• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خدیجہ مغل

 پیارے بچو!بہت دنوں کی بات ہے ۔بغداد میں ایک سوداگر رہتا تھا، جس کا نام ابو قاسم تھا۔وہ بہت کنجوس تھا۔ایک ایک پیسے پر جان دیتا تھا۔ وہ انہیں روز گنتا اور بہت خوش ہوتا۔

دن، رات اسی فکر میں رہتا کہ کسی طرح اس کی دولت مزید بڑھتی رہے۔ سارے بغداد کو معلوم تھا کہ ابو قاسم بہت امیر آدمی ہے۔لیکن وہ اپنے آپ کو بہت غریب آدمی ظاہر کرتا اور کہتا تھا کہ وہ روکھی سوکھی کھا کر گزارا کرتاہے۔اس کےکپڑوں پر جگہ جگہ پیوند لگے ہوئے تھے اور اتنے گندےکہ دیکھنے سے ہی گھن آتی تھی۔ اس کے جوتے؟توبہ توبہ جوتے تو ایسے کہ بھکاریوں کے پاس بھی اس سےاچھے جوتے تھے ان جوتوں کی اتنی دفعہ مرمت ہوئی تھی کہ اصل چمڑا غائب ہو گیا تھا اور پیوند ہی پیوند دکھائی دیتے تھے۔

ابو قاسم کے دوست اس سے کہتے تھے۔’’میاں تم نے تو بھکاریوں کو بھی مات دےدی،ارے بھئی اب تو نئے جوتے خرید لو۔ان کی جان چھوڑ دو۔وہ کہتاتھا،’’ابھی تو یہ بہت چلیں گئے،پھینک کیسے دوں؟‘‘

ابو قاسم روازنہ بازار جاتا پرانامال بیچتا اور نیا خریدتا اور خوب نفع کماتا تھا۔ اس کی دولت بڑھتی جارہی تھی ایک دن اس نے بہت سی خوبصورت نازک سی شیشیاںخریدیںاورعمدہ عطر خرید کر گھر لے آیا۔اس نے شیشوں میں عطر بھرا اور خوش ہو کر بولا،آہا! یہ عطربیچ کر خوب منافع کماؤں گا۔اسی خوشی میں اس نے سوچا کہ آج کسی شاندار حمام میں غسل کرنا چاہیے۔قاسم حمام میں گیا تو وہاں کچھ دوست مل گئے ،انہوں نے اسکے پھٹے پرانے جوتے دیکھے تو بولے بھئی اگر پیسے نہیں خرچ کرنا چاہتے تو ہم سے لے لو، مگر خدارا یہ جوتے تبدیل کر لو۔قاسم نے ہنس کر بات ٹال دی۔ اس نے اپنے جوتے اور کپڑے اتارکر حمام کے باہرایک طرف رکھ دیے اور غسل خانے میں گھس گیا۔اتنے میں شہر کا کوتوال حمام میں نہانے کے لیے آیا۔اس نے بھی کپڑے اور جوتےحمام کے باہر رکھےاور دوسرے غسل خانے میں چلا گیا۔ابو قاسم غسل کر چکا تو باہر نکلا اور کپڑے پہننے لگا۔

اب جو اس کی نظر جوتوں پر پڑی تو ہکا بکا رہ گیا ۔اس کے پھٹے پرانے جوتوں کے بجائے با لکل نئے جوتے رکھے ہوئے تھے۔ابوقاسم کچھ دیر تو سر کھجاتا رہا پھر اس نے سوچا۔شایدمیرے دوستوں نے میرے لیے نئے جوتے خریدے ہیں۔چلو مفت میں جوتے مل گئے۔میرے پیسے بچ گئے۔یہ سوچ کر اس نے جوتے پہن لیے اور خوشی خوشی گھر کی طرف چل دیا۔ یہ حرکت مسخرے کی تھی جس نےنے ابوقاسم کے جوتے اٹھا کر کوتوال کے کے کپڑوں کے پاس رکھ دیے اور کوتوال کے جوتے ابوقاسم کے کپڑوں کے پاس رکھ دیےتھے۔کوتوال باہر نکلا تو اپنے جوتوں کی جگہ گندے بوسیدہ جوتے دیکھ کر غصے سے آگ بگولہ ہوگیا۔اس کے سپاہیوں نے حمام کا چپا چپا چھان مارا، مگر جوتے نہ ملے۔ملتےبھی کیسے وہ تو ابوقاسم پہن کر چلاگیاتھا۔

ابوقاسم کے جوتے سارے شہر میں مشہور تھے۔لوگوں نے دیکھتے ہی پہچان لیاکہ یہ اس کے جوتے ہیں۔کوتوال نے حکم دیا کہ ابوقاسم کو اس کے سامنے پیش کیا جائے۔

اس نے نئے جوتے خریدنے کی بجائے ہمارے جوتے چرالیے ہیں۔سپاہیوں نے جاتے ہی ابوقاسم کی مشکیں کس لیں اور اسے گھسیٹتے ہوئے کوتوال کے پاس لے آئے۔کوتوال نے اسے ایک ہزار روپے جرمانہ کیا اور اپنے جوتے واپس لے لیے اور اس کے واپس کر دیے۔

ان جوتوں کی وجہ سے سارے بغداد میںاس کی بدنامی ہوئی اور اسے ایک ہزار روپے سے ہاتھ دھونے پڑے۔اس نے سوچا یہ جوتے مصیبت ہیں انہیں کہیں دور پھینک دینا چاہیے۔اس نے گھر آکر کھڑکی کھولی اور جوتوں کو باہر پھینک دیا۔کھڑکی کے نیچے دریا بہتا تھا۔جوتے دریا میں جا گرے۔دوسرے دن مچھیرے نے دریا میں جال ڈالا جال میں مچھلیوں کی بجائے ابوقاسم کے جوتے پھنس گئے ،جس سے مچھیرے کا جال جگہ جگہ سے کٹ گیا کیوںکہ جوتوں میں جگہ جگہ کیلیں باہر نکلی ہوئی تھیں۔مچھیرا غصے میں آگیا ۔اس نے جوتے اٹھائے اور ابوقاسم کی کھڑکی کے اندر پھینک دیے۔

کھڑکی کے پاس عطر کی شیشیاں پڑی تھیں۔جوتے پٹاخ سے شیشیوں پہ گر ے۔شیشیاں فرش پر گر کر چور چور ہوگئیں اور سارا عطر بھی بہہ گیا۔بے چارہ ابوقاسم سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔

اس کا سینکڑوں کا نقصان ہو گیا تھا۔اب تو ان جوتوں کی شکل سے نفرت ہوگئی تھی۔اس نے سوچا اسے ایسی جگہ پھینکنا چاہیے، جہاں سے کسی کو بھی نہ ملیں۔ا س کےذہن میں ایک ترکیب آئی۔وہ خوش ہو کر بولا،بس یہ ٹھیک رہے گا زمین میں دبا دوں ،ابوقاسم اپنے باغ میں گیا اور گڑھا کھودنے لگا۔ایک پڑوسی ادھر نکل آیا ۔اس نے ابوقاسم کو گڑھا کھودتے ہوئے دیکھا تو دل میں کہنے لگا۔ضرور اسے کوئی خزانہ ملا ہے جب ہی یہ گڑھا کھود کر دبا رہا ہے۔میں ابھی جاکر وزیر کوبتاتا ہوں۔بادشاہ کا حکم تھا جب کسی کو خزانہ ملے تو فورا حکومت کو خبر کردے ورنہ سخت سزا ملے گی۔وزیر نے ابوقاسم سے پوچھا،بتاؤ خزانہ کدھر ہے؟اس نے کہا ،’’حضور خزانہ کیسا؟میں تو اپنے جوتے زمین میں دبا رہا تھا‘‘۔

وزیر بولا،کوئی جوتے بھی زمین میںدباتا ہے؟ضرور تمھیں کوئی خزانہ ملا ہے۔سچ سچ بتاؤ ورنہ ایسی سزا دوں گا عمر بھر یاد رکھو گئے۔ابوقاسم بہت چیخا چلایا،قسمیں کھائیں، مگر وزیر نے ایک نہ مانی اور اس پر دس ہزار روپے جرمانہ کردیا۔وہ روتا پیٹتا گھر آیا۔یہ جوتے اس کے لیے عذاب بن گئے تھے،ان کی وجہ سے اسے ہزاروں روپے کا نقصان ہو گیا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ اسے ایسی جگہ پھینک دے،جہاں سے کبھی بھی نہ مل سکیں۔دوسرے دن ابوقاسم صبح سویرے نکلا اور دوسرے شہر چلا گیا یہاں ایک تالاب تھا۔اس نے جوتے تالاب میں ڈال دیےاور اس وقت تک انہیں دیکھتا رہا جب تک وہ مکمل ڈوب نہ گئے۔تب اس نے سکون کا سانس لیا اور گھر کی راہ لی۔لیکن وہ تا لاب کوئی معمولی تا لاب نہیں تھا،اس تالاب سے پائپ کے ذریعے بغداد کو پانی جایا کرتا تھااور یہی پانی سارا شہر استعمال کرتا تھا۔ابو قاسم کے جوتے بہتے بہتے پائپ تک پہنچ گئے اور ااس میں ایسے پھنسے کہ پائپ کا منہ بند ہو گیا۔اس دن بغداد کے لوگوں کو پانی کی ایک بوند نصیب نہ ہوئی۔سارے شہر میں شور مچ گیا۔بادشاہ کے سپاہی دوڑے دوڑے تالاب پر گئے۔دو آدمی کشتی میں بیٹھے اور تالاب کھنگالا تو ان کے ہاتھ جوتے آئے۔سپاہی دیکھتے ہی پہچان گئے کہ یہ ابوقاسم کے جوتے ہیں۔

اس دفعہ ابوقاسم کو ایک مہینہ جیل میں رہنا پڑا اور دس ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا پڑا۔اس کے بعد اس نے سوچا جوتے جلا دیے جائیں لیکن جوتے گیلے تھے تو وہ انہیں سکھانے کے لیے چھت پر لے جا رہا تھا اس کے ساتھ اس کاکتا بھی تھا۔نیچے بادشاہ سلامت کی سواری گزررہی تو کتے نے جوتے کو ٹھوکر مار کر نیچے گرادیا ۔جوتا بادشاہ سلامت کے سر پر جا لگاتوسپاہیوں نے اسے گرفتار کرلیا۔اس کو دو سال کی قید کی سزا ہوئی۔اور ساٹھ ہزار روپے جرمانہ۔اب ابوقاسم نے بادشاہ سلامت کو ساری کہانی سنائی اور سزاکم کرنے کی درخواست کی۔بادشاہ نے اس کی سزا معاف کردی اس نے اپنی کنجوسی کی وجہ سے بہت نقصان اُٹھایا۔

تازہ ترین