مولانا صاحب جو کسی تعارف کے محتاج نہیںہیں، آج کل بدقسمتی سے سیاست کے گرداب میں گھرے ہوئے ہیں ان کی پارٹی تو اسمبلیوں میں ہے مگر خود وہ 30سالہ سیاست میں پہلی مرتبہ باہر ہیں۔تمام سرکاری اعزازات تو چھن چکے ہیں مگر اپنے تمام ترسیاسی دائوپیچ آزمانے میں لگے ہوئے ہیں ۔جس دن سے پی ٹی آئی کی حکومت برسراقتدار آئی ہے انہیں یقین ہی نہیں آتا کہ کسی نے ان کو پہلی مرتبہ شکست سے دو چار کردیا ہے۔ مگر وہ ہمت نہیں ہارے پہلے مسلم لیگ (ن) والوں کوبغاوت پر اکساتے رہے مگر (ن)لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف کی سیاست تو خو د ختم ہوتی جارہی ہے وہ کیسے ان کا ساتھ دیں ،اب عمران خان کی حکومت کو برداشت کرنے پر مجبور ہیںاور کچھ نہیںکر سکتے صرف تلملا سکتے ہیں ۔خود دونوںمیاں صاحبان کی سیاسی سوچ الگ ہے ،ایک کہتا کہ میں کمپرومائز نہیں کرتا تو دوسرابھائی کہتا ہے بھائی جان کسی سے لڑائی مت مول لو۔یہاں سے مولانا صاحب مایوس ہوکر پی پی پی کے کرتا دھرتا آصف علی زرداری کی طرف لوٹتے ہیں اور کہتے ہیں خدارا آپ کچھ کرو،ورنہ پہلے میاں صاحب کی سیاست ختم ہوئی اب آپ کی باری ہے چھوڑو اس نیب کے چکر کو اٹھو اور مل کر پی ٹی آئی حکومت کو گرا دو،ورنہ تمہاری داستان بھی نہ ہوگی پاکستان کی سیاسی داستانوں میں۔ اللہ اللہ کرکے زرداری صاحب نے نیب کی پیشیوں سے تنگ آکر مولانا صاحب کو نیم رضامندی ظاہر کر دی ہے تومولانا صاحب نے پہلی مرتبہ کے پی سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے اعلان کرڈالا کہ میں اس کٹھ پتلی حکومت کو اب گراکر ہی دم لوں گا ۔اب یہ بھی دیکھنا ہے کہ وہ کیسے گرا سکیں گے۔میاں شہباز شریف خود اچانک ملک چھوڑ کر لندن روانہ ہوچکے ہیں ۔یہ اربوں روپے کی ٹرانزیکشن ان کے اور ان کی فیملی کے اکائونٹس میں کہاں سے عین وقت نمودار ہوگئیں ۔نیب نے ان کے اور ان کی فیملی کے خلا ف کارروائیا ں ڈال دی ہیں، اب وہ بچیں تو کیسے بچیں،مگر مولانا صاحب بقول شیخ رشید عمران خان کے سب سے بڑے دشمن ہیں ،وہ کچھ نہ کچھ کر گزریں گے ۔پچھلے ہفتے ہمارے ایک معروف کالم نگار نے لکھا کہ مولانا کے نام کے ساتھ ڈیزل کیسے لگا آج تک معلوم نہ ہوسکا، تو ایک واقعہ 1993میں جب پی پی پی کو دوبارہ حکومت ملی تو راقم مشیر اطلاعات سندھ تھا اس وقت آصف علی زرداری سے ذاتی دوستی تھی ۔انہوں نے کراچی سے بلایا وہ پرائم منسٹر ہائوس میں ہی اپنا دفتر لگاتے تھے۔اسلام آباد ایئر پورٹ پر ان کا سیکرٹری میرا منتظر تھا میں سرکاری گاڑی میںمعہ اپنے ایک ساتھی جن کا تعلق پنڈی سے تھا روانہ ہوا ۔پرائم منسٹر ہائوس میں 10-12اہم سیاسی شخصیات بھی موجو دتھیں ان میں مولانا صاحب بھی تشریف فرما تھے۔سیکرٹری مجھے بٹھا کر اندر زرداری صاحب کو میری آمد کی اطلاع دینے چلے گئے چندمنٹ بعد زرداری صاحب نے مجھے اندر بلالیا اور فرمایا میں نواب شاہ میں اسپیشل زون بنوانا چاہتا ہوں کراچی میں ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کی طرز پر تا کہ اندرون سندھ میں بھی انڈسٹریاں لگیں اور میں بھی اپنی انڈسٹری نواب شاہ میں منتقل کروں۔اس کے لئے وہ تمام مراعات صنعتکاروں کو دینے کے لئے تیار تھے۔ اس میٹنگ کے لئے سیکرٹری انڈسٹری ،سیکرٹری گیس و پیٹرولیم ،ایف بی آر کے چیئر مین سب موجود تھے تاکہ فوری طور پر جائزہ لیا جائے اور نواب شاہ کو انڈسٹریل ٹائون کا درجہ دیا جاسکے۔اس میٹنگ میں تقریبا 2گھنٹے صرف ہو گئے ۔
میں باہر نکلا تو دیکھامولانا صاحب صوفے پر رکھے کچھ فارمز بھرنے میں مصروف تھے ۔میرے ساتھی اتفاق سے ان کے برابر میں بیٹھے تھے تو انہوں نے بتایا وہ پاکستان پٹرولیم کے فارم تھے ،جو ڈیزل ایران سے پرمٹ کے ذریعہ براستہ کوئٹہ امپورٹ ہوتاتھا ،ان کو ڈیزل پرمٹ حکومت پاکستان ہر ماہ کوٹہ سسٹم کے ذریعے جاری کرتی تھی ،مولانا صاحب اور دیگر افراد بھی ان فارمز کو بھرنے میں لگے ہوئے تھے اور زرداری صاحب کی اجازت سے وہ پرمٹ ہر ماہ مخصوص لوگوں کو سیاسی رشوت کے طور پر ہر ماہ جاری ہوتے تھے ۔غالبََا پی پی پی والے واقف ہونگے تو انہی پرمٹ کی وجہ سے ڈیزل کا لفظ ان کے نا م سے منسلک ہوگیا بعد میں زرداری صاحب نے بھی بتایا تھا کہ سیاست میں یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔یاد رہے ان دنوں پیٹرو ل اور ڈیزل کے دام 40روپے تھے اور پرمٹ پر یہ10روپے میں ملتا تھا۔کیونکہ بعد کی آنے والی (ن)لیگ کی حکومت میںمولانا صاحب شامل ہوگئے تھے ۔اس کے بعداور وزارتیں، مراعات حاصل کرتے تھے، جو حکومت آتی تھی مولانا صاحب کسی نہ کسی طرح "ان"ہوجاتے تھے ا ور اپنا سیاسی گلشن کا کاروبار چلاتے رہے ۔مگر یہ پہلی مرتبہ سیاسی آفت اِن پر آگری اور وہ اسمبلی میں نہ جاسکے لہذا وہ پی ٹی آئی حکومت کو کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کر سکتے۔یہ ان کی خوش قسمتی ہے جو کام وہ کرنا چاہ رہے ہیں وہ کام عمران خان کے اپنے ناتجربہ کار ساتھی اپنی اپنی حماقتوںسے صرف9ماہ میں دن رات انجام دے رہے ہیں۔تمام وعدے ایک ایک کر کے دم توڑ رہے ہیں ۔
رہی سہی کسر مہنگائی کا سیلاب لانے میں ان کے چہیتے سابق وزیرخرانہ اسد عمر ڈالرز سمیت ہرچیز کو مہنگا کرنے میں نمایاں کارنامہ انجام دینے میں لگے ہوئے تھے۔دوسری طرف وزیر اطلاعات فواد چوہدری روز روز میڈیا پر آکر جعلی کامیابیاں گنوارہے تھے کہ ہم نے یہ کیااور وہ کیا۔قوم کو جعلی خوشخبریاں راس نہ آئیں تو عمران خان نے وزارتیں تبدیل کر کے پہلا تجربہ ناکام ہونے پر دوسرا تجربہ کر ڈالا۔اب دیکھنا ہے نئے وزیر خزانہ حفیظ شیخ کیسے بگڑی معیشت کو سہارا دیتے ہیں اور مشیر اطلاعات فردوس عاشق ا عوان پی پی پی کی ناکام وزیر صحت کیسے مریم اورنگزیب سے مقابلہ کریں گی؟میڈیا تو پہلے ہی پی ٹی آئی حکومت سے نالاں ہے جس کی وجہ میڈیا بجٹ کی کٹوتی جو کردی گئی ہے بد قسمتی سے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے تمام کے تمام نئے وزراء بھی ناتجربہ کار ہیں۔درمیان میں فیصل واوڈا صاحب نے تو ایسا دھماکہ" نوکریوں "کے نام پر کیا کہ خود ٹی وی کا اینکر بار بارگھبرا کر پوچھتا رہا ،یہ چند ہفتوں میں ہزاروں نوکریاں کہاں سے دی جائیں گی، تو ہمارے "فیصل واوڈا"صاحب کہتے ہیں آپ صرف چند دن انتظار کریں۔خود میرے محکمے میں اتنی نوکریاں نکلنے والی ہیں کہ امیدوار ڈھونڈنے میں نہیں ملیں گے۔
آج کل واٹس اپ ،فیس بک او ر میڈیا کا راج ہے۔درجنوں لطیفے اور چٹکلے پی ٹی آئی سے منسوب ہو رہے ہیں ایک چٹکلہ توایک دل جلے نے مجھے بھی شیئر کیا کہ لوگو! اسلام آباد سے ایک ٹرک نوکریوں سے بھرا صبح صبح روانہ ہوا تھا راستہ میں ٹرک الٹ گیا تمام نوکریاں جاں بحق ہوگئیں،ٹرک ڈرائیورکو پولیس اور عوام دونوں مل کر تلاش کر رہے ہیں،جہاں بھی یہ ڈرائیور ملے نزدیکی تھانہ میں اطلاع کر کے ثواب دارین حاصل کریں، عوام سے سوئم میں شرکت کی درخواست ہے ۔
میرا مولانا صاحب کو مخلصانہ مشورہ ہے وہ چند ماہ آرام سے بیٹھیں خود پی ٹی آئی کے نادان وزرا عمران خان کی حکومت گرادیں گے وہ کیوں اپنے ہاتھ اس میں رنگیں،صرف انتظار کریں ۔جس دن آئی ایم ایف کا معاہدہ ہوگا وہ اس حکومت کے تابوت میںآخری کیل ثابت ہوگا۔کالم کے مکمل ہونے کے بعد خبر آئی کہ فیصل واوڈا صاحب 12کروڑ روپے کے ڈیفالٹر ہیں ایسے میں عمران خان کس کس کا دفاع کرتے رہیں گے؟