• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس سے پہلے کہ وہ پہاڑوں میں پناہ لیں۔

اس سے پہلے کہ مغربی سرحدیں انہیں ہلاکت کی تربیت دیں۔

اس سے پہلے کہ اب نویں کلاس میں فزکس اور کیمسٹری کے پروجیکٹ بنانے والے بارود، سیمنٹ اور پتھروں کے آمیزے بنائیں۔

اس سے پہلے کہ یہ معصوم لڑکپن میں انسانیت کے دشمنوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن جائیں۔

پاکستان میں قیادت کے دعویدارو۔

منافع کی ہوس میں مبتلا صنعت کارو، تاجرو۔

ریٹنگ کی طلب میں اہلِ میڈیا۔

علم کے ان سچے طلب گاروں، سائنسدان بننے کا خواب دیکھنے والوں، پھٹے یونیفارم میں اپنے وطن کی خدمت کے جذبے سے سرشار طالب علموں کے سر پر ہاتھ رکھو۔ اپنے اختیارات اور اپنی دولت سے ان منصوبوں کو صنعتی طاقت میں تبدیل کر دو۔ آپ کی نظریں تو ان پر نہیں ہیں جبکہ سرحد پار بہت سی طاقتوں نے ان پر نگاہیں جمائی ہوئی ہیں۔

میں اس وقت بلوچستان کے ایک دور افتادہ مگر ایران اور افغانستان دونوں کی سرحدوں سے بہت قریب، نوشکی کے کرکٹ اسٹیڈیم میں پہلا سائنسی، ادبی اور ثقافتی میلہ دیکھ رہا ہوں۔ کتابوں کے اسٹال لگے ہیں۔ انگریزی، اُردو، بلوچی، پشتو زبانوں میں کتابیں۔ بہت غریب ہیں یہ لوگ۔ چھوٹا سا شہر ہے۔ تیس ہزار کے قریب آبادی مگر لگتا ہے کہ سب یہاں اُمڈ آئے ہیں۔ کتابیں بک بھی رہی ہیں۔ ایسے اسٹال تو میں کراچی کے سالانہ کتاب میلے میں بھی دیکھتا ہوں۔ نیشنل بک فائونڈیشن کے میلے میں بھی۔ جو آئندہ ہفتے پھر سجنے والا ہے لیکن مجھے نوشکی اور آس پاس کے قصبوں کے سرکاری ہائی اسکولوں کے اسٹال اپنی جانب کھینچ رہے ہیں۔ پُرخلوص اسکول ٹیچر محبت سے گلے مل رہے ہیں۔ اسکول یونیفارم میں آٹھویں، نویں، دسویں جماعت کے بچے بڑے اعتماد سے سائنسی تجربے کر رہے ہیں۔ اچانک قومی ترانہ بجنے لگا ہے۔ ہم سب احترام سے کھڑے ہو گئے ہیں لیکن یہ تجسس ہے کہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ سایۂ خدائے ذوالجلال میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طالب علم بیٹری سے ایک ٹیپ ریکارڈ کو جوڑے ہوئے ہے۔ کسی طالب علم نے ’ویکیوم کلینر‘ اپنے طور پر بنایا ہے کہیں کا پائپ، کہیں کی بڑی بوتل بیٹری سے جوڑی ہے۔ بٹن دباتا ہے۔ نیچے بکھرے کاغذ کے ٹکڑے پائپ کے ذریعے بوتل میں جمع ہو رہے ہیں۔ ایک نے واٹر فلٹر بنایا ہوا ہے۔ ایک نے ’نیوران‘ کا تجربہ کر رکھا ہے۔ ایک ڈی این اے پر تحقیق کر رہا ہے۔ ایک نے لاوا ابالنا شروع کر دیا ہے۔ ایک نے پیری اسکوپ تیار کی ہوئی ہے۔ ایک پھیپھڑوں کا عمل بتارہا ہے۔ زیادہ تر طالب علم نویں جماعت کے ہیں۔ مشتاق احمد، علی گل، محمد سلیمان، اختر محمد، عبدالرزاق، محمد عارف، ابرار حسین، یار جان، محمد زکریا۔ میں حیرت زدہ ہوں کہ ان ویرانوں میں کیسے کیسے نگینے موجود ہیں۔ ان کے اسکول ٹیچر قزلباش فواد ہیں۔ گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول کلی مینگل جہاں ہم نے قومی ترانہ سنا، وہ گورنمنٹ بوائز ماڈل اسکول بہادر آباد نوشکی کے طلبہ کی محنت تھی۔ ان کے ہیڈ ماسٹر مقبول احمد شاہ کی آنکھوں میں بھی ایک چمک دکھائی دے رہی ہے۔

کتنے عظیم ہیں یہ ہم وطن۔ ہمارے ساتھ حکومت بلوچستان کے ایک سابق سیکریٹری، شاعر، درد مند سرور جاوید ہیں۔ وہ ان طالب علموں سے سائنس کے حوالے سے سوالات کر رہے ہیں۔ یہ فرفر اُردو میں جواب دے رہے ہیں۔ انگریزی اصطلاحیں انگریزی میں بتا رہے ہیں۔ رات ایک مشاعرہ بھی ہوا ہے جس میں پشاور، اسلام آباد، لاہور، بہاولپور، حیدر آباد اور کراچی سے بھی شعرا نے اپنا کلام سنایا مگر نوشکی کے مقامی اور بلوچستان کے دوسرے اضلاع سے آئے ہوئے شعراء کی اُردو، بلوچی، براہوئی اور پشتو زبانوں میں نظموں اور غزلوں نے بہت متاثر کیا۔ قاضی مبارک مقبول ترین شاعر ہیں۔ ان کی جرأت دیکھ کر حبیب جالب اور رندی دیکھ کر ساغر صدیقی یاد آتے ہیں۔ مقالے بھی پڑھے جا رہے ہیں۔ بہت اچھے انتظامات ہیں جواں سال ڈپٹی کمشنر عبدالرزاق ساسولی کا خلوص اس کا مرکزی محرّک ہے۔ مشاعرے، مذاکرے اور سیمینار تو ہوتے رہتے ہیں مجھے تو ان اسکولوں کے بچوں نے مسحور کر دیا ہے۔ میں سوچوں میں ڈوب گیا ہوں۔ ایوب خان، یحییٰ، بھٹو صاحب کے دَور میں پہاڑوں پر جانے والے۔ ضیاء الحق کی طرف سے بلوچستان سازش کیس ختم ہونے کے باوجود بلوچستان کی محرومیاں۔ پھر مشرف کے دَور میں المناک واقعات۔ سب یاد آرہا ہے۔ اب سمجھ میں آرہا ہے کہ نوجوان پہاڑوں میں جانے پر کیوں مجبور ہوتے ہیں۔ وہ بچپن سے ہی باغی پیدا نہیں ہوتے۔ ان کے بھی خواب یہی ہوتے ہیں کہ وہ اپنے علاقے میں خدمات انجام دے کر نام روشن کریں، اپنے ماں باپ کا سہارا بنیں۔ اپنی بہنوں کے ہاتھ پیلے کریں۔ اپنے بھائیوں کا بازو بنیں لیکن جب ان بچوں کے سر پر کوئی ہاتھ نہیں رکھتا تب بلوچستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بھارت کے قونصل خانے ان کے خوابوں کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ ان کی یہ تحقیقی صلاحیتیں، تخلیقی جوہر، انجینئرانہ ذہانت سے فائدہ وہ اٹھاتے ہیں۔

یہ تجربے سندھ، پنجاب اور کے پی کے بڑے شہروں میں طالب علم کرتے ہیں تو انہیں سرپرست مل جاتے ہیں۔ اگرچہ سندھ، پنجاب اور کے پی کے چھوٹے شہروں قصبوں کے طالب علم بھی شفقت سے محروم رہتے ہیں مگر وہاں بڑی بڑی آبادیاں ہیں۔ روزگار کے متبادل ذرائع موجود ہیں۔ یہاں بلوچستان میں ارضی حقائق اور زمینی منظر نامہ بہت مختلف ہے۔ میلوں میل پہاڑ ہیں۔ ریگ زار ہیں۔ فاصلے بہت زیادہ۔ آبادی بہت کم۔ روزگار کے متبادل ذرائع بالکل نہیں۔ بلوچستان کے یہ نوجوان خصوصی توجہ چاہتے ہیں۔ ان کے گھر والے تو ان کی فیس بھی نہیں دے سکتے۔ کتابیں یونیفارم بھی مہیا نہیں کر سکتے۔ تعلیم اور صحت کے نام پر لاکھوں ڈالر وصول کرنے والی این جی اوز بھی یہاں نظر نہیں آتیں۔ کوئٹہ سے نوشکی آنے والی آر سی ڈی شاہراہ پر اسکول، کالج، اسپتال تو کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ البتہ دارُالعلوم ہر چند کلومیٹر پر موجود ہیں۔

پاکستان میں شامل ہونے کے 72سال بعد بھی ان شہروں میں بڑے کارخانے تو الگ بات چھوٹی صنعتیں بھی نہیں ہیں۔ لیبارٹری نہیں ہے۔ یہ بچے اپنے شہر اپنے بلوچستان، اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں۔ ایم این اے، ایم پی اے ووٹ لینے کے بعد نہیں آتے۔ ادیب، شاعر باغیانہ شاعری کرکے سمجھتے ہیں اپنا فرض ادا کر دیا۔ صحافی وزیراعلیٰ، وفاقی وزراء کی خوشنودی حاصل کرکے مطمئن ہیں۔ متعلقہ سرکاری محکموں بالخصوص وزارتِ تعلیم کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ پھر سائنسی اداروں، سائنسدانوں کو اس طرف توجہ دینا چاہئے۔ ہم نے تو علم سے، سائنس سے یہ لگن نوشکی میں دیکھی ہے۔ یقیناً خاران، مکران، ساروان اور دوسرے علاقوں میں بھی بچوں کے یہی خواب ہوں گے۔ کارپوریٹ سیکٹر آگے آئے۔ اگر حکومت نے ان کے سر پر ہاتھ نہیں رکھا، صنعتکاروں نے ان کے پروجیکٹس کی سرپرستی نہیں کی تو یقیناً را کے ایجنٹ انہیں گود لے لیں گے۔ پھر وہی بم دھماکے، ہلاکتیں، فرقہ وارانہ تعصب۔ راستے میں ہم نے اس بس کا ڈھانچہ بھی دیکھا جسے زائرین سمیت اڑا دیا گیا تھا۔ ہم یہ منظر اگر دوبارہ نہیں دیکھنا چاہتے تو بلوچستان کے ہائی اسکولوں میں نویں، دسویں کے بچوں پر شفقت کا ہاتھ رکھیں۔ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی۔

تازہ ترین