• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف جتنا کچھ کہا ہے اس کے بعدچاہئے تو یہ تھا کہ ان کا لانگ مارچ چند ہزار لوگوں تک محدود رہ جاتا ۔صرف انہی چند ہزار کارکنوں تک جو ادارہ منہاج القران کے ساتھ وابستہ ہیں مگر لوگوں نے میڈیا کی باتیں نہیں مانیں ،تقریباً نوے فیصد کالم نگاروں نے جو کچھ لکھ سکتے تھے۔ لکھا، تقریباًاتنے فیصد ٹی وی اینکرز نے بھی و ہی کچھ کہا جو کچھ کالم نگار کہہ رہے تھے۔تقریباً اتنی فیصد خبریں بھی ان کے خلاف ہی شائع ہوئیں،باوجود پوری کوشش کے ڈاکٹر طاہر القادری میڈیا کو اپنے ساتھ نہ ملا سکے۔
میرا سوال کچھ اور ہے ۔میں یہ بات سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں کہ میڈیا کی تمام تر مخالفت کے باوجود عوام نے ڈاکٹر طاہر القادری کا کیوں ساتھ دیا۔کیا لوگوں کا میڈیا سے یقین اٹھ چکا ہے ۔ کیا وہ میڈیا جس پر مادر پدر آزاد ہوجانے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ کیا حقیقت میں وہ آزاد نہیں ہے۔کیوں ٹی وی اینکر کیوں صرف ایسے لوگوں کی تلاش میں رہے جو ان کے پروگرام میں آکر ڈاکٹر طاہر القادری کی کردار کشی کریں یا ان کے خلاف بات کریں۔ کیوں مجھ جیسے برطانیہ میں مقیم کالم نگارکو بھی مختلف احباب سے بار بار یہی کہلایا جاتا رہا کہ اگر ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف کچھ نہیں لکھ سکتے تو اتنی مہربانی کیجئے کہ اس کے حق میں کالم مت لکھئے۔ میں یہ بھی نہیں تسلیم کر سکتا کہ اہل قلم و اہل آواز ڈاکٹر طاہر القادری کے سلسلے میں کسی دباؤ کا شکار ہوگئے تھے،کیونکہ اس میدان میں مجھ سے بھی بڑے سر پھرے موجود ہیں مگر یہ سوال اپنی جگہ سلگ رہا ہے کہ میڈیا نے وفاقی اور پنجاب کی حکومت کا ساتھ کیوں دیا۔یہ لوگ صرف جمہوریت کے تسلسل کے نام پرتو بے وقوف بننے والے نہیں۔ دال میں کالا نہ سہی مگر کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔وہ سینئرکالم نگار جو مسلسل ابھی تک یہی کہہ رہے ہیں کہ قافلہ ء حجاز میں ایک بھی حسین نہیں۔انہیں یہ دکھائی نہیں دے رہا ہے کہ لانگ مارچ میں شریک ہونے والے تمام لوگ یہ جانتے ہوئے بھی کہ دہشت گردی کے اس موسم میں کسی لانگ مارچ میں شامل ہوناجان ہتھیلی پر رکھنے کے مترادف ہے گھروں سے نکل پڑے ہیں۔
بے شک ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی زندگی میں کئی غلطیاں کی ہوں گی مگر وہ غلطیاں سات آٹھ بر سراقتدار خاندانوں کے ماضی اور حال کے کارناموں سے کئی ہزار گنا کم تر نظر آتی ہیں۔جنہوں نے اپنے گندے اور گناہ آلودہ جسم ڈھانپے کیلئے سارے ملک کو ہی ننگا کردیا ہے ۔پھر ان کے مقابلہ میں ڈاکٹر طاہر القادری جو کچھ کہہ رہے تھے اس کی سچائی سے کسی کو نہیں انکار تھا ۔سب لوگ مان رہے تھے کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ بات درست ہے مگر غلط وقت پر آئے ہیں ۔ اس وقت ان کی آمد جمہوریت کے خلاف ایک سازش ہے ۔وہ کسی اور کے اشارے پر آئے ہیں ۔وہ غیر جمہوری قوتوں کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ مگر عوام نے میڈیا کی بات نہیں تسلیم کی اور ڈاکٹر طاہر القادری کے کہنے پر گھروں سے نکل پڑی ،چوروں اور لٹیروں کے خلاف ،جنہوں نے جمہوریت کے نام پرغریب عوام کی زندگی گالی بنا کررکھ دی ہے۔عوام کا سانس رک رک کر آرہا ہے ۔پیپلز پارٹی کی حکومت نے برسوں پرانے اپنے نعرے روٹی ،کپڑا اور مکان کے نعرہ کا مفہوم الٹادیا ہے یعنی گذ شتہ پانچ سال میں یہ حکومت عوام کو روٹی کپڑا اور مکان دینے کی بجائے یہی تینوں چیزیں اس سے چھینتی رہی ہے۔پنجاب میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا ہے ۔
خار دار تاروں اور کنٹینروں کی دیواروں کے باوجود لوگ ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ تک پہنچ گئے۔آج کے دن شریف زرداری اور آصف نوازنجومیوں سے حساب کتاب کراتے رہے۔فالیں نکلتی رہیں ،علمِ اعداد کے ماہرین سے پوچھا جاتا رہا۔سب یہی کہتے رہے کہ اگلے72گھنٹے بڑے نحس ہیں سعد ساعتیں بہت دور کھڑی ہیں مگر ابھی تک رویوں میں کوئی لچک نہیں آئی۔ابھی تک اہل سرمایہ اس یقین کے ساتھ ہیں کہ وہ اپنے سرمائے کی قوت سے عوام کو ایک بارپھر دھوکہ دے کرملک پر قابض ہوجائیں گے ۔ اور لوٹ کھسوٹ کا ایک نیا دور شروع ہوجائے گا۔انہیں یقین نہیں رہا کہ عوام کا پیمانہ صبر بھر چکا ہے جب کہ حقیقت میں عوام اس مقام تک پہنچ گئے ہیں جہاں تخت گرائے جاتے ہیں اور تاج اچھالے جاتے ہیں ۔ڈاکٹرطاہر القادری کو ایک مولانا سمجھنے اور کہنے والے یہ بھول رہے ہیں کہ ماضی قریب میں ایک مولانانے ایران کے بادشاہ کو اس مقام تک پہنچا دیا تھا کہ دنیا کا کوئی ملک اسے مرنے کیلئے بھی جگہ فراہم کرنے کوتیار نہیں تھااب وہ وقت آنے والا ہے جب خاندانِ شریف زرداری و آصف نواز کو سعودیہ اور دبئی والے بھی آخری آرام گاہیں فراہم کرنے سے انکار کردیں گے ۔بیچارے زردار ملک تو کسی حساب کتاب میں بھی نہیں آتے ۔ اسلام آباد میں آنے اور دھرنے دینے والوں سے اسلام آباد کا کرایہ مانگنے والے رحمن ملک کو ابھی تک یہی سمجھ رہے ہیں کہ اسلام آباد زرداری ہاؤس کا نام ہے جب کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا لفظ لفظ یہی کہہ رہا ہے یہ شہر پاکستانی عوام کی ملکیت تھا ،ملکیت ہے اور ملکیت رہے گا اوراس بات کی وضاحت کر رہا ہے کہ اب یہ شہر نواز شریف ہاؤس میں بھی نہیں بدل سکے گا بلکہ بہت جلدلاہور بھی جاتی عمرہ کے مضافات سے باہر آ جائے گا۔
میں بلوچستان میں گورنر راج کوتبدیلی کی پہلی دستک سمجھتا ہوں اور یہ دستک کہہ رہی ہے کہ تبدیلیوں کے پھاٹک کھلنے والے ہیں کہ87میتیں اگر بلوچستان کی حکومت ختم کر سکتی ہیں جو سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود ختم نہیں کیا گیا تھا تو یہ زندہ لوگوں کا لانگ مارچ ہے ۔یہ کیا کچھ کر سکتا ہے۔کیا منظرنامہ سامنے لا سکتا ہے اس کا کچھ زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا اب بات ہفتوں یا دنوں کی نہیں گھنٹوں کی ہے ۔لوگوں کی نظریں دونوں بڑے اداروں کے چیفس کے چہروں پر جمی ہوئی ہیں اور کوئی لاکھوں آنکھوں سے نکلتی ہوئی التجابھری نظروں کو کب تک اپنی چہرے پر برداشت کرسکتا ہے۔
تازہ ترین