• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہفتہ بھر انتظار رہتا ہے۔ اپنوں سے ملنے کا دن۔ اتفاق دیکھئے کہ یہ دوسرا اتوار ہے کہ میں اپنوں سے نہیں مل رہا ہوں۔ ایک اتوار نوشکی بلوچستان میں تھا۔ جس کے سحر میں اب تک مبتلا ہوں۔ چھوٹے شہروں میں کتنے بڑے لوگ بستے ہیں۔ اور بڑے شہروں میں ہم جیسے چھوٹے لوگ۔ آج کا اتوار اسلام آباد میں گزر رہا ہے۔ نیشنل بک فائونڈیشن کے دسویں میلے میں۔ پاکستان بھر سے اہل قلم اور اہل کتاب موجود ہیں۔ اسلام آباد جیسے چھوٹے صوبوں کے چھوٹے لوگ کوفہ کہتے ہیں۔ اور چھوٹے صوبوں کے بڑے لوگ اسلام آباد آنے کی آرزو میں رہتے ہیں۔ نوشکی میں صرف ادبی یا کتاب میلہ نہیں تھا وہاں اس کے ساتھ سائنس کا لاحقہ بھی تھا۔ اور نَو عمر پاکستانی اپنے سائنسی منصوبوں کی نمائش کررہے تھے۔

ہماری ملاقات بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر جاوید اقبال سے بھی رہی۔ ہمیں کراچی واپس پہنچنا تھا۔ اس لیے مختصر گفتگو ہوئی۔ رمضان المبارک میں کسی افطار پر تفصیلی تبادلۂ خیال موخر کیا گیا۔ ارادہ تھا کہ دھرنے پر بیٹھے ہم وطن ہزارے والوں سے بھی تعزیت کرلیں۔ جلیلہ صاحبہ سے فون پر بات بھی ہوئی۔ لیکن ٹریفک کے اژدھام نے غم زدگان تک پہنچنے نہیں دیا۔ پرواز کا وقت ہورہا تھا۔ زندگی بھر یہ قلق رہے گا۔

آپ سنائیے کہ آپ کا اتوار کیسا گزر رہا ہے۔ بیٹوں بیٹیوں سے کیسی گفتگو رہتی ہے ۔ پوتوں پوتیوں کی کلکاریاں سننے کا موقع ملتا ہے یا وہ اتنے بڑے ہوگئے ہیں کہ اب ان کی شادی کی فکر لگی ہے اور ہاں آج کل تو امتحان بھی ہورہے ہیں۔ صبح صبح انہیں اپنے اچھے پرچے کی دُعائوں کے ساتھ رخصت کررہے ہوں گے ۔واپسی پر ان سے پوچھتے ہوں گے پرچہ کیسا ہوا۔ سارے سوالوں کے جواب دئیے کہ نہیں۔اپنے امتحانوں کے دن یاد آجاتے ہوں گے۔ اب تو بعض اسکولوں میں کلاس روم۔ امتحانی ہال ایئر کنڈیشنڈ ہیں۔ مگر زیادہ تر میں پنکھے بھی نہیں ہیں۔ والدین میں پڑھانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ البتہ یہ نہیں جانتے کہ اس پڑھائی کا نتیجہ کیا ہوگا۔

دیکھیں اب اتوار بہت ہی احتیاط سے گزارنا ہوگا۔ یہ بحث نہ چھیڑئیے گا کہ اسد عمر نے وزارت خود چھوڑ دی یا عمران خان کے کہنے پر۔ عمران خان کو کس نے کہا۔ ان ساری باتوں سے آپ کو یا آپ کی اولادوں کو کچھ نہیں ملنے والا۔ اب جو آرہا ہے کس کے کہنے پر آرہا ہے۔ واشنگٹن سے اس کا حکم آیا ہے یا یہ مقامی فیصلہ ہے۔ اور آنے والے کے پاس کیا کوئی الہ دین کا چراغ ہے جسے رگڑتے ہی جن حاضر ہوکر سب کچھ درست کرلے گا۔ آپ اپنے گھر کی معیشت کو سنبھالیں۔ اپنے محلّے کی حالت درست کریں۔ کونسلر سے رابطہ کریں۔ امام مسجد کو ساتھ ملائیں۔ اپنے پڑوس کے معاملات ٹھیک کرلیں۔ ہر محلّے والے اپنے اپنے مسائل حل کرلیں تو ملک بھر کی الجھنیں سلجھ جائیں گی۔ عمران خان کو اپنے کھوٹے سکوں میں کم کھوٹے تلاش کرنے دیں۔ آٹھ مہینے پہلے کرنے والے کام اب کریں گے تو حالات کی زلفیں اسی طرح الجھیں گی۔ کرکٹ کا گرائونڈ 20کروڑ کے پاکستان کے مقابلے میں بہت چھوٹا ہے۔ یہاں چھکا ایسا لگانا پڑتا ہے کہ گیند مشرقی یا مغربی سرحدوں کے پار گرے۔

ہاں یاد آیا۔ بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو فیکلٹی۔ نصاب۔ کتابوں سے زیادہ فکر سیکورٹی کی کرنا پڑتی ہے۔ یہ جامعہ جہاں ہزاروں طلبہ و طالبات علم حاصل کررہے ہیں۔ دہشت گردوں کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔ جہل کے لشکر ہر ایسے ادارے کی آواز خاموش کرنا چاہتے ہیں جہاں علم کی روشنی پھیلائی جارہی ہے۔یونیورسٹی میں بیسیوں مقامات پر نصب کیمروں سے ساری آمدورفت نیٹ پر دکھائی جارہی ہے۔ وائس چانسلر کو خفیہ اداروں نے بتایا کہ دہشت گردوں کے نمائندے یونیورسٹی کی ریکی کرچکے ہیں۔اور آپ کے دفتر میں آکر آپ سے ہاتھ بھی ملاچکے ہیں۔ وائس چانسلر سائنس کے آدمی ہیں۔ مگر انہیں دہشت گردی کے مقابلے کی تربیت بھی حاصل کرنا پڑی ہے۔ ان کے دائیں ہاتھ ایک بھرا ہوا پستول رکھا ہے اور بائیں ہاتھ کلاشنکوف۔ آپ تصوّر کیجئے کہ ہائی ٹیک اکیسویں صدی میں ایک بڑی یونیورسٹی کے سربراہ کو کن آلات سے لیس ہونا پڑ رہا ہے۔ میں بھی دُعا کررہا ہوں آپ بھی ہاتھ اٹھائیے کہ پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی اپنے انجام کو پہنچے۔ ہم اور ہمارے ادارے ہتھیاروں کے استعمال کی بجائے ان ذہنوں اور دلوں کو جیتیں جہاں نفرت کی آگ بھڑک رہی ہے ۔ ہمارے حکمرانوں۔ لیڈروں۔ مذہبی قائدین کو یہ توفیق دے کہ وہ منافقت چھوڑ کر محبت کو اپنائیں۔ 72سال کسی قوم کے لیے بہت ہوتے ہیں۔ ہم ان صوبوں میں جو صدیوں سے قائم ہیں۔ جن سے ریاست بنتی ہے۔ پاکستان بھی پنجاب۔ سندھ۔ کے پی ۔ بلوچستان سے ہی بنا ہے۔ ہم ان کی روایات۔ اقدار کا احترام کریں۔ یہ سب بہت محبت والے لوگ ہیں۔ ان کے زخموں پر مرہم رکھیں۔

نیشنل بک فائونڈیشن جیسے اداروں کی طرح ملک بھر کے اہل قلم کو یکجا کریں۔ یہاں ملک میں بولی جانے والی زبانوں کے ادب۔ شاعری۔ لوک کہانیوں پر سب محبت سے بات کرتے ہیں۔ جیسے نوشکی میں پنجاب۔ کے پی کے۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے شاعر افسانہ نگار نقاد موجود تھے۔ سب اپنی اپنی بات کررہے تھے۔ دوسرے احترام سے محبت سے سن رہے تھے۔ ایسا سماں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ حکمراں اس لہجے میں بات کریں ۔ میڈیا ان ہستیوں کو دکھائے جن سے لوگ پیار کرتے ہیں۔ ان کو نہ دکھائے جو ہمارے مصائب کے ذمہ دار ہیں۔ پاکستان کی مادری زبانوں کے ادب کا سلسلہ انڈس کلچرل فورم نے بڑے پیارے انداز میں شروع کر رکھا ہے۔ ساری زبانوں میں دل کی باتیں کی جارہی ہیں۔ بہت اعلیٰ ادب تخلیق ہورہا ہے۔ شینا۔ بلتی۔ پوٹھوہاری۔ ہزاری۔ براہوئی۔ سرائیکی۔ بلوچی۔ پنجابی۔ سندھی۔ ہندکو۔ پہاڑی میں۔ ان سب کا اُردو ترجمہ ہو ۔ اُردو ادب کا ان ساری زبانوں میں ۔زبانیں ہمیں ایک دوسرے کے قریب لاتی ہیں۔ان کو نفرت کا ذریعہ نہ بنائیں۔

کتابوں کی دنیا سلامت رہے۔ یقینا کتابیں آج بھی ہمیں زندہ رہنے کا سلیقہ سکھاتی ہیں۔

نیشنل بک فائونڈیشن نے کتاب کا تمدّن اور مالا مال کیا ہے۔ تمام گلے شکوئوں کے باوجود ہر سال پاکستان میں کروڑوں روپے کی کتابیں بک رہی ہیں۔پڑھی جارہی ہیں۔ اسلام آباد میں دور دور سے ادبی ثقافتی ندیا آتی ہیں۔ ایک دریا میں ملتی ہیں۔ پھر یہ دریا ذہنوں کو سیراب کرتا ہے۔ لیکن وہ جو حکمرانی کررہے ہیں وہ ان کتابوں سے دور ہی رہتے ہیں۔ اس میلے میں آنے کی انہیں توفیق نہیں ہوتی۔ کتاب سے فاصلہ رکھنے والوں کو کبھی سکون نہیں ملتا۔

پاکستان ایک تجربہ ہے۔ ایک پروجیکٹ ہے۔ 72سال سے کچھ طاقتیں اسے ناکام بنانے کی مسلسل کوششیں کررہی ہیں۔ جبکہ پاکستان کے عام لوگ اسے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر کامیاب کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ آخر میں فتح عوام کی ہی ہوتی ہے۔

تازہ ترین