• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:علی جیلانی…سوئٹزرلینڈ
دنیا ایک اسٹیج ہے، زندگی ایک ڈرامہ ہے اور انسان ایکٹرز ہیں جو اپنا اپنا رول ادا کرتے ہیں اور پھر ڈرامہ ختم ہوجاتا ہے، یہ وہ الفاظ ہیں جو مشہور ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر نے لکھے، پس یہ ہی انسان کی زندگی ہے، انسان پیدا ہوتا ہے، کوئی بادشاہ بن جاتا ہے، کوئی فقیر، کوئی امیر یا غریب، کوئی ڈاکٹر بن جاتا ہے، کوئی انجینئر، کوئی پولیس افسر یا کوئی ملزم، کوئی استاد یا وائس چانسلر، کوئی عالم دین، کوئی حافظ قرآن، کوئی نبی یا اولیا اللہ، کوئی باپ یا ماں، بہن یا بھائی غرض جو کردار اس کو اس زمانے میں میسر ہوسکا وہ یہ انسان ادا کرتا ہے، لیکن کیا انسان قرآن کے یہ الفاظ یاد رکھتا ہے کہ ’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ یعنی ہر نفس نے موت کا مزا چکھنا ہے، لیکن اگر ہم اردگرد نظر دوڑائیں تو یقین کرنا پڑے گا کہ انسان قرآن کے یہ الفاظ بھول گیا ہے اور وہ دنیا کی آسائشوں میں اتنا گم ہوگیا ہے کہ اسے یاد ہی نہیں کہ ہمیں مرنا ہے۔ لوٹ کھسوٹ عام ہے، وہ کیا عام آدمی ہو یا حکمران، مولوی ہو یا تاجر ہر محکمے میں کرپشن جس کا جہاں دائو لگتا ہے وہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ کوئی شراب پینے میں مست ہے، کوئی زنا کاریوں میں مبتلا ہے، کوئی سود کھانے میں لگا ہوا ہے، کوئی اپنی اولادوں کو حرام کی کمائی کھلانے میں لگا ہوا ہے، کسی میں اتنا غرور اور تکبر ہے کہ ہے وہ انسان کو انسان نہیں سمجھتا، یہ تمام برائیاں اس لئے ہیں کہ ہم میں سے خوف خدا ختم ہوگیا ہے اور ہم بھول گئے ہیں کہ آخر ہماری یہ زندگی ایک دن ختم ہوجانی ہے اور ہمارے اعمالوں کی جو کتاب تیار ہورہی ہے وہ جب ہمارے رب کے سامنے پیش ہوگی تو ہمارا کیا حال ہونا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ نے خود سورہ ملک میں فرمایا۔ ’’زندگی اور موت اس لئے رکھی ہے کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے نیک عمل کون کرتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے دراصل انسان کی زندگی اور موت کے درمیان جو وقت دیا ہے وہ ایک امتحان ہے، جس نے اچھے اور نیک اعمال کئے اس نے خدا کا قرب حاصل کیا اور جو گناہوں میں مبتلا رہا اس کو خدا کا غیظ و غضب ملے گا، لیکن خدا کی ذات اپنے بندے سے اتنی محبت کرتی ہے کہ اس نے انسان کے لئے توبہ کا راستہ کھول دیا، وہ چاہتا ہے کہ اگر انسان سے غلطیاں یا گناہ سرزد ہوگئے ہیں اور وہ اپنے کئے پر نادم ہے اور گڑگڑا کے خدا کے سامنے اپنے گناہوں کی توبہ کرے تو خدا اسے ایسے معاف کردیتا ہے جیسا کہ وہ ابھی اپنے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مختلف نیکیاں، راستے اور کئی راتیں ایسی رکھی ہیں جس میں خدا اپنے بندوں کو کثرت سے معاف کرتا ہے ان ہی راتوں میں سے ایک رات ’’شب برأت‘‘ ہے، یہ شب شعبان کے مہینے میں15ویں شب کو آتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا شعبان میرا مہینہ ہے اور رجب خدا کا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا کہ شعبان، رجب اور رمضان کے درمیان ایک مہینہ ہے اور اس کی فضلیت سے لوگ غافل ہیں، اس مہینے میں بندوں کے عمل اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں۔ انس بن مالکؓ نے فرمایا کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ ماہ رجب کی بزرگی باقی مہینوں پر ایسی ہے جیسی کہ سب کلاموں پر قرآن شریف کی بزرگی اور شعبان کی بزرگی باقی سب مہینوں پر ایسی ہے جیسی کہ تمام نبیوں پر مجھ کو بزرگی دی گئی ہے اور رمضان کی بزرگی باقی مہینوں پر ایسی ہے جیسی کہ تمام مخلوقات پر خدا کی بزرگی ہے۔ شعبان میں پانچ حرف ہیں، ان پانچ حرفوں میں ایک ایک بزرگی کی طرف اشارہ ہے۔ ’’ش سے مراد شرف‘‘ ’’ع سے بلندی‘‘ ’’ب سے نیکی‘‘ ’’الف سے الفت‘‘ اور ’’ن سے نور‘‘ کی طرف اشارہ ہے۔ اس مہینے میں اللہ کی طرف سے اپنے بندوں پر بڑی بڑی عطائیں ہوئی ہیں اور ان پر نیکیوں کا دروازہ کھولا جاتا ہے اور بے انتہا برکتیں نازل ہوتی ہیں۔ خطائیں معاف کی جاتی ہیں۔ گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجتا ہے اور نبی پر درود بھیجنے کے لئے یہ مہینہ خاص کیا گیا ہے۔ شب قدر کو پوشیدہ رکھا گیا ہے اور شب برأت کو اس لئے ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ رات قضا اور حکم، قہر اور رضا قبولیت اور رد، نزدیکی اور دوری، کرامت اور پرہیزگاری ہے۔ اس رات میں ایک آدمی کو تو نیک بخت کردیتے ہیں دوسرے کو مردود بنادیتے ہیں، ایک کو نیک عملوں کی جزا دے کر سربلند کردیا جاتا ہے اور دوسرے کو خوار کردیا جاتا ہے۔ ایک کو بزرگی دی جاتی ہے اور دوسرے کو اس سے محروم کیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ ہنس رہے ہوتے ہیں جو عنقریب ہلاک ہونے والے ہوتے ہیں، بہت سے لوگ ثواب کے امیدوار ہوتے ہیں، مگر ان پر عذاب نازل ہوتا ہے، اس شب کو ’’شب برأت‘‘ اس لئے کہتے ہیں اس رات دو بیزاریاں ہیں بدبخت رحمن سے بیزار ہوتے ہیں اور دوستان خدا خواری اور گمراہی سے بیزار ہوتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شعبان کی وسط رات میں حضرت جبرائیلؑ میرے پاس آئے اور کہا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم آسمان کی طرف سر اٹھائیں، کیونکہ یہ برکت کی رات ہے، اس رات اللہ3سو دروازے کھولتا ہے اور تمام لوگوں کو بخش دیتا ہے جو اس کا شریک نہیں بناتے۔ ساحر اور کاہن ہمیشہ شراب پینے والا، سودخور، زنا کرنے والا جب تک یہ توبہ نہ کریں ان کی بخشش نہیں ہوگی، رات کا چوتھا حصہ گزرا، پھر جبرائیل حاضر ہوئے اور کہا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سربلند کیجئے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ جنت کے سب دروازے کھول دیئے گئے ہیں، پہلے دروازے پر ایک فرشتہ کھڑا پکار رہا ہے کہ جو شخص اس رات کو رکوع کرتا ہے اس کو خوشخبری ہو، دوسرے پر فرشتہ پکار رہا ہے جو آدمی اس رات سجدہ کرتا ہے اس کو خوشخبری ہو، چوتھے دروازے پر فرشتہ کہہ رہا ہے جو اس رات ذکر کرتے ہیں ان کو خوشخبری ہو، پانچویں دروازے پر فرشتہ کہہ رہا ہے جو لوگ خدا سے خوف سے کھاتا ہے اسے خوشخبری ہو، چھٹے دروازے پر فرشتہ کہہ رہا ہے تمام مسلمانوں کو خوشخبری ہو، ساتویں دروازے پر فرشتہ پکار رہا ہے، کوئی سوال کرنے والا ہے، سوال کرے، اس کا سوال پورا کیا جائے گا۔ آٹھویں دروازے پر فرشتہ کہہ رہا ہے، کوئی ہے جو بخشش کی درخواست کرنے والا ہے اسے بخشش دی جائے گی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل سے پوچھا، یہ دروازے کب تک کھلے رہیں گے، یہ دروازے صبح تک کھلے رہیں گے اور خدا اس رات میں دوزخ کی آگ سے اس قدر اپنے بندوں کو نجات دیتا ہے جس قدر کہ قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بال ہیں۔ تو آج انسان یہ سوچ لے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے2019ء میں ایک اور ’’شب برأت‘‘ عطا کی ہے۔ پتہ نہیں کہ آئندہ یہ رات نصیب ہوگی یا نہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خوب فرمایا کہ پانچ چیزوں سے پہلے ان پانچ چیزوں کو غنیمت جانو۔ ’’بڑھاپے سے پہلے اپنی جوانی کو‘‘ ’’بیماری سے پہلے تندرستی کو‘‘ ’’فقیری سے پہلے تونگری‘‘ ’’شغل سے پہلے فراغت‘‘ اور ’’موت سے پہلے زندگی کو‘‘ یہ رات اس لئے بھی اہم ہے کہ اس رات میں آئندہ سال پیدائش اور اموات لکھی جاتی ہیں، اسی رات رزقوں کی بھی تقسیم کی جاتی ہے اور اسی رات بندوں کے اعمال و افعال آسمان پر لے جائے جاتے ہیں۔ حضرت انسان ضرور آپ اپنا احتساب کریں اور ٹھنڈے دل سے سوچیں اور اپنی زندگی پر نظر ڈالیں کہ ہم نے خدا کے کن کن احکامات کی حکم عدولی کی ہے، کتنے بڑے بڑے گناہ ہم نے کئے، کتنا غرور اور تکبر ہماری زندگی میں آیا ہے، کتنی لوٹ کھسوٹ اور حرام کی کمائی اپنے خاندان کو کھلائی ہے۔ کتنے لوگوں کا ہم نے دل دکھایا ہے، کتنی اپنے ماں، باپ کی عزت کی ہے، غرض یہ کہ اگر ہم اپنے جسم کو سر سے لے کر پیر تک دیکھیں تو ہر اعضا گناہوں میں مبتلا ہے، یہ اس رب کا احسان ہے جس نے ہم گناہ گاروں کے لئے توبہ کا راستہ کھول رکھا ہے اور ہماری زندگی کی سانس چل رہی ہے۔ جتنا جلد ہوسکے، خدا کے حضور سر بہ سجود ہوجائیں اور گڑگڑا کر رو کر اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور اس ’’شب برأت‘‘ میں اپنے گناہوں سے آزادی حاصل کریں، ورنہ کیا فائدہ ’’جب چڑیاں چک گئیں کھیت‘‘۔
تازہ ترین