• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیرا عظم کے معاون خصوصی ندیم بابر کی تقرری سے نیا تنازع

اسلام آباد(خالد مصطفیٰ)وزیرا عظم کے معاون خصوصی ندیم بابر کی تقرری سے نیا تنازعہ سامنے آگیاہے۔وہ ڈیفالٹر اورینٹ پاور کمپنی کے شیئر ہولڈر ہیں اور ان کی تقرری مفادات کے ٹکرائو کا باعث ہے۔اس حوالے سے ندیم بابر کا کہنا ہے کہ مقامی عدالت کے اورینٹ پاور کےخلاف فیصلہ دینے تک ڈیفالٹر قرار نہیں دیا جاسکتا۔تفصیلات کے مطابق،وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ندیم بابر کو اپنا معاون خصوصی بنانا متنازعہ ہوگیا ہےکیوں کہ ندیم بابر توانائی کے شعبے میں خاصی اہمیت کے حامل ہیں اور ان کے پاس اب بھی اورینٹ پاور کے شیئرز ہیں ، جو کہ ایک آئی پی پی یعنی خودمختار بجلی پیدا کرنے والی کمپنی ہے۔اورینٹ پاور ، سوئی ناردرن کی سب سے بڑی ڈیفالٹر کمپنی ہے۔ندیم بابر کی تقرری نے عمران خان کی ساکھ کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔یہ دوسری تقرری ہے جو مفادات کے ٹکرائو کی کٹیگری میں آتی ہے۔اس سے قبل رزاق دائود کی تقرری کی گئی تھی اور ان کی کمپنی ڈیسکون کو مہمند ڈیم منصوبے کا کانٹریکٹ دیا تھا، جب کہ وہ اپنے عہدے پر تھے۔سوئی ناردرن کے خفیہ دستاویزات جو کہ دی نیوز کے پاس موجود ہیں ، اس کے مطابق،اورینٹ پاور کمپنی پہلے بابر ندیم کی ملکیت تھی اور اب بھی اس کمپنی میں ان کے معقول شیئرز ہیں ۔یہ کمپنی سوئی ناردرن کی سب سے بڑی ڈیفالٹر ہے ، جس کی وجہ سے گیس کمپنی کے گردشی قرضوں میں خاصا اضافہ ہوا۔آر ایل این جی کے شعبے میں گردشی قرضوں کے سامنے آنے سے پی ایس او کے مالی مسائل میں خاصا اضافہ ہوا ہے ۔جب کہ اورینٹ پاور جیسی آئی پی پی ، سوئی ناردرن کے مالی مسائل میں اضافے کا سبب بنی ہے اور اسی وجہ سے سوئی ناردرن وقت پر پی ایس او کے واجبات ادا نہیں کرسکی۔دستاویزات کے مطابق،5دسمبر،2018تک اورینٹ پاور نے سوئی ناردرن کو 2اعشاریہ 659ارب روپے کے واجبات ادا کرنے تھے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ آئی پی پی ڈیفالٹر قرار دیئے جانے کے باوجود مہنگی آر ایل این جی کا استعمال کرتی رہی ، جو کہ درآمد شدہ فیول ہے ۔دستاویزات کے مطابق، اورینٹ پاور نے آر ایل این جی کا استعمال کرتے ہوئے 65244756کلوواٹ بجلی پیدا کی۔دی نیوز کی اطلاعات کے مطابق، سوئی ناردرن کے سابق مینجنگ ڈائریکٹر نے اورینٹ پاور پلانٹ کو گیس منقطع کرنے کا نوٹس بھی جاری کی تھا۔آخری نوٹس کی معیاد 9نومبر،2018کو ختم ہوئی لیکن بابر ندیم کے اثرورسوخ کی وجہ سے جو کہ وزیر اعظم عمران خان کےقریبی ہیں اور پہلے وہ وزیر اعظم کے مشیر برائے تونائی تھے اور اب وہ پیٹرولیم ڈویژن پر وزیر اعظم کے معاون خصوصی ہیں ۔اسی وجہ سے سوئی ناردرن کے ایم ڈی نہ صرف اورینٹ پاور کمپنی سے نہ صرف کوئی رقم بازیاب کرسکے بلکہ وہ گیس کنکشن بھی منقطع کرنے میں ناکام رہے۔ایس این جی پی ایل دستاویزات کے مطابق، اورینٹ پاور کو گیس چارجز کی مد میں سوئی ناردرن کو 60کروڑ 30لاکھ روپے ادا کرنا تھے، جب کہ آر ایل این جی چارجز کی مد میں 41کروڑ90لاکھ روپے اور تاخیر سے ادائیگی (ایل پی ایس)کی مد میں 1اعشاریہ637ارب روپے ادا کرناتھے ۔بات صرف یہیں ختم نہیں ہوجاتی کیوں کہ دیگر آئی پی پیز جس میں سیفائر الیکٹرک پاور کو 78کروڑ30لاکھ روپے اور سیف پاور کو 57کروڑ 30لاکھ روپے سوئی ناردرن کو ادا کرنا تھے۔دی نیوز نے جب رابطہ کیا تو انہوں نے تمام الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اورینٹ پاور ثالثی عدالت میں واجبات کا مقدمہ جیت چکی ہے، جب کہ ایک مقدمے میں سوئی ناردرن کو کامیابی ملی۔اب سوئی ناردرن جس مقدمے میں ہاری تھی اس پر لوکل کورٹ سے حکم نامہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔انہوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ ثالثی عدالت کے فیصلے پر اس وقت تک عمل درآمد نہیں ہوسکتا ، جب تک لوکل کورٹ اس پر حکم نامہ جاری نہ کردے۔گیس کے معاملے پر ڈیفالٹر قرار دیئے جانے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ جب تک لوکل کورٹ اورینٹ پاور کے خلاف فیصلہ جاری نہیں کرتی ، اس وقت تک وہ ڈیفالٹر قرار نہیں دیئے جاسکتے۔ان کا کہنا تھا کہ فی الحال مقدمہ لوکل کورٹ میں ہے ، جب کہ سوئی ناردرن کو سیفائر الیکٹرک پاور اور سیف پاور سے بھی ثالثی عدالت میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ندیم بابر کا کہنا تھا کہ وہ اگست 2018میں اورینٹ پاور کمپنی چھوڑ چکے ہیں، تاہم وہ اب بھی شیئر ہولڈر ہیں۔ندیم بابر کو اس سے قبل توانائی ٹاسک فورس کا چیئرمین بنایا گیا تھا ۔انہوں نے بہت سے اداروں جن میں او جی ڈی سی ایل، پی ایس او، ایس این جی پی ایل، ایس ایس جی سی اور پی پی ایل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے نئے ارکان کی تقرری میں اہم کردار ادا کیا تھا۔اس ضمن میں ندیم بابر کو بذریعہ واٹس ایپ ایک سوال نامہ بھیجا گیا، جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 20اپریل،2019کے اخبارات میں بشمول دی نیوز اورینٹ پاور کے وکلا ءنے حقائق بیان کیے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ میں نے اب تک وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ڈویژن کا عہدہ نہیں سنبھالا ہے۔
تازہ ترین