• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر پاک بھارت تناؤ میں حالیہ اضافہ اس بات کا مظہر ہے کہ طرفین کے تذویراتی تعلقات میں استحکام نہایت کمزور ہے اور تجارتی اور سیاسی روابط میں بہتری سے اس کا کچھ لینا دینا نہیں۔ گزشتہ ہفتے سرحد پر ہونے والی جھڑپیں ہمیشہ سے باہمی غیر حل شدہ تنازعات کا نتیجہ ہیں تاہم گزشتہ دنوں ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے باوجود دونوں ممالک نے تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کو برقرار رکھنے کی خاطر حالیہ تناؤ کے خاتمے کے لئے مشترکہ دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس بابت سوال سامنے آئے کہ آیا موجودہ انتظامات تناؤ کو کنٹرول کرنے کے لئے کافی ہیں یا انہیں مزید رسمی اور جاندار طریق کار کے ذریعے اضافی استحکام دینے کی ضرورت ہے۔ اگر لائن آف کنٹرول پر گزشتہ ہفتے ہونے والی جھڑپوں کا سبب بھارت کی جانب سے نئے بنکروں کی تعمیر ہے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ مستقبل میں اس نوعیت کے واقعات کو روکا جا سکے گا؟
واقعات کی لڑی پر ایک نظر ڈالنے سے ان سوالات کا جواب حاصل کرنے میں مدد ملے گی چنانچہ ہم 6،8 اور 10جنوری کو پیش آنے والے حالات اور تبدیلیوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ پاکستان کا موقف ہے کہ بھارت کی جانب سے حاجی پور سیکٹر میں چروندہ گاؤں کے اردگرد نئی چوکیوں کی تعمیر کی کوشش سے حالیہ تنازع نے جنم لیا۔ یہاں2005ء میں دونوں ممالک کی جانب سے متفقہ طور پر دیئے گئے مشترکہ بیان کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے جس کے بعد لائن آف کنٹرول پر سیزفائر ہوا تھا۔ اس مشترکہ بیان میں دونوں ممالک اس بات پر راضی ہوئے تھے کہ ’لائن آف کنٹرول پر نئی چوکیوں کی تعمیر سمیت دیگر دفاعی کام نہیں کیا جائے گا‘۔ اس بات کو بعد کے مشترکہ بیانات میں بھی دہرایا گیا اور ماضی میں اگر نئی چوکیوں کی تعمیر کی کوشش کی گئی یا اس بات کا شبہ ہوا تو اس معاملے کا حل نکالنے کے لئے سرحدی فلیگ میٹنگ کی گئیں۔ حالیہ دنوں میں جب پاکستان کے ملٹری حکام کو لائن آف کنٹرول کے ساتھ نئی چوکیوں کی تعمیر کا پتہ چلا تو انہوں نے معاملے کو روایتی طور پر سلجھانے کے لئے فلیگ میٹنگ کے لئے کہا۔ دونوں ممالک کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز نے دو مرتبہ فون پر بھی بات کی۔ نئی چوکیوں کی بابت پاکستان کے اعتراض پر بھارتی حکام نے اصرار کیا کہ وہ صرف پرانی تعمیرات کی مرمت کر رہے ہیں اور یہ سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ اکتوبر کے دوران پاکستانی فوج کے جانب سے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے کی گئی تنبیہ کا بھی کوئی جواب نہیں ملا جس کے بعد نئی چوکیوں کی تعمیر کی وجہ سے طرفین کے مابین جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ اس کے بعد عمل اور ردعمل کا سلسلہ چل نکلا۔ مارٹر فائرنگ کے بعد بھارت نے گاؤں میں شہریوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا۔
اس کے بعد بھارتی فوجیوں نے سرحد پار سوان پٹرا کے علاقے میں پاکستانی دستوں پر حملہ کیا۔ گو کہ لائن آف کنٹرول پر گولیوں کا تبادلہ غیر معمولی بات نہیں مگر سرحد پار کرنے کا واقعہ بہت ہی کم پیش آتا ہے جسے طرفین سیز فائر معاہدے کی سنگین ترین خلاف ورزی باور کرتے ہیں۔ بھارتی فوجی30میٹر تک سرحد کے اندر گھس آئے جنہیں پاکستانی دستوں نے واپس دھکیل دیا مگر اس جھڑپ میں ایک پاکستانی جوان شہید ہوا اور دیگر ایک کے زخم آئے۔ بھارت کے موقر جریدے ’دی ہندو‘ نے اپنی10جنوری کی اشاعت میں پاکستانی موقف کی تائید کی۔ بھارتی حملے کے ایک دن بعد7جنوری کو پاکستان کے ڈی جی، ایم او نے اپنے بھارتی ہم منصب سے ہاٹ لائن پر بات کی اور ’نا قابل قبول‘ اشتعال انگیزی کے بارے میں شکایت کی۔ ایک روز بعد بھارتی حکام نے پاکستانی فوجیوں پر ہاٹ اسپرنگ کے مقام پر سرحد پار کر کے حملہ کرنے کا الزام عائد کیا جس میں مبینہ طور پر دو بھارتی فوجی ہلاک ہوئے اور جن میں سے ایک کی بابت کہا گیا کہ اس کا سر قلم کر دیا گیا تھا۔ نو جنوری کی صبح دونوں ممالک کے ڈی جیز نے پھر بات کی۔ اس مرتبہ بھارتی افسر نے احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ پاکستان بھارتی فوجی کا سر ’واپس‘ کرے۔ پاکستان کے عسکری اور وزارت خارجہ کے ترجمانوں نے اس واقعے کی تردید کرتے ہوئے اسے پاکستان کو بدنام کرنے کی بھارتی سازش قرار دیا۔ خیال رہے کہ بھارتی فوج کے8جنوری کے ایک بیان میں بھی اس واقعے کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا تھا۔ اس دوران جب کہ بھارتی میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا پاکستانی میڈیا نے خاموشی اختیار کئے رکھی۔ کانگریس حکومت پر حزب مخالف جماعتوں کی جانب سے کڑی تنقید کے بعد بھارت کے سیاسی اور فوجی حکام نے مزید اشتعال انگیز بیانات دینا شروع کر دیئے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ دس جنوری کو آزاد کشمیر میں ہاٹ اسپرنگ کے مقام پر بھارتی دستوں کی فائرنگ سے ایک (اور) پاکستانی فوجی شہید ہو گیا۔ دونوں ممالک میں ایک دوسرے کے ہائی کمشنروں کو طلب کیا گیا، احتجاج ریکارڈ کرایا گیا اور متنازع معاملات کی تحقیق و تفتیش کا مطالبہ کیا گیا۔
بھارتی حکام نے پاکستان کی اس پیشکش کو رد کر دیا کہ پاکستان اور بھارت کے لئے اقوام متحدہ کے مبصرین سیز فائر کی خلاف ورزی کی بابت آزاد انکوائری کریں مگر اس بات پر کسی کو بھی حیرت نہیں ہوئی کیوں کہ بھارت نے کبھی بھی اقوام متحدہ کے مبصرین کو لائن آف کنٹرول پر اپنی طرف کام نہیں کرنے دیا۔ آنے والے دنوں میں امکان ہے کہ سرحدی تناؤ ختم ہو جائے گا مگر ابلتے ہوئے تنازعوں کی بھاپ میں لائن آف کنٹرول پر تصادم کا خدشہ ہمیشہ برقرار رہے گا جسے روکنے کے لئے2003ء کے جنگ بندی کے معاہدے کے علاوہ کوئی اور راستہ موجود نہیں ہے۔2003ء کا یہ معاہدے نرم گرم حالات کے باوجود تاحال اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے اور 2008ء میں ممبئی میں دہشت گرد حملوں کے بعد پیدا ہونے والے سنگین ترین تناؤ کے بعد بھی اس امر کا مشاہدہ کیا گیا۔ 2008ء کے بعد بھارتی حکام نے اکثر اعتراف کیا کہ لائن آف کنٹرول پر سرحد پار ’دراندازی‘ قابل ذکر حد تک کم ہو گئی ہے تاہم سیز فائر کی خلاف ورزی کی شکایات میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ اگر سیز فائر معاہدے کو برقرار رکھنا ہے تو لائن آف کنٹرول کے ساتھ نئی چوکیوں کی عدم تعمیر کی بابت معاہدے کی ضرورت ہے۔ نئی چوکیوں کی تعمیر کے بارے میں طرفین میں بات چیت ہوتی رہی ہے مگر اس کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا کیونکہ چوکیوں کے فاصلے، مرمت اور اپ گریڈیشن کے تناظر میں نئی دہلی اور اسلام آباد کے مابین شدید اختلافات موجود ہیں جنہیں سلجھایا نہیں جا سکا ہے۔ ان اختلافات کو سلجھانے سے نہ صرف سیز فائر آپریشن کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ مستقبل میں کسی ممکنہ تناؤ کا خدشہ بھی کم سے کم ہو جائے گا مگر تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کے مستقبل کے بارے میں ایک اہم ترین سوال سامنے آتا ہے۔ کیا متنازع ترین امور کو سلجھائے بغیر ’نرم‘ معاملات پر پیشرفت کے باوجود اس عمل کو برقرار رکھا جا سکتا ہے؟ جب تک سیکورٹی ماحول میں بہتری اور تنازعات کے حل کے اقدامات نہیں کئے گئے اس بات کا خدشہ موجود رہے گا کہ تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل خطرے میں پڑ سکتا ہے اور جب تک ایسا نہیں ہو گا اس وقت تک لائن آف کنٹرول باہمی روابط میں بجائے استحکام لانے کے تصادم کی نازک ترین سرحد بنی رہے گی۔
تازہ ترین