• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی اللہ رب العزت کی عظیم نعمت ہے۔اور اس حکم ربی کے تحت اس کی حفاظت فرض کہ’’خود کو ہلاکت میں مت ڈالو‘‘دین مبین میں صراحت سے احکام موجود ہیںکہ جہاں جان کو خطرہ ہو اس راہ، عمل اور طریق کار سے بھی احترازبرتا جائے۔ دنیا کےہر قانون نے زندگی کا خطرہ مول لینے سے بھی اسی لئے منع کیا ہے کہ ایسا کرنا منشائے فطرت کے خلاف ہے۔ دنیا بھر میں شاہراہوں کے حوالے سے جتنے بھی قاعدے قانون وضع کئے گئے ہیں ان کی بنیادی وجہ حادثات کی روک تھام اور انسانی جانوں کو محفوظ بنانا ہے۔ گاڑیوں میں بھی وہی مہنگی اور قیمتی شمار کی جاتی ہیں جو زیادہ محفوظ ہوتی ہیں۔ رہی بات دو پہیوں والی گاڑی یعنی موٹر سائیکل کی تو یہ ایک قدرے کم محفوظ سواری ہے، چنانچہ اس کے لئے دنیا بھر میں ہیلمٹ کا استعمال ضروری قرار دیا گیا ہے تاکہ حادثے کی صورت میں جسم کا حساس ترین حصہ یعنی سر اور گردن محفوظ رہے، فقط موٹر سائیکل ہی کیا سائیکل چلانے تک کے لئے ہیلمٹ استعمال کیا جاتا ہے کہ حادثہ بیشتر ناگہانی طور پر ہی رونما ہوا کرتا ہے۔ پاکستان میں ہیلمٹ کے استعمال کو لازمی بنانے کی باقاعدہ و موثر مہم کا آغاز ستمبر 2017ء میں کراچی سے ہوا ، جس کے بہتر نتائج سامنے آئے۔ لاہور میں ہیلمٹ کا استعمال ایم وی او کی دفعہ 189کے تحت لازمی قرار دیا گیا۔ 24ستمبر 2018کو زیرو ٹالرنس پالیسی کے تحت ابتدائی طور پر مال روڈ پر ہیلمٹ کا استعمال لازم قرار پایا اور پھر اس کا دائرہ کار بڑھادیا گیا۔ 7ماہ کی اس مہم کے دوران 8لاکھ 90ہزار چالان ٹکٹ جاری کئے گئے۔ بغیر ہیلمٹ کے موٹر سائیکل سوار کو پٹرول فراہم کرنے پر بھی قدغن لگائی گئی ، اگرچہ اس پر کچھ حلقے جزبز بھی ہوئے لیکن اس کے نتائج اتنے خوش کن برآمد ہوئے کہ شاید اب کوئی اس کی مخالفت کرنے کا سوچے گا ہی نہیں۔نتائج یہ رہے کہ ہیلمٹ کے استعمال سے ہیڈ انجری کے مریضوں میں83فیصد کمی آئی اور یہ ایک شاندار کامیابی ہے۔ امید ہے کہ اب موٹر سائیکل سوارکے ساتھ بیٹھنے والے ا فراد بھی ہیلمٹ کا استعمال شروع کردیں گے کہ جان سے زیادہ قیمتی کوئی شے نہیں۔ ٹریفک پولیس اپنے اس کارنامے پر ستائش کی حقدار ہے۔

تازہ ترین