• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منی لانڈرنگ کیس سنگین، شہباز شریف کو نقصان پہنچا سکتا ہے

اسلام آباد (انصار عباسی) شہباز شریف فیملی کیخلاف منی لانڈرنگ کا تازہ ترین کیس سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور ان کے اہل خانہ کیخلاف نیب کے زیر تفتیش دیگر مقدمات سے زیادہ سنگین ہے۔ آزاد ذرائع اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ جس معاملے میں شہباز شریف فیملی کو مبینہ طور پر ملوث قرار دیا جا رہا ہے اس میں پاکستان کی اکثر ایسی بڑی کاروباری شخصیات بھی ملوث ہیں جو اپنی کمپنیوں کا منافع مکمل طور پر ظاہر نہیں کرتے تاکہ ٹیکسوں سے بچ سکیں اور اس طرح وہ ہنڈی اور ترسیلات کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے اپنی غیر ٹیکس شدہ رقم کی منی لانڈرنگ کرتے ہیں۔ تاہم، بڑی کاروباری شخصیات کی ’’اس معمول کے کام‘‘ کے باوجود، 29؍ ملین ڈالرز کی مبینہ مشکوک ترسیلات کا کیس اپنے شواہد کی وجہ سے شہباز شریف فیملی کو پریشان کر سکتا ہے۔ یہ رقم شریف فیملی کے مختلف ارکان نے اکائونٹس میں وصول کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان پر برسوں حکمرانی کرنے والے کسی بھی سیاسی خاندان کیلئے ’’اس معمول کے کام‘‘ کا جواز پیش نہیں کیا جا سکتا حالانکہ عام کاروباری شخص کیلئے اسے نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگرچہ شہباز شریف نے ذاتی طور پر یہ ترسیلات وصول نہیں کیں لیکن اگر ان کے خاندان کی جانب سے ان کی وصولی عدالت میں ثابت ہو گئی تو یہ معاملہ شہباز شریف کو سیاسی طور پر زبردست دھچکا پہنچا سکتا ہے۔ ایک ذریعے کے مطابق، صرف چینی (شوگر) کے کاروبار کی ہی اسکروٹنی کی جائے تو معلوم ہوگا کہ زیادہ تر ترسیلات سے شوگر مل مالکان یا ڈائریکٹرز ہی اثاثے بناتے ہوئے پائے جائیں گے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اگر چینی کی پیداواری لاگت 100؍ روپے ہے اور اس کی قیمت فروخت 200؍ روپے ہوگی اور چونکہ زیادہ تر چینی نقد کے عوض ہی فروخت ہوتی ہے تو چینی کی فروخت کی قیمت 120؍ روپے دکھائی جا تی ہے جبکہ باقی 80؍ روپے ہنڈی کے ذریعے باہر بھیج دیے جاتے ہیں۔ جیسا کہ ملک میں دیگر طرح کے کاروبار میں بھی یہی طریقہ کار عام ہے، کمایا جانے والا غیر ٹیکس شدہ بھاری منافع ہنڈی کے ذریعے پاکستان سے باہر بھیج دیا جاتا ہے اور پھر غیر ملکی ترسیلات زر کے ذریعے واپس لایا جاتا ہے اور قانون کی نظر سے دیکھیں تو بیرون ملک سے پاکستان آنے والی دولت پر کوئی انکوائری نہیں ہوتی اس طرح غیر ٹیکس شدہ کالا دھن باہر سے واپس لا کر سفید کیا جاتا ہے۔ کچھ معاملات میں، غیر ٹیکس شدہ رقم پاکستان سے باہر غیر رسمی چینلز کے ذریعے بھیجی جاتی ہے اور پھر آف شور پراپرٹی بنائی جاتی ہے یا غیر ملکی اکائونٹس کھولے جاتے ہیں۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ اگر شوگر مل مالکان کے اکائونٹس کی جانچ کی جائے تو ان کے اکائونٹس میں باہر سے بڑے پیمانے پر ترسیلات زر آتی ہوئی ملیں گی۔ ملک میں اکثر شوگر ملیں سیاسی خاندانوں کی ملکیت ہیں جن میں نون لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی والے شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ صرف دو خاندانوں، جو شوگر کا کاروبار کر رہے ہیں اور اب پی ٹی آئی کی نمائندگی کر رہے ہیں، کی دولت دیکھیں تو وہاں بھی بڑے پیمانے پر غیر ملکی ترسیلات زر آتی ملیں گی۔ ایک ذریعے نے پولٹری کے کاروبار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس شعبے میں ایک کاروباری شخصیت ایسی بھی ہے جس کی صرف ایک سال کی غیر ملکی ترسیلات دیکھیں تو اربوں میں ہے۔ ذریعے نے کہا کہ یہ ممکن ہے کہ شہباز شریف فیملی کے اکائونٹس میں آنے والی رقم میں سے کچھ شوگر کے کاروبار سے اور کچھ پولٹری کے کاروبار سے حاصل کر دہ ہو۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ شریف فیملی کو عقلمندی سے کام لینا چاہئے تھا اور سیاست دان ہونے کی حیثیت سے انہیں یہ معلوم ہونا چاہئے تھا کہ کبھی نہ کبھی ان کی اسکروٹنی ہو سکتی ہے اسلئے انہیں ایسا طریقہ کار اختیار نہیں کرنا چاہئے تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہوس عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اب یہ لوگ 31؍ مارچ 2018ء تک ترسیلات پر حاصل استثنیٰ کا دعویٰ بھی کریں گے تو انہیں سیاسی نقصان ہوگا کیونکہ ان کی اخلاقی ساکھ ختم ہو جائے گی۔

تازہ ترین