• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کابینہ تنظیم نو، غیر منتخب ٹیکنوکریٹس کا راج، منتخب سیاستدان باہر

اسلام آباد (طارق بٹ) وزیر اعظم کی پہلی کابینہ تنظیم نو کا اہم نتیجہ یہ ہے کہ تمام اہم وزارتوں میں غیر منتخب ٹیکنو کریٹس نے جگہ بنالی ہے جبکہ زیادہ کیسز میں منتخب سیاستدان موثر انداز میں سائیڈ لائن کردئیے گئے۔ اس کے علاوہ غیر معمولی طور پر کپتان کی ٹیم میں اپنی تعداد بڑھاتے ہوئے پرویز مشرف کے مزید سابق معاونین اور ہم راز وں کو کابینہ میں جگہ مل گئی ہے۔ اگر یقین کرلیا جائے کہ وزیر خزانہ کی حیثیت سے اسد عمر کے عہدہ چھوڑنے کی وجہ مایوس کارکردگی اور معاشی میدان میں ناکامی ہے ، جیسا کہ سرکاری طور پر حوالہ دیا جارہا ہے تو فواد چوہدری، عامر محمود کیانی، غلام سرور خان اور شہریار آفریدی کو غیر اہم قلمدانوں کی منتقلی کے پیچھے بھی یہی وجہ ہے۔ اہم محکمے رکھنے والے ان چاروں وزراء کو ادنیٰ عہدے دے دئیے گئے ہیں اگرچہ انہوں نے اسد عمر کے برعکس عہدے رکھ لئے جنہوں نے وزیر اعظم کی جانب سے کوئی اور وزارت کی پیشکش ٹھکراتے ہوئے کابینہ میں رہنے سے فوری انکار کردیا تھا۔ اب عمران خان کے پاس 13 غیر منتخب (علی نواز اعوان کے استثنا کے ساتھ) خصوصی معاونین ہیں جن کے پاس صدارت کیلئے اہم ترین بڑی وزارتیں اور شعبے ہیں۔ ان میں سے تین متعلقہ وزراء کے اخراج کے ساتھ اب منتخب کرلئے گئے ہیں۔ وزارت خزانہ، اقتصادی معاملات، ریوینیو اور شمار یا ت ڈویژن اب ڈاکٹر حفیظ شیخ کا حلقہ اثر ہے جو سندھ سے ورلڈ بینک کے سابق ٹیکنوکریٹ، مشرف کے سابق بڑے اکنامک ایڈوائزر اور مرکز اور سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق وزیر ہیں۔ کامرس، انڈسٹریز، ٹیکسٹائل اور بورڈ آف انویسٹمنٹ پہلے ہی مشرف دور کے ایک اور ٹیکنو کریٹ عبد الرزاق داؤد کے زیر نگرانی ہے۔ پاکستان کی توانائی سیکورٹی کے مقابلے میں اہم قلمدان پٹرولیم وزارت کو منتخب وزیر غلام سرور خان سے لے لی گئی ہےاور ندیم بابر کو دے دی گئی ہے جو انڈیپینڈینٹ پاورز پراجیکٹس (آئی پی پیز) میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں۔ وہ پنجاب میں توانائی پر شہباز شریف کے قریبی مشیر رہ چکے ہیں۔ ان کے پاس کئی پرائیویٹ توانائی کمپنیاں ہیں۔ عامر محمود کیانی کے تحت وزارت صحت کو ڈاکٹر ظفر اللہ مرزا کے حوالے کردیا گیا ہے جو ایک پبلک ہیلتھ پروفیشنل اور قاہرہ میں علاقائی ڈبلیو ایچ او دفتر میں صارفین حقوق کے سرگرم کارکن کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ کیانی ہی کے عہدے کے دوران فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے اپنی مرضی سے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کی لازم منظوری کے بغیر ہی ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا تھا۔ وہ عوام کی اتنی بڑی تباہی پر محض تماشائی بنے رہے۔ ماضی میں غلام سرور خان کے پاس صدارت کیلئے اعلیٰ تکنیکی وزارت تھی۔ تاہم ان کے تمام آپریشنز زمین پر یا پانی میں تھے۔ اب انہیں ایک مزید تکنیکی قلمدان یعنی ہوا بازی (ایوی ایشن) سونپ دیا گیا ہے جس کا تعلق صرف ہوا سے ہے۔ وزارت اطلاعات بھی غیر منتخب ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی زیر نگرانی دے دی گئی ہے جنہیں سیالکوٹ میں انتخابات میں مستقل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ فواد خان نے وزیر اعظم عمران خان کی پالیسی اور وژن کو جارحانہ طور پر پیش کیا اور ان کے حریفوں کیلئے ایسی زبان استعمال کی جسے کبھی بھی نہیں سنا گیا تھا۔ ان کی یہ کارکردگی کسی کام نہیں آئی اور انہیں وزارت اطلاعات سے ہٹنا پڑا۔ ان کی کارکردگی کے علاوہ، ان کی منتقلی کے پیچھے ایک وجہ وزیر اعظم کے طاقتور ایسوسی ایٹ نعیم الحق سے اختلاف بھی تھے۔ موسمیاتی تبدیلی ، اوور سیز پاکستانیز، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن وغیرہ کی وزارتیں پہلے ہی غیر منتخب ٹیکنو کریٹس کے پاس ہیں۔ غیر منتخب ٹیکنوکریٹ وزراء میں سے کوئی بھی پارلیمنٹ کو جواب دہ نہیں کیونکہ قانونی طور پر وہ وزیر اعظم کے معاونین ہیں جو خود بھی اب تقریباً 12 قلمدانوں کے وفاقی وزیر ہیں۔ کابینہ میں زیادہ حیران کن دوبارہ سے سینیٹر اعظم سواتی کی شمولیت ہے۔ محض 4 ماہ قبل اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے اپنی لائف ٹائم نا اہلی سے بچنے کیلئے انہیں اپنی وفاقی وزارت چھوڑنی پڑی تھی۔ انہوں نے اسلام آباد میں اپنے فارم ہاؤس کے پاس رہنے والے غریب قبائلی خاندان کو پیٹا تھا اور اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل آف پولیس کا فوری طور پر تبادلہ اس لئے کروادیا تھا کیونکہ اس نے ان کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ مشرف کے ایک اور سابق وفادار اور سابق اسپائی ماسٹر بریگیڈئیر (ر) اعجاز شاہ کو وزارت داخلہ دے دی گئی ہے۔ ان کا پارلیمانی معاملات سے تبادلہ کیا گیا ہے جہاں وہ محض چند ہفتوں قبل ہی لائے گئے تھے۔ اعجاز شاہ کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ نیشنل ایکشن پلان پر وسیع تجربہ رکھتے ہیں، اس لئے اس پر عملدرآمد کرانے میں کامیاب ہوں گے۔ دیگر غیر منتخب ٹیکنو کریٹس کابینہ ارکان میں مرزا شہزاد اکبر، افتخار درانی، زلفی بخاری، شہزاد قاسم، عثمان ڈار، ڈاکٹر عشرت حسین اور ملک امین اسلم شامل ہیں۔
تازہ ترین