• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آبپاشی کے کچھ سینئر ماہرین کالا باغ ڈیم کی بجائے تربیلا ڈیم تعمیر ہونے کے پس منظر کے بارے میں دو مختلف اور متضاد آراء کا ذکر کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک رائے کے مطابق پنجاب کے آبپاشی کے ماہرین شروع سے اس رائے پر متفق تھے کے انڈس بیسن ٹریٹی کے تحت عالمی بینک کی مالی مدد سے جو ڈیم بنایا جائے وہ کالا باغ کے مقام پر بنایا جائے مگر ان حلقوں کے مطابق ان دنوں ملک کے سربراہ صدر ایوب خان تھے اور واپڈا کے چیئرمین بھی غالباً ایک پختون غلام اسحاق خان تھے جو چاہتے تھے کہ یہ ڈیم کالا باغ کے بجائے تربیلا کے مقام پر بنایا جائے اس سلسلے میں انہوں نے فقط عالمی بینک کے افسران اور ماہرین کو راضی کیا مگر صدر ایوب خان کو بھی اعتماد میں لیا کہ ڈیم تربیلا کے مقام پر بنایا جائے۔ اس طرح انڈس بیسن ٹریٹی کے تحت ڈیم تربیلا میں بنایا گیا جبکہ ایک دوسری رائے کے مطابق پنجاب کے ماہرین بھی اس رائے پر متفق تھے کہ عالمی بینک کی مدد سے تربیلا ڈیم تعمیر کیا جائے کیونکہ اس پر زیادہ اخراجات آرہے تھے اور پنجاب کے ماہرین کا خیال تھا کہ کالا باغ ڈیم تعمیر کرنا آسان ہو گا اور وہ خود بنالیں گے۔
اس طرح کالا باغ ڈیم کے بجائے تربیلا ڈیم بن گیا۔ بہرحال، کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ پنجاب کے کچھ ماہرین کو یہ بات پسند نہیں آئی کہ کالا باغ ڈیم کی بجائے تربیلا ڈیم بن گیا اور وہ آج تک اس بات کو ہضم کرسکے۔تربیلا ڈیم اور کالا باغ ڈیم کے درمیان اس Race کی کہانی بھی کچھ کم دلچسپ نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب 1973ء میں آئین سازی کا کام ہورہا تھا اور تقریباً اکثر بڑے اختلافات مشوروں اور بھٹو کی شٹل ڈپلومیسی کے ذریعے طے کردیئے گئے تو بھی نیپ کی طرف سے چھوٹی موٹی رکاوٹیں پیدا کی جارہی تھیں کیونکہ اس وقت کے وزیر اعظم ساری پارٹیوں کے اتفاق رائے سے آئین بنانا چاہتے تھے لہٰذا ان کو کچھ سیاست دانوں سے ون ٹو ون ملاقاتوں کے سلسلے میں خود شٹل ڈپلومیسی کرنی پڑی۔ اس سلسلے میں اس دور میں ان کی جماعت اسلامی کے امیر مولانا مودودی سے ملاقات کے بارے میں بھی کئی قصے مشہور ہیں۔ اس طرح کہا جاتا ہے کہ بھٹو نے نیپ کے سربراہ خان عبدالولی خان سے بھی ملاقات کی یا کسی ثالث کے ذریعے ان سے رابطہ کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ بھٹو کو بتایا گیا کہ نیپ کی قیادت آئین میں تربیلا ڈیم میں پیدا ہونے والی بجلی پر اس وقت کے صوبہ سرحد کو رائلٹی دینے کے سلسلے میں ایک الگ شق شامل کرانا چاہتے ہیں۔ آخر یہی ہوا اور 1973ء کے آئین میں ایک یہ شق بھی شامل کی گئی کہ تربیلا میں بننے والی بجلی کی رائلٹی صوبہ سرحد کو دی جائے گی۔بعد میں جب اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے چاروں صوبوں کے درمیان دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کا معاہدہ کرنے کے سلسلے میں سنجیدہ کوششیں کیں تو ابتدائی طور پر سندھ کے علاوہ صوبہ سرحد بھی معاہدے کی راہ میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ پیدا کرنے لگا۔
اس وقت زیر گردش اطلاعات کے مطابق کچھ حلقوں نے میاں نواز شریف کو مشورہ دیا کہ اگر پانی معاہدے کے سلسلے میں صوبہ سرحد کو راضی کرنا چاہتے ہیں تو ملک کے پختون صدر غلام اسحاق خان سے ملاقات کریں لہٰذا میاں نواز شریف نے صدر غلام اسحاق خان سے ملاقات کی۔ ان اطلاعات کے مطابق نواز شریف پر یہ بات واضح کی گئی کہ آئین کی اس شق پر عمل کیا جائے جس کے تحت صوبہ سرحد کو تربیلا میں تیار ہونے والی بجلی کی رائلٹی دینی ہے لہٰذا نواز شریف اس بات پر راضی ہوگئے اور اس طرح صوبہ سرحد کی مخالفت بھی ختم ہوگئی اس طرح 1991ء میں چاروں صوبوں کے درمیان پانی کا معاہدہ Water Accord ہوا۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ تربیلا کی بجلی پر صوبہ سرحد کو رائلٹی ملنے کے بعد پنجاب کی خواہش اور بڑھ گئی ہے کہ کس طرح کالا باغ ڈیم بناکے وہاں بھی بجلی تیار کی جائے تاکہ پنجاب کو بھی رائلٹی مل سکے۔سیاسی حلقوں نے اس بات کو خاص طور پر نوٹ کیا ہے کہ صوبہ سرحد یا اب خیبر پختونخوا کے حوالے سے دونوں اہم فیصلے ہوئے جب مرکز میں پی پی کی حکومت تھی ایک فیصلہ یہ ہوا جس کا اس کالم میں ذکر کیا گیا ہے یعنی تربیلا ڈیم میں بننے والی بجلی پر خیبر پختونخوا کو رائلٹی دینے کے سلسلے میں ایک خاص شق آئین میں شامل کی گئی۔
اس طرح صوبہ سرحد کے حوالے سے دوسرا فیصلہ ابھی اس حکومت کے دور میں کیا گیا جب ایک بار پھر پی پی کی حکومت ہے اس فیصلے کا تعلق 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے خیبر پختونخوا رکھا گیا۔ اس طرح صوبہ سرحد کو پہلی بار ایک شناخت ملی اور اطلاعات کے مطابق یہ فیصلہ صدر آصف زرداری کی خصوصی ہدایات کے تحت کیا گیا۔ واضح رہے کہ1947ء سے پختون قیادت اور خاص طور پر نیپ یا اے این پی کی قیادت مطالبہ کرتی رہی کہ صوبہ سرحد کو ان کا اپنا نام اور شناخت دی جائے مگر ان کے اس مطالبے کی کبھی بھی شنوائی نہیں ہوئی اور وقت کے حکمران حقارت سے اس مطالبے کو رد کردیتے تھے اور ایسے مطالبوں کی پاداش میں خان عبدالغفار خان اور خان عبدالولی خان کو ملک دشمن ہونے کے طعنے سننے پڑے تو اکثر زندانوں میں بھی مقید رہے۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہوگا کہ تربیلا ڈیم میں بننے والی بجلی پر خیبر پختونخوا کو رائلٹی دینے والے فیصلے کی سندھ کے سیاسی رہنماؤں، ماہرین اور عوام نے زبردست حمایت کی تھی۔ اس طریقے پر سندھ کے عوام بھی مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ سندھ اور بلوچستان کو بھی ان کی بندرگاہ کے حوالے سے رائلٹی ملنی چاہئے یا یہ متعلقہ صوبوں کے حوالے دینے چاہئیں۔
بہرحال سندھ کے سیاسی حلقے عمومی طور پر پی پی اور اے این پی کے اتحاد کو ضرور اچھی نظر سے دیکھتے ہیں مگر حال ہی میں سندھ کے سیاسی حلقوں اور عوام میں ان دونوں پارٹیوں کے مجموعی طریقے کار پر اس حد تک ضرور تحفظات پیدا ہوئے ہیں کہ محسوس کیا جارہا ہے اے این پی اور خاص طور پر پی پی کا رخ موقع پرستی اور ”چمک“ کی طرف مڑتا ہوا نظر آرہے ہیں۔ ان حلقوں کے مطابق اگر اے این پی اور پی پی اپنی اس ضد کو ختم کرکے حقیقی جمہوری رویہ اختیار کریں تو ان کا اتحاد سندھ اور ملک بھر کے جمہوریت پسند عوام کیلئے قابل تحسین ہوگا۔ سندھ کے عوام نے تو 2008ء کے انتخابات کے بعد نواز لیگ اور خاص طور پر میاں نواز شریف کے کردار کو بھی سراہا تھا کیونکہ انہوں نے2008ء کے انتخابات کے بعد ایک واضح جمہوری کردار ادا کیا مگر بعد میں پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی کہ نواز لیگ اور پی پی کا اتحاد ٹوٹ گیا۔ عمومی طور پر اس اتحاد کے ٹوٹنے کی ذمہ داری پی پی قیادت پر عائد کی جاتی ہے مگر کچھ حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ نواز لیگ میں کچھ عناصر اتنے بااثر ہیں کہ نواز شریف کو بھی اپنا قبلہ کسی حد تک تبدیل کرنا پڑا۔ بہرحال سندھ کے عوام کی یہ سوچ ریکارڈ پر لانا بہت ضروری ہے کہ جب 2008ء کے انتخابات کے بعد پی پی، پی ایم ایل (ن) اور اے این پی کا اتحاد بنا تو سندھ کے عوام نے اسے ایک مثالی اتحاد قرار دیا۔ مجھے یاد ہے کہ سندھ میں مستقل رہائش اختیار کرنے والے ایک پنجابی دانشور نے اس اتحاد پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”یار پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار Sons of Soil پارٹیوں کا اتحاد ہوا ہے اور یہ برقرار رہنا چاہئے“۔ بعد میں جب میں نے اس پنجابی دانشور کے ان ریمارکس سے کچھ سندھی دانشوروں کو آگاہ کیا تو انہوں نے بھی اس رائے کو Endorse کیا۔
تازہ ترین