• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدارتی نظام بہتر،پارلیمانی نظام میں اکثریت کیلئے سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں،شاہ فرمان

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”جرگہ“ میں گفتگو کرتے ہوئے گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان نے کہا ہے کہ پارلیمانی نظام میں اکثریت کیلئے سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں،صدارتی نظام یہاں پربہتر رہے گا،مستعد رہے گابدعنوانی میں کمی ہوگی بلیک میلنگ نہیں ہوگی ، پارلیمانی نظام کے اندر اکثریت آپ نے رکھنی ہوتی ہے اور اس کے لئےسمجھوتے آپ نے کرنے ہوتے ہیں،مستعد حکومت کے لئے اختیار ہونا چاہئے کہ آ پ پورے پاکستان میں اہل لوگوں کو اپنے پاس رکھیں، ریفرنڈم ہوتو میں اپنا ووٹ صدارتی سسٹم میں ہاں کا دوں گا،صوبے میں سارے اختیارات وزیر اعلیٰ کے پاس ہیں،میں ایک پارٹی کے سینئر رکن کی حیثیت سے گورنر کی حیثیت سے ہدایت اور مشورے کرتا ہوں،پروگرام کے آغاز میں میزبان سلیم صافی نے سوال کیا کہ تو گویا آپ دوسرے آصف زرداری بن گئے؟گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان نے کہا کہ مجھے نہیں پتا آپ نے آصف زرداری کی کس پہلو میں مجھے کمپیئر کیا سلیم صافی نے کہا کہ میں نے اس aspect میں آپ کو ان کے ساتھ کمپیئر کیا جب آصف زرداری صدر تھے تو انہوں نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعےاپنے اختیارات وزیرا عظم اور پارلیمنٹ کو دے دیئے تھے اس لیے میں نے آپ کو زرداری کے ساتھ کمپئر کیا شاہ فرمان نے کہا کہ باقی تو زرداری صاحب کے کئی پہلو ہیں میری کسی طرح سے ان کے ساتھ مماثلت نہیں ہے لیکن اس ایشو پر میں مختلف ہوں انہوں نےاختیارات کو منتقل کیا، ہم نے انضمام پر کام کیا جیسے کہ فاٹا انضمام، اس سے ایک شخص کا اختیار تو چلا گیا، گورنر کا اختیار چلا گیا وزیرا علیٰ کے پاس آگیا، اب فاٹا ایک صوبہ میں ضم ہو گیا ہے۔ شاہ فرمان نے کہا کہ اختیارات سارے وزیر اعلیٰ کے پاس ہیں ، میں ایک پارٹی کے سینئر رکن کی حیثیت سے گورنر کے حیثیت سے ہدایت اور مشورے کرتا ہوں، ہم نے قبائلی کے تمام مراعات بحال کیے چاہے نوجوانوں کی ہو یا بزگوں کی ، صوبے سے باہر فاٹا کے طلبہ کا کوٹہ 222 سیٹیں تھیں جو ہم بڑھا کر 444 کردیئے اسی صوبے کے اندر میڈیکل اور انجنیئرنگ یونیورسٹیز ان کا پرانا کوٹہ برقرار رکھا، اوپن میرٹ پر بھی سیٹیں دی گئی۔ ضلع اور وفاق کی سطح پر جرگے بنیں گے ، اس جرگہ مقامی لوگوں کے تعاون سے بنایا گیا ہے جس کی اجازت سپریم کورٹ بھی دیتی ہے ۔ جرگے کی خوبصورتی یہ ہے کہ کوئی مانے نہ مانے آپ نے مکالمہ جاری رکھنا ہے ۔ اب یہ جو جرگہ بننے گا وہ قبائلیوں کے لیے آسانی ہوگی وہ اپنے فیصلے آئیں و قانون کے مطابق اپنے گھر پر کریں گے۔ یہ جرگے ماضی کے طرح آئین وقانون کے ماورا نہیں ہوں گے۔ اصولی طور پر لیویز اور خاصہ دار فورس کو پولیس میں ضم کر دیا گیا ہے چھ سے سات مہینے کے دوران یہ عمل مکمل ہوجائے گا، تمام اختیارات پولیس کے آئی جی پاس ہونگے۔ہم نے فاٹا کے اندر ہزار ملین رقم دس سال میں خرچ کرنے کا وعدہ کیا ہے ، فاٹا کو فنڈز دینے کیلئے تمام پولیٹیکل پارٹیز تیار ہیں۔انضمام تو ہو گیاالیکشن آنے والے ہیں شاید اس مہینے کے آخر تک انتظامات مکمل ہوجائے۔شاہ فرمان نے کہا کہ کے پی کے وزیرا علیٰ شریف ضرور ہیں لیکن وہ اپنی بات منواتے ہیں کوئی بھی فیصلہ ان کی مرضی ہے بغیر نہیں ہوتا، وہ تمام فیصلے کابینہ میں مشاورت کے بعد کرتے ہیں۔افتخار درانی وفاق میں وزیر اعظم کے معاون ہیں، ان کی موجودگی میں وفاق اور فاٹا میں روابط اچھے ہوتے ہیں۔ ایک سوال کہ اس وقت معیشت تباہ ہے ملک بحران سے گزر رہا ہے انڈیا کے ساتھ کشیدگی ہے چھوٹے صوبوں میں محرومیاں ہیں ان حالات میں ایک نئی بحث چھیڑنایہ مناسب ہے آپ نے اس میں حصہ کیوں لیا جواب میں گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان نے کہا کہ میں تو اس میں جواب دوں گا اگر سیاسی سوال مجھ پر آئے گامجھ سے اگر کوئی سوال پوچھے گا تو میں یہ تو نہیں کہہ سکتا مجھے اس کا نہیں پتہ ۔ ایک سوال کہ جب پارٹی منشور بن رہا تھاگزشتہ سال آپ نے اس میں یہ تجویز دی تھی پی ٹی آئی کی قیادت کو کے ہمیں صدارتی نظام کی تجویز دینی چاہئے جواباً گورنر کے پی کے کہا کہ یہ بات میرے سامنے تو بالکل نہیں آئی میں پی ٹی آئی کا بانی ممبر ہوں میں اس نظام کو بھی دیکھ رہا ہوں لوگوں کو بھی دیکھ رہا ہوں میری ایک رائے بنتی جارہی ہے ۔ ایک سوال کے انڈیا میں کیوں نہیں ہے ادھر پارلیمانی نظام کیوں خوش اسلوبی سے چل رہا ہے جواباًگورنر کے پی کے نے کہا کہ اس کے بارے میں اس لئے تجزیہ نہیں دوں گاکے وہ دوسرا ملک ہے یہ ان کے اندر مداخلت کی بات ہوجائے گی اگر آپ انڈیا میں بدعنوانی دیکھیں بیرون ملک ان کے لوگوں کی منی لانڈرنگ دیکھیںآ پ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کے وہاں وہ سسٹم کتنا کامیاب ہوگاہمیں اس سے سروکار نہیں ہے ایک سوال کے پڑوس میں افغانستان میں جو صدارتی سسٹم ہے اس کا حشر دیکھ رہیں ہیں آپ جواباًگورنر کے پی کے نے کہا کہ میں پہلے یہ بات کی تھی کے جب آپ کسی سسٹم کی بات کریں گے توآپ اس نظام کو اپنی سیاسی نفسیات کے مطابق کریں گے ہمیں ایک نظام کا تجربہ ہے لوگوں کو چالیس پچاس سال تک اس سسٹم کا تجربہ رہالوگ بہتر بتاسکتے ہیں۔ ایک سوال کہ آپ پارلیمانی سسٹم کواپنی نفسیات کے مطابق کرلیں ایک ترمیم کرکے وزیراعظم کو یہ اختیار دے دیں کہ وہ پارلیمنٹ سے باہرملک میں جدھر چاہیں اپنے لئے ٹیکنوکریٹ وزیر بنائیں اور پارلیمنٹ صرف چیک رکھیں ان پرآپ کا مسئلہ حل ہوجائے گاجواباًگورنر کے پی کے نے کہا کہ ایسا نہیں ایسا اس لئے نہیں ہے کہ آپ نے جو اپنے ساتھ اکثریت رکھنی ہوتی ہے پارلیمانی نظام کے اندر جو اکثریت آپ نے رکھنی ہوتی ہے اور اس کے لئے جو سمجھوتے آپ نے کرنے ہوتے ہیں اس کے بڑے نقصانات ہیں مستعد حکومت کے لئے ایک اختیار ہونا چاہئے کہ آپ پورے پاکستان میں اہل لوگوں کو اپنے پاس رکھیں ۔میں اپنے کلچر کے مطابق ترمیم کے ساتھ میرا بالکل خیال ہے کہ صدارتی نظام یہاں پربہتر رہے گامستعد رہے گابدعنوانی کی کمی ہوگی بلیک میلنگ نہیں ہوگی فیڈریٹنگ یونٹس کو تحفظ ملے گاسب کے لئے یکساں مواقع ہوں گے اگر فیئر ریفرنڈم ہوتو میں اپناووٹ صدارتی سسٹم میں ہاں کا دوں گا۔  

تازہ ترین