر کراچی اس بورڈ کے پیٹرن ان چیف اورچیئرمین شاہد فیروز ہیں۔اراکین میںامین ہاشوانی، ارشد طیب علی، آصف فینسی ، دُریہ قاضی،غازی صلاح الدین، جمیل یوسف، کومل پرویز، محمد سلیم خان، پرویز سعید، محمد طارق ہدیٰ، شاہد عبداللہ، یاور عباس جیلانی، میونسپل کمشنر بلدیہ عظمیٰ کراچی، کے ایم سی کونسل کی کلچر اور پارکس اینڈ ہارٹی کلچر کی کمیٹیز کے چیئرمین، ڈائریکٹر جنرل پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اور ڈائریکٹر کلچر بلدیہ عظمیٰ کراچی شامل ہیں۔ میئر کراچی وسیم اختر کا کہنا تھا کہ یہ کوئی این جی او نہیں ہے اور نہ ہی فریئر ہال کسی کے حوالے کیا جا رہا ہے۔میں ان نام ور لوگوں کے پاس خود گیا تھا اور ان سے درخواست کی تھی کہ وہ میرا ساتھ دیں۔ گارڈین بورڈ فریئر ہال، صادقین گیلری، لیاقت ہال لائبریری، گارڈن سمیت پروجیکٹ ایریا کی حفاظت و نگہداشت کے لیےخدمات فراہم کرےگا اور اس کی حالت کو سدھارنے کے لیےمالی وسائل کی فراہمی کے ساتھ اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے، خوب صورت،جدید ترین اورپر کشش بنائے گا جہاں شہریوں کو پرسکون ماحول میں تفریح طبع کے مواقع میسر آئیں گے۔

گارڈین بورڈ کی یہ ذمے داری بھی ہوگی کہ وہ اس تاریخی ورثے اوریہاں موجود آرٹ ورک کی حفاظت کے ساتھ ثقافتی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے مثبت کردار ادا کرے گاجس پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔یہ بورڈ اس بات کو بھی یقینی بنائے گا کہ یہاں سے ہونے والی آمدن اسی پروجیکٹ ایریا کی بہتری پر خرچ کی جائے جس کا چارٹرڈاکاونٹنٹ کمپنی سے باقاعدہ سالانہ آڈٹ کرایا جائے گا اور مالیاتی رپورٹ مشتہر کی جائے گی۔ اس موقع پر بتایا گیاتھا کہ پروجیکٹ ایریا فریئر ہال کی عمارت ،بشمول صادقین آرٹ گیلری اور لیاقت ہال لائبریری کے علاوہ باغ جناح گارڈن پر مشتمل ہوگا اور معاہدے کے تحت گارڈین بورڈ سندھ کلچرل ہیری ٹیج پراپرٹی رولز 2017ء کی پاس داری کرے گا اور سندھ کلچرل ہیری ٹیج ایکٹ 1994ء میں درج شرط نمبر 8(1) کے تحت ہیری ٹیج پراپرٹی میں مجاز اتھارٹی کی منظوری کے بغیر کوئی تبدیلی نہیں ہوسکے گی۔یہ معاہدہ ابتدائی طور پر پانچ سال کے لئے ہے، تاہم اس کی میعاد ختم ہونے سے پہلے باہمی رضا مندی سے مزید پانچ سال کی توسیع ہوسکے گی۔یہ بورڈ بلدیہ عظمیٰ کراچی یا حکومت سندھ سے کوئی معاوضہ لینے کا حق دار نہیں ہوگا۔ تاہم فریئر ہال میں تعینات بلدیہ عظمیٰ کراچی کا عملہ بہ دستور گارڈین بورڈ کے تحت کام کرتا رہے گا۔معاہدے کی کسی بھی شق کی خلاف ورزی پر بلدیہ عظمیٰ کراچی 30 یوم کا تحریری نوٹس دے کر معاہدہ ختم کرنے کی مجاز ہوگی۔

فریئر ہال کی تاریخ​ پر ایک نظر

انگریزوں نے کراچی کو بہت کچھ دیا،بالخصوص بہت سے تعمیراتی شاہ کار۔چناں چہ جب دل کرے کوئی خاص نو آبادیاتی، برطانوی طرز تعمیر کا نظارہ دیکھنے کا ،تو قدم خودبہ خود عبداللہ ہارون روڈ (سابق وکٹوریہ روڈ) اور فاطمہ جناح روڈ (سابق بونس روڈ) کے درمیان واقع اس خوب صورت عمارت کی جانب بڑھتے ہیں، جسے ’’فریئر ہال‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے ۔اس عمارت میں داخلے کے بعد یوں محسوس ہوتاہے جیسے تاریخ کے اوراق الٹ رہے ہوں اورہم متحدہ ہندوستان میں واپس آگئے ہوں ۔اس احساس کی وجہ عمارت کا طرز تعمیر ہے، جسے برطانوی اور برصغیر کے مقامی طرز تعمیر کا مجموعہ قرار دیا جاتا ہے۔

فریئر ہال کراچی کی قدیم عمارتوں میں سے ایک ہے۔ 1863میں انگریزی دور حکومت میں ٹاؤن ہال کی حیثیت سے اس کی تعمیر کا آغاز ہوا اور دو سال کے عرصے میں اسے مکمل کیا گیا۔1863ء میںچیف کمشنر سندھ، سرہینری بار ٹل ایڈورڈ فریئر، کے آں جہانی ہونے کے بعد سندھ میں ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر کراچی ٹاؤن ہال کوان سے منسوب کرکےاس کا نام’’فریئر ہال‘‘رکھ دیا گیا۔ اس عمارت سے متعلق تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ فریئر ہال کی تعمیر کے لیے زمین 2ہزار برٹش انڈین روپے میں خریدی گئی تھی۔یہ رقم ڈبلیو پی اینڈریواور سر فیڈرک آرتھر نے عطیے کے طور پر دی تھی۔

برطانوی اور برصغیر کے مقامی طرز تعمیر کے خوب صورت شاہ کار فریئر ہال کی ڈیزائننگ کے لیے 12آرکی ٹیکچر کا انتخاب کیا گیا، جن میں سے ہینری سینٹ کلیئر ولکنس (Henry Saint Clair Wilkins) کا ڈیزائن منتخب کیا گیا۔ تعمیرپر ایک لاکھ 80ہزار روپے لاگت آئی، جس میں سے 10ہزار حکومت نےدیے اور باقی بلدیہ کراچی نے اداکیے تھے۔اس عمارت کاطرز تعمیرونسیٹ گوتھک اور سرکونک اسٹائل کا ہے۔ہال کی عمارت کی اونچائی 144فٹ ہے، جس کی تعمیر میں زرد پتھر سمیت بھورے اور سرخ رنگ کے پتھروں کا استعمال کیا گیا ہے۔ان پتھروں کاانتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ ان پر رنگ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ پانی چھڑکنے ہی سےیہ پتھر نئے نظر آنے لگتے ہیں۔

مرکزی گیٹ سے اندر داخل ہونے پر عمارت کے ساتھ ہی کتھئی رنگ کا خوب صورت مینارنظر آتا ہےجو تقریباً7فیٹ اونچا ہے۔ یہ مینار بلوچ انفینٹری سے تعلق رکھنے والے ان جاںبازوں کی یاد میں بنایا گیا تھاجنہوں نے پہلی جنگ عظیم میں انگریز ی سرکار کی سلامتی کے لیے اپنی جانیں پیش کی تھیں۔

فریئر ہال کو 1947ء کے بعد قومی ورثہ قرار دیا گیا اور اس عمارت کے گراؤنڈ فلور پر ایک لائبریری بنائی گئی، جسے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کی خدمات کے اعتراف میں ان کےنام سے منسوب کیا گیا۔بتایا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں اس لائبریری میں ستّر ہزار سے زاید کتب موجود تھیں ۔

​عمارت کی اوپری منزل کو 1990میںپاکستان کے مشہور اور نامی گرامی مصور صادقین کی آرٹ گیلری کے نام سے منسوب کردیا گیا تھا، جہاں اُن کی مصوری کے نمونے قدردانوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں ۔ فریئر ہال کی ایک اورخاصیت بالائی منزل کی چھت ہے، جوصادقین کے فن پاروں سے مزین ہے۔

​ماضی میں فریئر ہال ایک یادگار عمارت ہی نہیں بلکہ ایک عوامی تفریح گاہ بھی تھی، جس کا خوب صورت باغ اور پھولوں کی دل کش کیاریاں بھلائی نہیں جاسکتیں۔ماضی میں اس ہال کے پاس ’’کوئین لان‘‘اور’’کنگ لان‘‘ کے نام سے دو سبزہ زارتھے۔ جنہیں قیام پاکستان کے بعد "جناح گارڈن" میں تبدیل کر دیا گیا۔

تازہ ترین