• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’اَرتھ ڈے‘‘ اسپیشیز کا تحفظ وقت کی اہم ضرورت ہے

کل یعنی22اپریل کو دنیا بھر میں اَرتھ ڈے (Earth Day) منایا جائے گا۔ اس دن کو منانے کا مقصدعالمی سطح پریہ شعور اُجاگر کرنا ہے کہ زمین پر زندگی اور استحکام کے لیے بہتر ماحولیاتی نظام بے حدضروری ہے۔ اس دن دنیا بھر کے ممالک میں مختلف طریقوں سےزمین سے محبت کا اظہارکیا جاتاہے۔ اس سلسلے میں تقاریب، سیمینارز، لیکچرز اور ریلیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے، جن میں شرکاء سے ماحول کو صاف رکھنے، فضائی آلودگی پھیلانے سےگریز کرنے اور شجرکاری کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہیں۔ اس دن زمین کو ماحولیاتی آلودگی سے ہونے والے نقصانات کے پیش نظر درپیش چیلنجز سے نمٹنے اور تحفظ پر بھی غورکیا جاتا ہے۔

’ اسپیشیزکا تحفظ :انسانی بقاء کیلئے ضروری‘

ہر سال اس دن کو ایک خاص عنوان سے منسوب کیا جاتا ہے، اس برس کا عنوان ’’اسپیشیزکا تحفظ ‘‘ ہے۔ ہمارا سیارہ قدرت کے ان گنت تحفوں سے مالا مال ہے، ان ہی میں سے ایک اہم تحفہ مختلف اقسام کے اسپیشیزہیں۔

قدرت نے ہر چیز کو ایک توازن میں پیدا کیا ہے لیکن انسان کی مختلف سرگرمیاں اس توازن میں بگاڑ کا سبب بن رہی ہیں جس کا نتیجہ ناپیدگی (کسی جاندار کی نسل کا ختم ہو جانا) کی صورت بھی سامنے آرہا ہے۔ مثلاًڈائناسور کی ہی مثال لے لیں 600سال قبل ڈائنوسار کی نسل دنیا سے نابود ہوچکی ہے۔ ڈائناسور ہی نہیں، اس کے علاوہ بھی سینکڑوں جنگلی اور زیر آب جانداروں کی نسل مختلف انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں تیزی سے معدومیت کا شکار ہورہی ہے۔

گزشتہ برس اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات کی جانب سے جاری اعداد وشمار میں بتایا گیا کہ مختلف انسانی سرگرمیاں جنگلی حیات کے لیے نقصان کا باعث بنتی ہیں۔ 1970ء سے 2018ء کے دوران اس کا نتیجہ60فیصد جنگلی حیات کے خاتمے کی صورت نکلا اور یہ سلسلہ یہاں رُکا نہیں بلکہ آج بھی بیشتر جنگلی حیات اور ان کی خاص انواع و اقسام معدومی کے خطرات سے دوچار ہیں۔

ہم بھی عزم کریں!

اس خاص دن ہم بھی عزم کریں کہ زمین پر ہر اس سرگرمی کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کریں گے، جو اسپیشیز کی معدومیت یا ان کی بقاء کے لیے خطرہ بن رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ان تمام کوششوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے، جو ماحولیات کے ساتھ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیےبھی ضروری ہیں۔ قدرت نے اس روئے زمین پر سب سے پہلے انسان کو اُتارا اور اسے بسانے کے لیے ایک قدرتی نظام وضع کیا۔ اس نظام میں جنگلی حیات ( درخت، جانور، پرندے اور مچھلیوں سمیت دیگر آبی حیات اور رینگنے والے مختلف انواع اقسام کےجاندا روں) کی تخلیق بھی کی گئی لیکن انسان کی بیشتر سرگرمیاں جیسے کہ جنگلات کی کٹائی،منہدم عمارات،غیر قانونی شکار، غیر قابل قدر ذراعت، ٹریفک کے مسائل، آلودگی اور کیڑے مار ادویات کامتواتر استعمال غیر معمولی عالمی تباہیوں اور جنگلی حیات کی تعداد میں نمایاں کمی کا باعث بن رہی ہیں۔ اگر ہم نے اب بھی اس بارے میں نہیں سوچا تو ان اسپیشیز کی تعداد وقت کے ساتھ ساتھ نابود ہوجائے گی۔ ماہرین اس حوالے سے چند بنیادی نکات بیان کرتے ہیں، جو اس مسئلے کا مناسب حل بھی ہیں۔

٭اس دنیامیں تمام جاندار، چاہے وہ آبی حیات ہی کیوں نہ ہوں، ایک خاص کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی سبب انسان کی طرح یہ تمام اسپیشیز بھی اہمیت کی حامل ہیں۔ مثلاًگدھ مردار جانور کا گوشت کھاتا ہے، اگر وہ یہ مردار گوشت نہ کھائے تو روئے زمین پر کئی جان لیوا بیماریوں کے خطرات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ آبی حیات کی بات کریں تو سمندر میں موجود کئی اسپیشیز (سمندری کچھوے اور مچھلیاں) کی ذمہ داریوں میں سمندری پانی کی صفائی اور ان بیکٹیریا کو کھانا ہے، جو پانی کو زہر آلود کرنے کے ساتھ ساتھ آبی حیات میں بھی منتقل ہوجاتے ہیں۔ ہم سب کو مل کر تمام اسپیشیزمثلاًشہد کی مکھیوں، مونگوں، ہاتھی، زرافہ، شارک، وہیل اور دیگر آبی و زمینی حیات کی نسلوں کو تحفظ دینے کے حوالے سے اقدامات کرنے ہوں گے۔

٭آبی حیات کی معدومیت کے پیش نظر ہمیں مچھیروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آبی حیات کے شکار کا عمل اعتدال پر مبنی ہو۔

٭سمندر میں پھینکے جانے والے کوڑا کرکٹ کے سبب ہر سال لاکھوں آبی حیات مرجاتی ہیں۔ اس حوالے سے عوامی سطح پر شعور وآگہی بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو سمجھانا ہوگا کہ سمندر میں پھینکا گیا کوڑا کرکٹ کس قدر نقصان کا سبب بنتا ہے۔

٭پلاسٹک کے نقصان کے پیش نظر اس کا استعمال کم سے کم کرنا ہوگا اور استعمال شدہ پلاسٹک کو پھینکنے کے بجائے ری سائیکل کرنا سیکھنا ہوگا۔

٭ جنگلی حیات کیلئے جنگل بہترین پناہ گاہ ہوتا ہے۔ اس سے بہتر اور سازگار ماحول جانوروں کے لیے کوئی نہیں ہوسکتا لیکن تیزی سے درختوں کی کٹائی اور لکڑی جلائے جانے کے عمل پر غوروفکر کرنا ہوگا۔ اس کے بجائے شجر کاری مہم میں پر زور دینا ہوگا۔ 

تازہ ترین