• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1971-1970ء کے زمانے میں ڈاکٹر عزیز الحق وہ مرد قلندر تھا جو مال روڈ، پاک ٹی ہاوٴس اور حلقہ ارباب ذوق میں ہر کس و ناکس کو بتاتا کہ پاکستان دولخت ہو رہا ہے اور اگر غالب قومیت یعنی پنجابیوں نے فوج کشی کے خلاف بنگالی عوام کی حمایت نہ کی تو پاکستان کا بچنا مشکل ہے۔ وہ اپنے بنگالی دوستوں کے حوالے دیکر کربناک آواز میں یاد دلاتا کہ ڈھاکہ میں تو ہر دوسرے گھر میں علامہ اقبال اور محمد علی جناح کی تصویر لگی ہوئی ہے جبکہ لاہور کے کسی ایک کونے میں شیر بنگال فضل حق یا قومی شاعر نذرالسلام کا نام و نشان نہیں ہے۔ یہ تعصب کی انتہا ہے جس کا انجام خیر نہیں ہوگا۔
اس کی یہی یہ وہ باتیں تھیں جن سے ایک طرف تو ادب کو خالص موضوعی ماننے والے اس کی جان کے پیاسے تھے اور دوسری طرف بائیں بازو کے سابق رفقاء بھی ان کو غدارِ وطن کہتے تھے۔ ایک نامور ادیب پہلے اپنی ایک کتاب میں ان کے خلاف زہر افشانی کر چکے ہیں اور اب عزیز الحق کے مضامین کے چھپنے پر انہوں نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ ان ادیب سے کوئی پوچھے کہ کیا پاکستان ویسے ہی دولخت نہیں ہوا جس کی پیشگوئی عزیز الحق نے کی تھی؟ سچائی کا تقاضا تھا کہ وہ ان پر تنقید بھی کرتے مگر ان کی دوراندیشی کی داد بھی دیتے لیکن ان کو اللہ واسطے کا بیر نکالنے کے لئے موقع چاہئے، اس کے الٹ ان کے بائیں بازو کے ناراض رفقاء جن میں پروفیسر عزیزالدین جیسے لوگ تھے اب برملا تسلیم کرتے ہیں کہ قومیتوں کے مسئلے پر عزیز الحق کا نقطہٴ نظر سو فیصد درست تھا۔
عزیز الحق پنجاب کے پہلے دانشور تھے جنہوں نے پاکستان میں قومیتوں کے بارے میں نظریہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ غالب قومیت کے عوام کو مظلوم یا پسی ہوئی قومیت کے حقوق کے لئے آواز اٹھانا لازم ہے۔ اسی سے ملک میں وحدت کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں اور غالب اکثریت کے عوام کو بھی اپنے حقوق ملتے ہیں یعنی پنجابیوں کا اپنے جمہوری حقوق کا تحفظ بنگالی مسلمانوں کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ بنگالیوں کے قتل عام اور ضیاء الحق کے مارشل لاء کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔ مشرقی پاکستان کے عوام ملک میں جمہوری حقوق کے لئے قیادت فراہم کرتے تھے اس لئے مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہونے کا سب سے بڑا یہ نقصان ہوا کہ باقیماندہ ملک مضبوط جمہوری طاقتوں کی رہبری سے محروم ہو گیا۔ ہم نے صرف مشرقی پاکستان ہی نہیں کھویا بلکہ ہم نے جمہوریت کے محافظوں کو کاٹ کر علیحدہ کر دیا۔
بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد روشن خیال لوگوں نے عزیز الحق کے نظریئے کو تسلیم کر لیا اور یہی وجہ ہے کہ اب پنجاب میں دوسری قومیتوں پر فوج کشی کی خاص حمایت نہیں پائی جاتی۔ عزیز الحق کے نظریئے کی اہمیت آج بھی اتنی ہی ہے جتنی اس وقت تھی کیونکہ نہ صرف ایک قومیت یعنی بلوچوں کے خلاف فوج کشی ہو رہی ہے بلکہ مختلف اقلیتوں کا جینا دوبھر ہو چکا ہے۔ اگر آج پاکستان کی غالب قومیتوں کے لوگ بلوچوں اور دوسری اقلیتوں کے حقوق کے لئے آواز نہیں اٹھاتے تو جلد یا بدیر ان کی اپنی آزادی بھی چھن جائے گی۔ اس نظریئے کا مذہبی اقلیتوں پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔ غالب فرقے کے لوگ جب مظلوم اقلیتوں کے قتل عام پر خاموشی اختیار کرتے ہیں تو تنگ نظری کی وجہ سے ان کی اپنی بھی سانس گھٹنا شروع ہوجاتی ہے۔
ڈاکٹر عزیز الحق اس طرح کے خیالات و احساسات کو حلقہٴ ارباب جیسے ادبی پلیٹ فارم پر بھی پیش کرتے تھے جس کے لئے مذکورہ نامور دانشور نے انہیں معاف نہیں کیا۔ حلقہٴ ارباب ذوق دو حصوں ادبی اور سیاسی میں منقسم ہوا۔ اس تقسیم کی وجہ ادب کے بارے میں متضاد تصورات تھے۔ عزیز الحق کے ساتھیوں میں اس وقت کے نامور نقاد و شاعر افتخار جالب کے علاوہ منّو بھائی، سعادت سعید جیسے ادیب تھے۔ جس حلقے کو سیاسی کہا گیا اس میں بھی ادب ہی پیش کیا جاتا تھا لیکن اس ادب میں جدیدیت اور وجودی مارکسزم کا رنگ نمایاں تھا۔ عزیز الحق اور افتخار جالب کے ان نظریات نے نئے ادیبوں کی ایک کھیپ پیدا کی، جو نہ اس سے پہلے کبھی تھی اور نہ بعد میں نظر آئی۔ بلاشبہ اس کے پس منظر میں غالب عنصر پیپلزپارٹی اور دیگر ترقی پسند تحریکوں کا تھا۔ یہ تاریخ کے نئے موسموں کا زمانہ تھا اور اس کی مہک سے ادب بھی فیضیاب ہو رہا تھا۔ اس وقت بنیادی سوال یہ نہیں تھا کہ اد ب ہو یا سیاست بلکہ سوال تھا کہ زندگی کے باقی شعبوں کی طرح ادب کو بھی روایتی حد بندیوں سے نکالنا چاہئے یا نہیں۔ مذکورہ دانشور اور ان کے ساتھیوں کے لئے روایتوں کا چلینج کیاجانا ناقابل قبول تھا۔اس سلسلے میں ماضی کے اتصال سے ادب تخلیق کرنے کو بحثوں اور مجادلوں کابڑا موضوع سمجھا جاتا تھا۔ ہمارے خیال میں اپنے ماضی کے سرچشموں سے ادب تخلیق کرنا ادیب کا حق ہے اور کسی کو اس وجہ سے مطعون نہیں کیا جا سکتا لیکن سوال یہ ہے ماضی کے سرچشمے سے فیضیاب ہوتے ہوئے تخلیق کیا کیا جارہا ہے؟ عبداللہ حسین بھی اپنے ماضی سے ’اداس نسلیں‘ جیسا عظیم ناول تخلیق کرتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو بھی اسی ماضی میں سے ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ ’ٹیٹوال کا کتا‘ اور ’کھول دو‘ جیسی کہانیاں تراشتے ہیں۔ رجعت پسند ادیب ماضی کی نوحہ گری کے بھنور میں پھسا رہتا ہے جبکہ ایک ترقی پسند کے لئے ماضی اور گم گشتہ تہذیبیں زندگی کو نئے زایوں سے دیکھنے کا عمل بن جاتی ہیں۔
ڈاکٹر عزیز الحق کے مذکورہ ناقد ان پر یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ وہ انسانی رشتوں کو اہمیت نہیں دیتے تھے اور صرف نظریاتی تعلق کو بنیاد مانتے تھے۔ یہ بات اس حد تک درست ہے کہ وہ ادب سمیت ہر ادارے کو سیاسی تناظر میں دیکھتے تھے لیکن یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ وہ انسانی رشتوں کے منکر تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے ہر سیاسی رشتے میں ذاتی تعلق حد سے بڑھ کر تھا مثلاً مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ شعراء میں منیر نیازی سے ان کے بہت گہرے مراسم تھے۔ میں نے ان دونوں کو کبھی سیاسی گفتگو کرتے نہیں دیکھا بلکہ تعلق بہت ذاتی تھا۔ ایک مرتبہ جب منیر نیازی کی اہلیہ اسپتال میں داخل تھیں اور خان صاحب بہت آزردہ تھے ڈاکٹر عزیز الحق اپنی اہلیہ جمیلہ کو لیکر ان کے گھر گئے تو خان صاحب نے کہا ”یار توں آگیا ایں“ اور اب مجھے اسپتال جانے کا حوصلہ ملا ہے پھر ڈاکٹر عزیز الحق ان کو کار میں بٹھا کر اسپتال لے گئے۔ ڈاکٹر عزیز الحق کے اپنے اکثر ساتھیوں کے ساتھ اسی نوع کے قریبی رشتے تھے۔
ڈاکٹر عزیز الحق ایک وجودی صوفی تھے جن کے فعل و کردار میں کوئی فرق نہیں تھا۔ ہم نے اپنی زندگیوں میں ایسے بہت کم عالم و فاضل دیکھے ہیں جن کی سائنس، فلسفے اور ادب پر اتنی مضبوط گرفت ہو۔ اسی لئے وہ ہماری نسل کے اصل استاد و گرو تھے۔ ان کے منفی معاشرتی زندگی پر ”مردہ معاشرے کی نفسیات“ اور جنسی تفریق پر ”مردانگی کی نفسیات “ جیسے مضامین تحریر کئے وہ آج کے بے سمت پاکستانی سرمایہ دار معاشرے میں بہت اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ اس پہلو سے ہر ذی شعور کو عزیز الحق کے مضامین کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین