• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

18 ویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے اور پارلیمانی نظام کی جگہ ملک میں صدارتی نظام نافذ کرنے سے متعلق پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے خدشات اب درست ثابت ہورہے ہیں۔ نہ صرف وزیراعظم عمران خان اپنی وفاقی حکومت کو درپیش مسائل کا ذمہ دار 18 ویں آئینی ترمیم کو قرار دے رہے ہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف کے عہدیداران اور وفاقی وزراء 18 ویں آئینی ترمیم کے خلاف اور صدارتی نظام حکومت کے حق میں کھل کر باقاعدہ مہم چلا رہے ہیں۔


ہمیں اس تنازع میں نہیں الجھنا چاہئے کہ پیپلز پارٹی کے لوگ بقول تحریک انصاف احتساب سے بچنے کے لیے 18 ویں آئینی ترمیم اور صدارتی نظام کے ایشوز پر سیاست کررہے ہیں یا تحریک انصاف کے لوگ بقول پیپلز پارٹی 18 ویں ترمیم کو رول بیک کرنے اور صدارتی نظام کے نفاذ کے لیے حکومت میں لائے گئے تھے کیونکہ اس تنازع کے فریقین صرف یہی دو سیاسی جماعتیں نہیں ہیں۔ ہمیں پارلیمانی جمہوری نظام یا صدارتی نظام میں سے کسی کے حق یا مخالفت میں دلائل اور جوابی دلائل میں بھی الجھنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک ان ایشوز پر دلائل اور جوابی دلائل کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ کشمکش بہت پرانی ہے اور فریقین اپنے مؤقف سے ذرا بھی ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ اگرچہ اس وقت آئین کے مطابق پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے لیکن آج بھی یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پاکستان میں یہ نظام چلے گا۔ اس لیے اگر کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ 72 سال بعد بھی پاکستان اپنا نظام حکومت طے نہیں کرسکا ہے، تو وہ کسی حد تک درست ہیں۔


تنازعات اور مباحثوں میں الجھنے کی بجائے پاکستان کی تاریخ کے چند حقائق پر بات کرنی چاہئے، جنہیں شاید مناسب الفاظ میں بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان بننے کے بعد فوراً بعد یہ کشمکش شروع ہوگئی تھی۔ زیادہ تر سیاسی حلقوں کا مطالبہ یہ تھا کہ پاکستان میں 23 مارچ 1940ء کی قرارداد کو بنیاد بنا کر آئین تشکیل دیا جائے اور یہ آئین پاکستان کو وفاقی پارلیمانی جمہوری ریاست قرار دے۔ ان سیاسی حلقوں کے مقابلے میں دوسرے حلقے پاکستان کو واحدانی یا صدارتی نظام کے تحت چلانا چاہتے تھے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام میں صوبے خود مختار ہوں گے اور صوبے میں رہنے والے لوگ اپنے قومی یا قومیتی تشخص کو اجاگر کرنے پر بضد ہوں گے۔ اس طرح پاکستانی ایک قوم اور پاکستان ایک قومی ریاست نہیں بن پائے گا۔ زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ 14 اگست 1947ء سے 16 دسمبر 1971ء کے سقوط ڈھاکا تک مؤخرالذکر حلقے زیادہ طاقتور رہے اور انہوں نے اول الذکر حلقوں کا ’’پروڈا‘‘ اور ’’ایبڈو‘‘ جیسے قوانین کے تحت احتساب بھی کیا۔ اس عرصے میں اگرچہ پاکستان میں وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام نافذ نہ ہوسکا لیکن ایسا نظام بھی نافذ نہیں ہوا، جسے مکمل صدارتی یا واحدانی طرز حکومت قرار دیا جاسکے۔ اول الذکر سیاسی حلقوں کے انتہائی کمزور ہونے کے باوجود مکمل صدارتی نظام جڑیں نہ پکڑ سکا اور اسے آئینی یا حقیقی سیاسی بنیاد فراہم نہ ہوسکی۔ آخرکار پاکستان دو لخت ہوگیا۔


یہاں سے کشمکش کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کے حامی حلقے پہلی دفعہ مضبوط ہوئے اور انہوں نے 1973ء کو آئین کو متفقہ طور پر منظور کرکے پاکستان میں پہلی مرتبہ حقیقی وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام قائم کیا۔ وہ سیاسی قوتیں بھی وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کے حق میں ہوگئیں، جو قبل ازیں مؤثر طور پر اس کی مخالفت کرتی تھیں۔ طاقت کا یہ توازن زیادہ دیر قائم نہیں رہا۔ بھٹو حکومت کا تختہ الٹا گیا۔ افغانستان میں اشتراکی سوویت یونین اور سرمایہ دار بلاک کی جنگ نے پاکستان میں صدارتی نظام کے حامیوں کو مضبوط کیا اور وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کے حامی بہت زیادہ کمزور ہوئے۔ پھر 2001ء میں امریکہ میں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا اور صدارتی نظام کے حامی پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگئے۔ 1977ء سے 2007ء تک 30 سالوں میں صدارتی نظام کے حامی انتہائی طاقتور ہونے کے باوجود 1973ء کے آئین کو رول بیک نہ کرسکے اور نہ ہی وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کا خاتمہ کرسکے۔ صرف اتنا کیا جاسکا کہ 1973ء کے آئین کا حلیہ بگاڑا گیا اور وفاقی پارلیمانی جمہوری حکومت کو برطرف کرنے کا اختیار آئین میں نئے آرٹیکل (2) 58 (بی) کا اضافہ کرکے صدر کو دیا گیا۔ یہ آرٹیکل 1985ء میں غیر جماعتی بنیاد پر بننے والی مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) نے شامل کیا تھا۔ یہ مجلس شوریٰ چاہتی تو 1973ء کے آئین کو رول بیک کرکے صدارتی نظام نافذ کرسکتی تھی لیکن وہ ایسا نہ کرسکی۔ پھر 2002ء کے عام انتخابات میں جنرل پرویز مشرف کی آمریت میں بننے والی پارلیمنٹ بھی ایسا نہ کرسکی۔ قصہ مختصر یہ کہ 1977ء سے 2007ء تک صدارتی نظام کے حامیوں کے انتہائی طاقتور اور وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کے حامیوں کے انتہائی کمزور ہونے کے بعد پاکستان میں صدارتی نظام نافذ نہ کیا جاسکا۔


27 دسمبر 2007ء کو کشمکش کا دوسرا عہد ختم ہوتا ہے، جب محترمہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں قتل کردیا جاتا ہے۔ 16 دسمبر 1971ء کے بعد یہ دوسرا بڑا سانحہ تھا۔ اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی بھی بڑاسانحہ تھا لیکن اس وقت صدارتی نظام کے حامی طاقتور ہورہے تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت نے سازگار بین الاقوامی حالات کے باوجود صدارتی نظام کے حامیوں کو اس طرح کمزور کیا، جس طرح وہ 16 دسمبر 1971ء کو کمزور ہوئے تھے۔ اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کے حامیوں نے 18ویں ترمیم اتفاق رائے سے منظور کی اور 1973ء کے آئین کو اصل شکل میں بحال کیا۔ صدارتی نظام کے حامی تنہا نظر آئے۔ حقائق یہ ہیں کہ 1973ء کا آئین سقوط ڈھاکا کے بعد منظور ہوا اور 18 ویں آئینی ترمیم محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد منظور ہوئی۔ دونوں مرتبہ وفاق پاکستان بچ گیا۔


وزیراعظم عمران خان نے زندگی میں ہمیشہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ انہوں نے کسی سیاسی نظریے یا مقصد کے لیے دکھ نہیں جھیلے۔ انہوں نے صرف سیاستدانوں کو کرپٹ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہیں اندازہ نہیں ہے کہ وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کے حامی ماضی میں ان سے سیاسی طور پر زیادہ طاقتور تھے۔ ماضی میں اس نظام کے حامیوں کے پاس سیاسی نظریہ بھی تھا، جو تحریک انصاف کے پاس شاید نہیں ہے۔ اس معاملے میں عمران خان کو الجھنا نہیں چاہئے۔ صرف حقائق کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کے حامی پاکستان کی تاریخ میں صرف دو مواقع کے علاوہ ہمیشہ کمزور رہے لیکن وہ کبھی ہارے نہیں۔ یہ دو مواقع 16 دسمبر 1971ء اور 27 دسمبر 2007ء کے ہیں۔ صدارتی نظام کے حامی ہمیشہ طاقتور رہے لیکن وہ کبھی صدارتی یا واحدانی طرز حکومت مکمل طور پر نافذ نہ کرسکے کیونکہ پاکستان ایک وفاق ہے اور صرف وفاق کے طور پر ہی قائم رہ سکتا ہے۔

تازہ ترین