• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لانگ مارچ اسلام آبادکے ڈی گراؤنڈ میں براجمان اور طاہر القادری کے تیر ہدف کے اوپر۔مرض کی تشخیص مکمل” روپیہ طاقت اور بے ایمانی“ نے انتخابی عمل کا تقدس پامال کر دیا ہے۔کیا لانگ مارچ کوئیک مارچ میں بدل سکے گا؟کالم نے نتائج سے پہلے اشاعت کاحصہ بننا ہے بہت سارے اینکرز اور کالم نویس جو اس لانگ مارچ پر تبرا بھیج چکے تھے مارچ کے شرکاء سے مدبھیڑ ہوتے ہی کھیسائے نظر آئے۔ دلیل آفتاب اس کا ظہور ہی ہے۔ مسئلہ طاہر القادری کی ذات کا ہر گز نہیں اس پر تو بحث ہوتی رہے گی۔
سوال یہ ہے کہ علامہ کا انقلابی ایجنڈہ کسی منڈھیر چڑھتاہے یا نہیں اور کیاا لطاف حسین کے نقشِ قدم پریو ٹرن کی ہزیمت کا شکارتو نہیں ہو جائے گا۔اگلے مرحلے ملک کے مستقبل پر انمٹ نقوش چھوڑ یں گے۔اگر کرپٹ مافیا الیکشن کے عمل سے باہر ہو گیا تو مشرق سے ابھرتا سورج نئی صبح کی نوید دے گااور اگر یہ احتجاج اور مہم بغیر کسی مثبت نتیجے کی منتج ہوئی تو بدقسمتی کی یہ لیل اس ملک کو تاریکی کی مزید گہرائیوں میں دھکیل جائیں گی۔
علامہ صاحب کا یہ مطالبہ کہ انتخابات کو کرپٹ لوگوں سے پاک کروا دیں، آرٹیکل 62/63 کو اس کی جسم و روح کے ساتھ نافذ کر دیں، ایسا قبیح اور کریہہ کہ طاہر القادری کاقومی میڈیاپر کڑا ٹرائل اور ان کی سر پھٹول شروع ۔اگر ان کے مطالبات پر بھی غوروخوض ہو جاتاتوشاید اخلاص کی مقدار کا تعین بھی ہو جاتا۔ ن لیگ کے ہمنوا لکھاری ، حواری تو طے شدہ مسودے کے مطابق آدھے سچ کوبیچنے میں جت چکے ہیں۔ چشمِ تصور میں قادری مہم کی موت سیاسی جماعتوں کی حیات سمجھی جا رہی ہے۔ عمران خان جو مالکان کی گلے کی ہڈی بن چکا ہے، اسکے نام پر ہی ان کی طبیعت مچل جاتی ہے۔ نسیم حجازی کے پروں والے گھوڑے کا سوار عمران خان پر قلم رواں اور ہمیشہ مشرف کی ڈکٹیٹر شپ کی اصل وجہ بلا جھجھک عمران خان ہی بتاتے ہیں۔ایسے ”چوروں“ کو ہی تو ”چتر “کا لقب نصیب ہوا۔
طاہر القادری کا ظہورقائدین پر قیامت کیوں ڈھا رہا ہے؟ اس نے کون سی بات کہہ دی جس نے قائدین، لکھاری اور لواحقین کو لرزہ براندام کر رکھاہے ۔علامہ صاحب کے ماضی بنا ”حی علی الفلاح“کی تضحیک کیوں۔ مافیا کو اسمبلیوں میں پہنچنے سے روکنا ماورائے آئین کیسے ہوا؟ بیوپاری، تاجر، سوداگر منہ مانگی قیمت لگا کر پیسے کے بل بوتے پر گھوڑے، گدھے ، خچر اسمبلیوں کی زینت کیوں بنائیں۔
موجودہ اسمبلی ہی دیکھ لیں۔ مادرِ وطن کی عزت پامال اور بے حمیتی راج کر رہی ہے ۔ وطن عزیز آگ میں جل چکا۔کیا اسمبلیوں کے اندر کسی نے خودسوزی کی؟ اب وقت آن پہنچا قوم کے پیسے کا حساب بھی دنیا ہو گا اور جیل بھی جانا ہو گا۔اس ملک نے رہنا ہے تو طاہر القادری کے مطالبات کی روشنی میں منعقدہ انتخابات ہی اس کا واحدحل ہیں وگرنہ بدقسمتی کی لیل غروبِ آفتاب سے پہلے ہی مقدر ٹھہرے گی۔
عزتِ مآب چیف جسٹس صاحب سے موٴدبانہ گزارش کہ جن قائدین نے حکومتی عہدے رکھے ،مال بنایا، مال لوٹایا اثاثوں کو چارچاند لگائے، حکومتی وسائل سے کاروبار کو توسیع دی، اپنی جائیدادوں کے قرب وجوار میں اربوں، کھربوں کے ترقیاتی کا م کروائے جن کے رحم وکرم پر کھربوں ڈالر کے تخمینے رہے ، جنہوں نے اداروں کو اپنے گھروں کی لونڈی بنائے رکھا۔ 18 کروڑ لوگوں کو ان کی منڈیوں کا مال بنانا اور ایسوں کے نرغے سے چھڑوانا آپ کی ذمہ داری ہے۔مجھے وکلاء برادری سے بھی شکایت ہے ”تحفظ ِآئین کانفرنس “ ”تحفظ ِمافیاکانفرنس“ کا رخ کیسے اختیار کر گئی ۔
آپ نواز شریف اور پیپلزپارٹی سے جمہوریت کادرس ضرور دلوائیں لیکن کہیں چشمِ تصورمیں یہ بھی تھا کہ عدلیہ اور اداروں کے ساتھ بے حمیتی کے ریکارڈ قائم کرنے والے کس منہ سے اصول، آئین اور قانون کی بات کر رہے ہیں۔سپریم کورٹ پرحملوں سے لے کر ڈکٹیٹر کو ملک کی زینت بنانے والے کس منہ سے آئین و قانون کی حکمرانی کا درس دے رہے تھے۔ان کے خطبات قانون دانوں کی توہین تھی ۔
جب قائدین ڈکٹیٹر کا ساتھ دینے والوں پر انگلی اٹھا رہے تھے تو یقینا یہ بھول چکے تھے کہ 4 انگلیاں قائدین کی اپنی طرف تھیں۔ امریکہ بہادر کی 2013 کے انتخابات میں مفادات اور اسٹیکس ہماری عوام اور سیاستدانوں سے بھی کچھ زیادہ ہیں۔2008 میں ”ن لیگ“ اور پی پی پی کے گٹھ جوڑ سے امریکی ایجنڈے کی تکمیل کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا اورآج ملک کی وحدت پارہ پارہ ہے۔ جنگ وجدل کا ماحول ایسا کہ امن کا فیصلہ ملک دشمن اور سماج دشمنوں کے رحم وکرم پر۔ انسان گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں۔ بلوچستان کی سب سے معصوم اور شریف النفس ہزارہ قومیت کو جب جی چاہتا ہے کاٹ کر رکھ دیا جاتاہے۔ مہاجروں اور پٹھانوں کا خون اس لیے ارزاں کہ اسمبلی کے اندر پارٹیوں کی بارگیننگ پوزیشن مستحکم ہو ۔چار سال تک 6 جماعتیں کیسے شیروشکراور یکجان ہو کر رہیں۔ زرداری کو صدارت کے منصب پر فائزکرنے میں یکسو۔ قوم کے اوپر مشرف اور زرداری کی لعنت قائدین کی مرہونِ منت رہی۔ امریکہ 2013 کے انتخاب کے نتائج بھی 2008 کے نتائج کی تکرار چاہتا ہے تاکہ پاکستان کا کرپٹ ٹولہ اس کے رحم وکرم پر رہے اور پاک فوج کو کمزور کر کے ملک کی بنیادیں اکھاڑنے کاعمل تیز ہو سکے ۔نیٹو کنٹینرزکا اسلحہ ملک کے طول وعرض میں ڈال دیا گیا۔ شاطر کے ارادے اور مہرے ظاہر ہو چکے ۔ شاطر کے مہروں کو اگر اقتدار ملا (وکی لیکس میں قائدین کا اصل چہرہ موجود) پاک فوج کی بیخ کنی پہلا مرحلہ اورملکی سا لمیت کی چولیں ہلنا خود کا ردعمل ہوگا۔
علامہ صاحب کے مطالبات میں ایسا کونسا تعفن ہے جس نے آپ قائدین ، لواحقین اور طبلہ نوازوں کی قوتِ شامہ کو متاثرکیا۔ قادری کی ذات اہم نہیں اہم تو ”حی علی الفلاح“ کی آوازہے ۔ علامہ صاحب آنے والے برے وقت سے بچنے کے لیے متحدہ ومشترکہ جدوجہد کی بات کر رہے ہیں اس میں کیا برائی ہے کوئی مفتی یہ بتائے کہ گناہ گار سے آپ فلاح کی طرف بلانے کا حق کیسے سلب کر سکتے ہیں؟
کیا کسی کے کہنے پر نیک عمل کرنے کا ثواب ساکت ہوسکتا ہے۔وطن ِ عزیز پر کڑا وقت ہے ۔ ہمارے”پتلے“ سیاستدانوں اورفوجی ڈکٹیٹر زنے وطن عزیز کو امریکہ بہادر کا ترنوالہ بنا ئے رکھا۔ہم نے کمبل کی خواہش میں امریکہ کو جپھی ڈال رکھی ہے ۔ اب یہ کمبل وطن عزیز کے لیے جان لیوا بن چکا۔
تحریک انصاف نے بھی حیران کر دیا ہے آخر کب تک غیر سیاسی لوگوں کی یرغمال رہے گی۔ تحریک انصاف کے قائدین کی یہ منطق بالکل سمجھ نہیں آئی کہ طاہر القادری صاحب نے لانگ مارچ میں جلدی کر دی یا لانگ مارچ سے الیکشن ملتوی ہوجائیں گے بلکہ الیکشن کی بے توقیری تومطالبات نہ ماننے سے ہو گی جبکہ ان مطالبات کا موجد عمران خان ہی تو ہے ۔کیا ن لیگ اور PPP کوپہلے واردات کرنے دی جائے اور پھر اس کے ردعمل کے طور پر لانگ مارچ کیا جائے ۔یعنی بعد از خرابی بسیار۔حضور جب الیکشن کا بگل بجا تو نہ تحریک انصاف لانگ مارچ کر پائے گی اور نہ شارٹ مارچ اور الیکشن اور عوام ان لوگوں کے رحم وکرم پر ۔
2008 میں آپ نے بائیکاٹ کرکے دیکھا تب بھی عرض کی تھی جب انتخابی عمل شروع ہوجائے توآواز نقارخانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ جب نگران سیٹ اپ بن گیا اور انتخابی عمل شروع ہوگیاتو لٹیرے ہی مقدر بنیں گے ۔تحریک انصاف کا تو رہنما اصول ہی یہی ہے کہ قوم کو لیٹروں کے نرغے سے نکالنا ہے ۔ آپ ہی نے توآسرا دیا تو قوم جاگ اٹھی۔
پہلی دفعہ قوم کو جگانے کا عمل PTIنے ہی شروع کیا۔علامہ محتر م آپ کے اوپر پیشتر دھبے دھل سکتے ہیں۔ اگر آپ بے غرض آگے بڑھیں خالی آپ کا سیٹ اپ گاؤں گاؤں ، شہر شہر لٹیروں کوگھسنے نہ دے تو کامیابی قدم چومے گی ۔
آخر اس میں حرج ہی کیا ہے کہ
1 ۔کسی بدنام ،جھوٹے ، خائن شخص کو انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
2 ۔اداروں کو برباد کرنے والے نااہل اور کرپٹ انتخابی عمل کا حصہ نہ بن سکیں۔
3 ۔ دورانِ حکومت جائیداد اور اثاثے بڑھانے والے اور ملکی دولت کو غیر قانونی طریقے سے غیر ممالک منتقل کرنے والے نااہل قرار پائیں۔
4 ۔ اربوں روپے کا قومی سرمایہ اپنی جائیداد اور رہائشوں کے گردونواح میں غیر قانونی خرچ جرمِ قبیح ہو۔
5۔ہر ضلع میں فوج کا ایک افسر سیشن جج کے ساتھ تعینات کیا جائے ۔
6۔چونکہ اسکول ٹیچرز سیاسی جماعتوں کے مرہونِ منت ہیں چنا نچہ اپنے ضلع سے باہر ہی تعینات ہوں۔
طاہر القادری کی مافیا کے خلاف بھر پور اذان۔ ”لبیک“ قوم کی ضرورت۔
تازہ ترین