• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد عارف میمن

قبل مسیح کے یونانی سیاح اسکائی لیکس ہندوستان کے حالات دیکھنے کی غرض سے گسری بندر سے سندھ پہنچا ،جس نے پہلی ہی نظر میں مجھے پسند کیا اور میری تعریف میں قصیدے لکھ دیئے، پھر 326 قبل مسیح میں سکندرِاعظم اپنے لشکر سمیت مجھ پر وارد ہوا۔ مجھے یاد ہے جب سکندر کے ایک جرنیل نیارکس نے میرا امن، سبزہ اور خوش حالی دیکھی تو کہا ،’’یہ میرے آقا سکندر کی جنت ہے‘‘۔ مجھ پر قبضہ کرنے کے بعد میں نے کئی یونانیوں کو اپنے سینے میں پناہ دی۔ یونانیوں سے قبل مجھ پر فارس والوں کا بھی ہاتھ رہا۔

برہمن دور میں میرے آس پاس کئی زرعی گاؤں دیہات آباد تھے، جہاں مندروں سے ہر وقت گھنٹیوں کی آوازیں گونجا کرتی تھیں۔ یہ سلسلہ کئی صدیوں تک چلا، پھر 711ء میں عربوں نے مجھے اپنے قبضے میں لے لیا اور اس کے بعد ایک اور نئی تہذیب کی شروعات ہوئی ،جہاں ہر وقت اللہ اکبر کی صداؤں سے میں ہر وقت خوش رہنے لگا۔ 1723ء میں سیٹھ بوجومل نامی ایک کاروباری شخص گھومتا گھامتا مجھ تک آن پہنچا۔ میری خوش حالی اور امن پسندی کو دیکھ کر اس نے مجھے اور میں نے اسے اپنا لیا۔ اس شخص نے یہاں کاروبار شروع کیا، میری موجودہ ترقی کی اصل وجہ یہ ہی شخص تھا۔کبھی میں (کراچی) چھوٹے چھوٹے گاؤں دیہات میں بٹا ہوا تھا لیکن آج میگا سٹی بن چکا ہوں۔ میرا شمار دنیا کے سات بڑے شہروں میں ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود آج میں بہت دکھی ہوں۔ سوچتا ہوں وہ دور بہت اچھا تھا جب میں ٹکڑوں ٹکڑوں میں بٹا ہوا تھا، لیکن آج میرے لوگ بٹے ہوئے ہیں۔ مجھے اپنانے اور ترقی دینے کے نام پر آگ اور خون میں نہلایا گیا، میرے اپنوں نے ہی مجھے برباد کرنے کی ٹھان لی ہے۔یہاں آج ہر طرف نفرت، افراتفری، لسانی گروہ بندی، قتل وغارت گری کا راج ہے۔ اتنا درد اور اتنی تکلیف تو مجھے اس وقت بھی نہیں ہوئی تھی جب ارغون، مغل اور ترخانوں نے مجھے اپنے گھوڑوں کے پاؤں تلے روندا تھا۔ میری تہذیب، میرا امن اور خوش حالی کو نیست ونابود کیا تھا۔

مجھے پاکستان کا ’’معاشی مرکز‘‘ کہنے والے آج میرے دعویدار تو ہیں، مگر میرے حقوق اور فرائض کی جب بات آتی ہے تو سب پیچھے ہو جاتے ہیں۔ ۔ سبزہ اور ندیاں کبھی میرا ُحُسن اور پہچان ہوا کرتے تھے، آج وہ سب ختم کر دیئے گئے۔ میرے قیمتی اثاثے ’سمندر ‘ کوغلاظت سے بھرا جا رہا ہے۔ مجھ سے کمانے والے ہی مجھے گندا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

آج میں سیاسی جماعتوں کےلیے صرف ایک ووٹ بینک کی حیثیت اختیار کر گیا ہوں۔ یہاں ہر شہر اور ہر گاؤں کے لوگ بستے ہیں، میں ان کےلیے روزی روٹی کا ذریعہ ہوں، مگر پھربھی یہ لوگ میری قدر نہیں کرتے۔ میں نے قائداعظمؒ کا خواب دیکھا تھا لیکن آج جس مقام پر میں کھڑا ہوں وہ اس کی تعبیر نہیں۔ آج مجھ پر ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ غیرقانونی تعمیرات، چائنا کٹنگ اور بلڈر مافیا نے میرا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ 1843ء میں جب انگریزوں نے مجھ پر قبضہ کیا تھا تو مجھے بہت زیادہ تکلیف ہوئی تھی،

سوچا تھا اب یہ لوگ ترقی کے نام پر مجھ پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑیں گے، لیکن یہ دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی کہ انگریزوں نے مجھے اپنا سمجھ کر انتہائی خوبصورت عمارتیں، سڑکیں، نالے اور ریلوے اسٹیشن بنا کر میرے حسن کو چار چاند لگا دیئے۔ میرے لوگوں کو بہتر زندگی گزارنے کےلیے ایک بھرپور نظام فراہم کیا، پھر جب تقسیم کا وقت آیا اور انگریز مجھے چھوڑ کر جانے لگے تو میں اور بھی خوش ہو گیا کہ اب میرے اپنے مجھے سنبھال لیں گے، اب وہ اس قابل ہو گئے ہیں کہ مجھے خوب صورت ترین بنا دیں گے۔90ء کی دہائی تک مجھ میں پھر بھی جینے کی کچھ امنگ باقی تھی، مگر اب میری جینے کی امنگ ختم ہو چکی ہے، اب مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون کیا کر رہا ہے اور کون کیا نہیں کر رہا۔ کوئی مجھ پر پان، گٹکا کھا کر تھوکتا ہے تو کوئی جہاں دل چاہے کچرا پھینک دیتا ہے؛ گندگی اور غلاظت سے میرا وجود مٹ چکا ہے۔ دنیا جہاں کی برائیاں لا کر مجھ میں سمو دی گئی ہیں۔ آج مجھ پر حکمرانی کا حق جتانے والے تو بہت ہیں ،مگر مجھے پھر سے زندگی کی امید دینے والا کوئی نہیں۔ ہر کوئی اپنے اپنے مفادات کے چکر میں گم ہے۔ میرا اب کسی کو خیال نہیں۔ میرا ایک سوال ہے، ان سب سے جو مجھ پر بسیرا کرتے ہیں آخر میرا قصور کیا تھا جو مجھے اس حال تک پہنچایا گیا؟

میں نے تو سب کا بھلا چاہا، پھر کیوں میرے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا اور مجھے دنیا بھر میں بدنام کیا گیا ؟ میں آج بھی زندہ رہنا چاہتا ہوں، مجھے زندگی چاہیے۔ آج میں اپنا حق مانگتا ہوں، مجھے میرا حق چاہیے۔ یاد رکھو! میں ہی تمہارا کل ہوں اور میں ہی تمہاری نسلوں کا محافظ بھی۔ اگر میں نہ رہا تو پھر کچھ باقی نہیں رہے گا۔ اب بھی وقت ہے مجھے سنبھال لو، مجھے میرا حق دے دو، کیونکہ میں کراچی ہوں، اگر تم نے مجھے سنبھالنے میں دیر کی تو پھر تمہارے پاس پشیمانی کے سوا کچھ باقی نہیں رہے گا۔

تازہ ترین