• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مہذب معاشرے میں استاد کا مقام جس عزت و وقار کا حامل ہوتا ہے وہ محتاجِ وضاحت نہیں، تاہم اس کی پاسداری میں استاد کا اپنا کردار بھی بہت اہم ہے۔ ان اقدار کا ناپید ہو جانا ملک و قوم کی بدقسمتی سمجھی جاتی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کے سپریم کورٹ میں زیر سماعت کیس کی سماعت کے دوران سرکاری اسکولوں کا معیار بہتر نہ ہونے اور بیشتر اساتذہ کے گھر بیٹھے تنخواہیں لینے سے متعلق دیئے گئے ریمارکس اربابِ بست و کشاد کے لئے لمحہ فکریہ اور مجرمانہ غفلت کے حامل ایسے اساتذہ کے لئے باعثِ ندامت ہیں۔ چند ماہ پیشتر جنگ ڈویلپمنٹ رپورٹنگ سیل نے بھی ان حقائق سے پردہ اٹھایا تھا کہ 15سے 16سال کی عمر کے 47فیصد (2کروڑ 40لاکھ) بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق سندھ میں 48ہزار 677سرکاری اسکول میں سے 12600بند پڑے ہیں لیکن ان کے اساتذہ گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں۔ پنجاب میں 58ہزار سرکاری اسکولوں میں سے 266تعلیم کے بجائے دوسرے مقاصد کے لئے استعمال میں لائے جا رہے ہیں۔ ایسے اداروں کی بیشتر عمارتیں وڈیروں کے مویشی باندھنے کے استعمال میں لائی جا رہی ہیں۔ بلوچستان میں قائم 12388میں سے 36بھوت اسکول پائے گئے۔ خیبر پختونخوا میں 28510میں سے 3ہزار اسکول 2001کے بعد سے دہشت گردی یا قدرتی آفات کے باعث تباہ یا بند ہوئے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ گزشتہ 71برسوں میں اسکول کھولنے کی اوسط رفتار محض 5فیصد تک رہی۔ پرائمری اسکولوں میں آج بھی اساتذہ 70سال پہلے کے طرز پر تعلیم دے رہےہیں۔ اگر دیکھا جائے تو نجی اسکولوں کی کامیابی کے پیچھے یہی عوامل کار فرما ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فاضل چیف جسٹس کے ریمارکس کی روشنی میں سرکاری اسکولوں کی تعداد اور کارکردگی بڑھانے کیلئے ٹھوس اور پائیدار اقدامات کئے جائیں۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین