• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کون نہیں جانتا کہ زندگی کی طرح اقتدار یا حکمرانی بھی عارضی چیز ہے مگر اُس کے باوجود لوگ جب کرسی پر بیٹھتے ہیں تو خود کو کم از کم تیس مار خاں ضرور سمجھنے لگتے ہیں۔ کسی کا ظرف یا کمینہ پن دیکھنا ہو تو اُس کا اُس کے مخالفین کے متعلق اظہارِ خیال یا لب و لہجہ ملاحظہ فرما لیجئے۔ 72سالوں میں ہم نے کئی حکومتیں آتی جاتی دیکھی ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ ’بڑے پن‘ کے جو ریکارڈ ہماری موجودہ ہستیوں نے بنائے یا توڑے ہیں، وہ بے مثال ہیں۔ ہمارے ایک اور دوست ہیں جن کاا یک تھڑے سے دوسرے پر تبادلہ ہوا ہے، ماشاءاللہ اتنے ’سچیار‘ ہیں کہ ہمسائیگی میں انتخابی مہم چلانے والا مودی بھی اُن کے سامنے اپنی شکست وریخت تسلیم کر لے۔

خدا کے بندو کچھ خدا سے ڈرو، اپنا الو کو سیدھا کرنے کے لئے قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر کیوں رسوا و ذلیل کر رہے ہو۔ کونسی تبدیلی؟ کہاں کی ایمانداری؟ کیسا انقلاب؟ وفا کیسی؟ کہاں کا عشق؟ جب سر پھوڑنا ٹھہرا ... تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو؟۔ وہ مسکین ومظلوم اور سیدھا آدمی درست کہتا تھا کہ میرا رولا آپ لوگوں سے نہیں ہے، تنازع تو کسی اور سے ہے۔ آپ لوگ تو خواہ مخواہ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانے بنے بیٹھے ہو۔ کیا اب بھی کوئی ثبوت چاہئے؟ ایک دن پہلے تک سب کچھ نارمل تھا۔ قومی معیشت کی ڈوبتی کشتی تیرتی دکھائی جا رہی تھی۔ معیشت سنوارنے ہی کے نہیں ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کے سہانے سپنے دکھائے جا رہے تھے، پھر اگلے ہی روز اچانک ماورائی پیغام آیا، یہ ہماری دور دور کی کوڑیاں لانے والے بزر جمہورے جو بقراطیاں جھاڑ رہے ہوتے ہیں، یوں نہلے پر دہلے پھینک رہے تھے کہ دراصل یہ پارٹی کے اندر گروپوں کی لڑائی ہے یہ فلاں کھلاڑی یا کپتان کی دانائی ہے۔

ہماری وہ معزر خاتون جو خواہ مخواہ خواجہ آصف کی تنقید کا شکار ہوئی تھیں، یوں پورے وثوق کے ساتھ لڑ رہی تھیں استعفیٰ؟ کون سا استعفیٰ؟ یہ جعلی ٹویٹ لگتی ہے۔ پوری قوم چیخ رہی تھی کہ تبدیلی کے نام پر لائی گئی اس مہنگائی کی آندھی نے اُن کا بھرتا بنا ڈالا ہے، بچہ بچہ تبدیلی کے معماروں کو غلط انداز نظروں سے دیکھنا شروع ہو گیا تھا، ایسی جگ ہنسائی تو آمریت میں بھی نہیں ہونے پائی تھی، جو سبز باغ دکھانے والوں نے کروا دی تھی۔جب ہمارے کپتان کو پتہ تھا کہ اگلی حکومت ان کی ہے تو حکومت ملنے سے پہلے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے پیشگی اقدامات کیوں نہ کئے گئے۔

8ماہ میں عام غریب آدمی کو دن میں تارے نظر آگئے بلکہ وہ چاند اور سورج کو بھی دو روٹیوں کی طرح دیکھ رہے ہیں، اس پر تبدیلی کا ایک وزیر فرماتا ہے کہ عوام دو روٹیاں نہ کھائیں، ایک پر ہی اکتفا کر لیں، کیا کل کو وزیر موصوف یہ بھی فرمائیں گے کہ عوام دو کپڑے بھی نہ پہنیں، ایک پر ہی اکتفا کر لیں۔ یہ ارسطوئے زماں کبھی کہا کرتا تھا کہ تیل 47روپے پر لے کر آئے گا مگر 8مہینوں میں غریب عوام کا تیل نکال دیا ہے اور نوید یہ سنائی جا رہی ہے کہ سمندر سے اتنا تیل نکلنے والا ہے کہ عرب والے پیچھے جائیں گے۔ غضب خدا کا آپ نے 3ارب ڈالر کا قرض واپس کیا ہے اور 17ارب ڈالر کا نیا قرض چڑھا دیا ہے۔ کرپشن کرپشن کے کھیل میں جن کو طعنے دیتے آپ لوگوں کے گلے خشک نہیں ہوتے، اُنہوں نے تو کم از کم ان قرضوں سے ملک میں ترقیاتی کام کروائے، سڑکوں کے جال بچھائے، موٹر ویز بنوائیں، آپ نے 8ماہ میں کیا کیا؟ دعوے تو 100دن میں انقلاب لانے کے تھے۔ قوم 100دن کے وعدے سے ویسے ہی پریشان ہو جاتی ہے۔ آپ نے 8ماہ میں جو کیا وہ کس کو نظر نہیں آرہا، اسٹاک ایکسچینج کس برے طریقے سے بیٹھ چکی ہے، لوگوں کے اربوں ڈوب چکے ہیں، 52ہزار پوائنٹس کو 34ہزار تک گراتے ہوئے شرح نمو 6سے 3پر آچکی ہے، ڈالر کی اڑان نہ معلوم کہاں جا کر ٹھہرے گی، IMFسے 8ارب ڈالر مزید آئیں گے تو کن شرائط کے ساتھ؟ کہاں گئی وہ خود کشی کی باتیں جو آج تریاق بتائی جا رہی ہیں۔’’قوم معاف کرے، ہمیں پتہ نہیں تھا‘‘ کس چیز کا پتہ نہیں تھا؟ ہر بات تو اعداد و شمار کی صورت لکھی ہوئی موجود تھی۔

8ماہ قبل دہائی دی جاتی تھی ہم لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے۔ معیشت کا یہی ایکسپرٹ مابعد یہ کہتا سنائی دیا کہ وہ تو سب سیاسی باتیں تھیں، حقائق تو یہ نہیں تھے۔ اب ٹیکس ایمنسٹی کا زور شور ہے۔ 8ماہ میں چار بجٹ پیش کرنے والا جاتے ہوئے یہ خبر بھی سنا گیا ہے کہ آنے والا بجٹ مشکل تر ہو گا۔ ماہرین معیشت یہ کہہ رہے ہیں کہ 8ماہ میں قومی معیشت کو پانچ سو ارب کا نقصان پہنچایا گیا، کیا اس کے بعد پوری ڈھٹائی اور بلند بانگ دعوئوں کے ساتھ پریس کانفرنس کرنا بنتا تھا کہ ’’فیصلہ تاریخ کرے گی‘‘۔ کشتی منجدھار میں ڈبو کر نوید سنائی جا رہی ہے کہ چڑھ جا بیٹا سولی، رام بھلی کرے گا۔ موصوف فرما رہے ہیں میں اس مریض کو ICUسے آپریشن تھیٹر میں لے آیا ہوں، دوسری وزارت کی پیشکش کی گئی ہے لیکن میں نے قبول نہیں کی، ویسے میں حاضر ہوں جب بھی مجھے بلایا جائے گا۔

تبدیلی کی تازہ لہر پر تبصرے تو بہت ہوئے ہیں مگر سب سے جاندار تبصرہ بڑے بھائی زبیر عمر کا ہے، فرماتے ہیں اس بربادی کا ذمہ دار میرا بھائی اکیلا تو نہیں ہے، نہ ہی تمام تر پالیسیاں وہ اکیلا بناتا تھا۔ پارلیمانی نظام میں مشترکہ ذمہ داری ہوتی ہے، جو اسے اوپننگ بیٹسمین اور شیڈو وزیر کہتے تھے، کچھ حصہ ان کا بھی ہے۔ اپوزیشن کے خیال میں تو اصل ذمہ داری کپتان کی ہوتی ہے۔ جو بھی ہے اس تبدیلی نے پہلے سے کمزور حکومت کو سخت سیٹ بیک پہنچایا ہے، بہت سے جوشیلے چہرے لٹک گئے ہیں۔ ایسے دانشور بھی موجود ہیں، جو اس کی کڑیاں IMFکی سخت شرائط سے ملاتے ہیں۔ 18ویں ترمیم کی موجودگی میں بحالی معیشت کے لئے اس نوع کے مطالبات تو آئیں گے شاید اسی پس منظر میں پارلیمانی نظام پر نزلہ گراتے ہوئے صدارتی نظام کے گن شروع کروائے جارہے ہیں۔ پی پی کے چیئرمین تو دیگر متنازع وزراء کے استعفوں کا مطالبہ بھی دہرا رہے ہیں لیکن بہت سے لوگ یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ بریگیڈیئر (ر)اعجاز شاہ اور اعظم سواتی جیسے متنازع لوگوں کو کیوں لا یا جا رہا ہے۔ نئی بحث پنجاب سے متعلق ہونے جا رہی ہے۔

تازہ ترین