• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رومانٹک فلموں کا دور تھا، پیار و محبت اور قربانی کے جذبے کے تحت فلمیں بنائی جاتی تھیں۔ کبھی ہیرو غریب ہوتا اور ہیروئن کسی بڑے نواب کی بیٹی ہوتی تو کبھی ہیروئن کا تعلق کسی غریب گھرانے سے ہوتا تو ہیرو کسی بڑی کاروباری شخصیت کا چشم و چراغ ہوتا۔باپ، رشتہ داروں اور دھن دولت کی شکل میں ظالم سماج ان محبت کرنے والے ہیرو ہیروئن کے راستے میں آتا لیکن جیت آخر محبت کی ہوتی اور ظالم سماج جو دولت کی شکل میں رکاوٹ بنتا، فلم کے آخر میں اسے اپنی غلطی کا اعتراف کرنا پڑتا کہ وہ محبت کی راہ میں دیوار بنا لیکن وہ اپنی غلطی پر نادم ہے اور محبت کرنے والوں کو اکٹھا کرکے اپنی غلطی کا کفارہ ادا کرتا، یا ان رومانٹک فلموں میں یہ ہوتاکہ اس وقت ہیرو یا ہیروئن کو کوئی خطرناک بیماری لاحق ہوجاتی جب دونوں کی محبت عروج پر ہوتی اور ان میں سے ایک موت کی وادی میں گم ہو جاتا اور ہیرو یا ہیروئن بھی اپنی محبت کے یوں دور ہوجانے کے غم کو برداشت نہ کرپاتااور کچھ عرصے بعد وہ بھی کھانستا خون تھوکتا اپنی محبت کے غم میں دنیا چھوڑ جاتا یا فلموں میں کبھی ماں کا پیار اور ایسی قربانی دکھائی جاتی جس میں بیوہ ہونے کے باوجود ماں لوگوں کے گھروں کے برتن مانجھتے اور دوسروں کے گھروں میں جھاڑو لگاتے ہوئے اپنے بیٹے کو پڑھاتی اور جب بیٹا بڑا ہو کر کسی بڑے گھرانے کی بیٹی سے شادی کرلیتاتو اپنی اس ماں کو نظر انداز کردیتا جس نے اسے بڑی مشکل سے پالا پوسا تھا اور پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنایا تھا لیکن وہ دولت اور امارت کے چکر میں اپنی جنّت کو بھول جاتا یا فلموں میں یہ بھی دکھایا جاتا کہ بڑا بھائی ٹیکسی چلا کر یا محنت مزدوری کرکے اپنے بھائی کو پڑھاتا ہے بڑا آدمی بناتا ہے اور پھر وقت کا فرعون اس چھوٹے بھائی کی آنکھوں میں ایسی چربی چڑھا دیتا ہے کہ وہ اپنے باپ جیسے بڑے بھائی کو دھکے دکر گھر سے نکال دیتا ہے، اس طرح ان فلموں کا میوزک بھی کانوں میں رس گھولنے والا ہوتا تھا مثلاً عشق سچا ہے تو پھر وعدہ نبھانا ہوگا، یا اسی طرح
”دو پیا سے دل ایک ہوئے ہیں ایسے
بچھڑیں گے اب کیسے
ایک فلم آئی تھی” میرا نام ہے محبت“ جس میں اس وقت کے غیرمعروف اور نو آموز فلمی جوڑے نے کام کیا تھا جن کا نام غلام محی الدین اور بابرہ شریف تھا اور اس کا یہ گانا بڑا مقبول ہوا تھا
یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم
کہانی محبت کی زندہ رہے گی
غیر معروف فنکاروں کے باوجود اس فلم نے بڑا بزنس کیا تھا۔ یہ فلمیں اس لئے بھی بہت مقبولیت حاصل کرتی تھیں کہ لوگ بڑے سادہ ہوتے تھے، ان کے دلوں میں پتھر کی وہ سختی نہ تھی جو آج کل محسوس ہوتی ہے کرپشن اور بدنیتی کو بہت برا سمجھا جاتا تھا لوگ ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں دکھاوے کیلئے نہیں بلکہ فرض سمجھ کر شریک ہوتے تھے، چھوٹے بڑوں کا ادب کرتے تھے شاگرد اساتذہ کا احترام کرتے تھے اور اساتذہ تعلیم دینے کو محض نوکری نہیں بلکہ عبادت سمجھتے تھے۔لیکن پھر اچانک ان فلموں کا دور بھی ختم ہو گیا اور ان کی جگہ ایک ایسے ہیرو کی فلموں نے مقبولیت حاصل کرنا شروع کردی جس کا گیٹ اپ یا شکل و صوت اس طرح کی نہیں تھی کہ لوگ اس سے دل ہی دل میں محبت کرنے لگیں لیکن وہ جب بھی اسکرین پر نمودار ہوتا فلم بین سیٹوں پر کھڑے ہو جاتے سیٹیاں بجاتے اور نعروں سے اس کا استقبال کرتے اور یہ ہیرو تھا سلطان راہی جس کے اسکرین پر آتے ہی یہ للکار ہوتی”اوئے جاگیردارا“ اور پھر وہ بانس پر لگے ہوئے ایک ٹوکے کی مدد سے نہ جانے کتنے لوگوں کا خون کردیتا اس کے کپڑے جو پہلے ہی کوئی اتنے اجلے نہ ہوتے تھے ان سے خون ٹپکنا شروع ہو جاتا، اس کشت و خون کے دوران اگر پولیس آجاتی تو وہ اسے گرفتار نہ کرسکتی اور وہ یہ کہہ کر اپنے گھوڑے پر بیٹھ کر فرار ہو جاتا کہ ”اوئے ڈپٹی توں سارے ملک دی پلس وی لے آویں تے مولے نوں گرفتار نہیں کرسکدا“(تم اگر سارے ملک کی پولیس بھی اکٹھی کرکے لے آؤ تم مجھے گرفتار نہیں کرسکتے) اور پھر وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتا اور فلم بین اس کی اس للکار، کشت و خون اور فرار کو تالیاں اور سیٹیاں بجا کر داد دیتے اس کی وجہ مولا جٹ کا اس ظالم سماج کے خلاف قتل و غارت کرنا اور اسے برا کہنا تھا جوحقیقت میں ہمارے معاشرے میں پیدا ہو چکا تھا اور کوئی قانون اور پولیس ان کا کچھ بگاڑ نہ سکتی تھی، اس لئے لوگوں نے اب فارمولا فلموں کو چھوڑ کر ایسی فلموں کو پسند کرنا شروع کردیا تھا جس میں ان ظالموں کے خلاف آواز اٹھائی جاتی تھی جو ہر طرح سے مضبوط تھے اور لوگ ان کے آگے ہاتھ جوڑے کھڑے رہتے اور کوئی ان کے کسی بھی قدم کو روکنے کی جرأت نہ کرتا اور یوں تقریباً ایک ساٹھ سالہ ہیرو جو ہیروئن سے بھی اکھڑے لہجے میں بات کرتا لوگوں کا مقبول ترین ہیرو بن گیا تھا۔مہنگائی، بجلی، گیس اور پٹرول کی قلت سے تنگ آئی ہوئی عوام، بے روزگاری اور معاشرتی ناہمواری میں پسے ہوئے لوگ کرپشن کے ذریعے لوٹ مار سے بیزار شہری اور میرٹ کے خلاف نوازنے کی پالیسیوں سے اکتائے ہوئے اٹھارہ کروڑ عوام بھی اب روٹی کپڑا اور مکان کی رومانوی سیاست سے نکل آئے ہیں اور وہ ہرا س مولاجٹ کے پیچھے چل پڑتے ہیں جو ایسے حکمرانوں یا جاگیرداروں کو للکارتا ہے جنہوں نے عوام کو ریلیف دینے کیلئے کچھ نہیں کیا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون مولا جٹ ہوگا جو کرپشن، اقرباپروری اور ملکی وسائل کو لوٹنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچا کر موجودہ نظام سے بے زار عوام کو ریلیف دے گا۔
تازہ ترین