• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان نے جب پچاس لاکھ گھروں کی بات کی تھی تو حضرتِ اقبال یاد آئے تھے ’’کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد‘‘، اب جب تازہ بستیاں آباد ہونے لگی ہیں تو اس پر طنز کے تیروں کی برسات شروع ہے، پاکستانی عوام کی سماعتوں میں رس گھولنے والی شہد بھری خبریں بہت ہیں مگر افسوس کہ ان پر زہر بکھیر کر انہیں عوامی طشت میں رکھا جا رہا ہے، اِسی خبر کو لے لیجئے کہ ’’وزیراعظم عمران خان نے ’نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم‘ کااعلان کردیا، یہ ہائوسنگ کی پہلی اسکیم ہے اس کے تحت ایک لاکھ 41ہزار گھر بنائے جارہے ہیں، جن میں گوادر میں مچھیروں کے لئے ایک لاکھ دس ہزار گھر، اسلام آباد کےملازمین کے لئے پچیس ہزار، آزاد کشمیر میں 6ہزار گھر شامل ہیں۔ غریبوں کو اِن گھروں کے لئے بغیر سود قرض دیا جائے گا‘‘ مگر یاد لوگوں نے اس ’اطلاعِ دلنواز‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کہاں پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ اور کہاں صرف ڈیڑھ لاکھ گھروں کا اعلان، اس حساب سے اگر گھر بنائے گئے تو پانچ سال میں کتنے گھر بنیں گے؟ یہی پانچ سات لاکھ۔ افسوس صد افسوس کہ جب بے گھروں کے لئے بڑے شہروں میں شیلٹر ہوم بنائے جانے لگے تو کہا گیا یہی پچاس لاکھ گھر تھے، جو بس بن چکے۔

یقین کیجئے پچاس لاکھ گھر بنانا قطعاً ناممکن نہیں۔ پچھلے دنوں برمنگھم ہائوسنگ ایسوسی ایشن کے چیئرمین ڈاکٹر خورشید احمد سی بی ای پاکستان آئے اور انہوں نے کہا کہ ان کی ایسوسی ایشن پانچ لاکھ سستے گھر تعمیر کر کے دینا چاہتی ہے، ان گھروں پر خرچ ہونے والا تمام سرمایہ بھی غیر ملکی ہو گا، حکومتِ پاکستان کو ایک روپیہ بھی نہیں لگانا پڑے گا، میں نے ان کی ملاقاتیں کچھ اہم ترین لوگوں سے کرائیں، کچھ اور لوگوں سے کرانا تھیں تو طے پایا، جو فرم یہ کام پہلے کررہی ہے، پہلے اسے دیکھ لیا جائے۔ اس کے بعد انہیں بھی پاکستان میں سستے مکانوں کی تعمیر کا موقع دیا جائے گا۔ ایسے اہلِ نظر پاکستانیوں کی دنیا میں کوئی کمی نہیں۔ بے شک برلن کی ایک آن لائن رئیل اسٹیٹ مارکیٹ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’’2016تک پاکستان میں ایک کروڑ کے نزدیک گھر کم ہیں مگر ایک کروڑ گھر نہ سہی پچاس لاکھ گھر ضرور بنائے جا سکتے ہیں‘‘۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پچاس لاکھ گھر بنانا کوئی جناتی منصوبہ ہے، یہ کام ہونے والا نہیں، انکا اندازہ درست نہیں، چین نے کئی ایسے شہر تعمیر کر رکھے ہیں، جو ابھی خالی پڑے ہیں، اب وہ زمانہ نہیں جب مکان تعمیر کرنے پر مہینوں لگا کرتے تھے، نئے طریقہ کار کے مطابق چند دنوں میں پورا مکان بن جاتا ہے، نئے شہروں کی تعمیر کا کام جیسے ہی شروع ہوا نہ صرف غریبوں کے لئے پچاس لاکھ گھر بن جائیں گے بلکہ حکومت معاشی طور پر بھی مستحکم ہو جائے گی۔

حکومت کے پاس لاکھوں ایکٹر زمین موجود ہے، خاص طور پر موٹرویز کے ارد گرد جہاں صنعتی شہر آباد ہونا ہیں، ان کے قرب و جوار میں بالکل نئے شہر آباد کئے جا سکتے ہیں۔ ان کی تعمیر کے لئے حکومت کو صرف بنیادی کام کرنا ہے، اس زمین کو پلاٹس میں بدلنا ہے، ان کے درمیان سڑکیں بنانا ہیں، تمام سہولتیں فراہم کرنا ہیں۔ اُس کے بعد ہر شہر میں ایک کنال دو کنال اور چار کنال کے پلاٹ پوری قیمت پر بیچ دئیے جائیں اور پانچ مرلے کے پلاٹس صرف غریبوں کے لئے مختص کر دئیے جائیں، جہاں غیر ملکی کمپنیاں اُنہیں آسان قسطوں پر گھر تعمیر کردیں۔ یہ ایک گھر دس سے پندرہ لاکھ میں بن سکتا ہے۔ یہ بنے بنائے گھر بھی ہو سکتے ہیں جنہیں یہاں لاکر صرف لگانے کی ضرورت ہو گی، جیسے آجکل پوری دنیا میں گھر بن رہے ہیں۔

عمران خان کے ایسے عظیم الشان پروجیکٹ کے راستے میں جو لوگ رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، ’نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم‘ کا افتتاح کرتے ہوئے عمران خان نے اُس مفاد پرست ٹولے کا بھی ذکر کیا ہے۔ یہی ٹولہ تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ ہے اور اس میں نوے فیصد لوگوں کا تعلق بیوروکریسی سے ہے۔ جو حکومت کے لئے بدنامی کا سبب بھی بن رہے ہیں، کام نہیں کر رہے، کسی فائل پر دستخط کرنے کو تیار نہیں، عمران خان نے بھی انہی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرخ فیتے کی رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔ یہ سرخ فیتے والے ہر طرح سے پی ٹی آئی کی حکومت کو ناکام بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ جیسے اسلام آباد سے میانوالی جانے والی سڑک پر عمران خان کی بنائی ہوئی نمل یونیورسٹی کے قریب چکڑالہ شہر کے باہر مین روڈ پر کئی کئی فٹ گڑھے پڑے ہوئے ہیں اور ان گڑھوں کو کئی ماہ ہو گئے ہیں، روز وہاں گھنٹوں ٹریفک رکی رہتی ہے مگر ڈپٹی کمشنر میانوالی اس کی طرف توجہ ہی نہیں دے رہے۔ میانوالی ملتان روڈ قتل گاہ بنی ہوئی ہے، گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول سرائے مہاجر ضلع بھکر کی نویں جماعت کی 7طالبات کو ٹریفک حادثہ نے نگل لیا، ادھر اپنے گھر کا واحد کفیل موٹر سائیکل رکشہ ڈرائیور بھی جان سے گیا ہے مگر بیورو کریسی ہے کہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بھی کہا ہے کہ ’’نظامِ حکومت میں بیوروکریسی ریڑھ کی ہڈی ہے، یہ خراب ہو جائے تو تھراپی کرانا پڑتی ہے، جس نے کرپشن کی ہے اس کو آکر حساب دینا پڑے گا‘‘۔ یہ کہا جارہا ہے کہ بیورو کریسی کے کام نہ کرنے کی وجہ صرف اور صرف اتنی ہے کہ موجودہ حکومت کرپشن کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اور بیوروکریسی کا تو تنخواہ سے کچن بھی نہیں چلتا ۔باقی اخراجات کہاں سے پورے کرے۔

تازہ ترین