• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیرِ خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا یہ انکشاف کہ بلوچستان کے علاقے اورماڑہ میں پاک فوج کے 14اہلکاروں کو بسوں سے اتار کر شہید کرنے والے دہشت گرد ایران میں اپنے ٹھکانے اور پناہ گاہیں رکھنے والے بلوچ علیحدگی پسند تھے، جن کے تانے بانے افغانستان سے بھی ملتے ہیں، حالات پر نظر رکھنے والوں کے لئے حیرت انگیز تو نہیں لیکن فکرمندی کا باعث ضرور ہے۔ دہشت گردی نے برسوں سے ہمارے خطے میں جس طرح ڈیرے ڈال رکھے ہیں، اُس کے نتیجے میں ایک ملک کی سرزمین کا دوسرے ملک میں دہشت گردی کے لئے استعمال ہونا کوئی انہونی بات نہیں لیکن اس پر قابو پانے کے لئے تمام ملکوں کو ٹھوس اقدامات کے ذریعے اپنی سنجیدگی کا ثبوت لازماً فراہم کرنا چاہئے۔ اِس ضمن میں پاکستان کی مسلسل اور مؤثر کوششیں اظہر من الشمس ہیں تاہم فی الحقیقت یہ سب کا مشترکہ مسئلہ ہے اور اس کے پائیدار حل کے لئے مشترکہ کاوشوں اور اقدامات کا ناگزیر ہونا بالکل واضح ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ متعلقہ ملکوں کی قیادتیں پوری سرگرمی اور اخلاص کے ساتھ صورتحال سے نمٹنے کے لئے باہمی تعاون بڑھائیں اور تمام ضروری تدابیر عمل میں لائیں۔ اس تناظر میں یہ اطلاع کہ ایرانی وزیرِ خارجہ نے سانحہ اورماڑہ میں ایرانی سرزمین کے استعمال ہونے کے معاملے کی مکمل تحقیقات کی یقین دہانی کرائی ہے، یقیناً اطمینان بخش ہے اور پاکستانی عوام اس پر فوری عمل درآمد کی توقع رکھتے ہیں۔ پاکستانی وزیرِ خارجہ نے ہفتے کو وزارت خارجہ اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ چند گھنٹے پہلے اُن کا اپنے ایرانی ہم منصب جواد ظریف سے رابطہ ہوا اور اُنہیں اِس واقعے کی تمام تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اورماڑہ واقعے میں ملوث بلوچ دہشت گرد تنظیموں کے اتحاد بی آر اے کے تربیتی کیمپ ایران میں ہیں، اِس سلسلے میں پڑوسی ملک کو پوری تحقیقات کے بعد قابل عمل معلومات فراہم کر دی گئی ہیں اور امید ہے کہ ایران، پاکستان کے ساتھ ہمسائیگی اور برادرانہ تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے اُن تنظیموں کے خلاف کارروائی کرے گا۔ دوسری جانب ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف کے جاری کردہ بیان میں اورماڑہ دہشت گردی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ حملہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ ٔایران سے عین پیشتر کیا گیا، جس سے دہشت گردوں کے عزائم واضح ہوتے ہیں۔ جواد ظریف کا کہنا تھا کہ دہشت گرد، انتہا پسند اور اُن کے معاون دونوں مسلم ریاستوں کے تعلقات سے خوف زدہ ہیں جبکہ ایران، پاکستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ کھڑا ہے اور خطے میں دہشت گردی کے سدباب کے لئے ہر ممکن تعاون کرے گا۔ پاک ایران سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لئے پاکستان اپنے طور پر جو مزید اقدامات کر رہا ہے شاہ محمود قریشی کے مطابق اُن میں افغانستان کی طرز پر ایران کی سرحد پر بھی باڑ لگانے، ایران کے ساتھ ساڑھے نو سو کلومیٹر طویل سرحد کی نگرانی کے لئے فرنٹیرٔ کور کی نئی فورس کا قیام اور سرحد کی ہیلی کاپٹر کے ذریعے نگرانی کے فیصلے شامل ہیں۔ امید ہے کہ ایران ان کاوشوں کو کامیاب بنانے میں اپنا حصہ پوری گرم جوشی کے ساتھ ادا کرے گا۔ ایرانی وزیر خارجہ کی یہ رائے حقائق کے عین مطابق نظر آتی ہے کہ وزیراعظم پاکستان کے دورۂ ایران سے محض چند روز پہلے سانحہ اورماڑہ کا وقوع پذیر ہونا نہایت معنی خیز ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ یہ ان طاقتوں کے کارندوں کی کارروائیاں ہیں جو پاکستان اور ایران کے درمیان شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ اورماڑہ واقعے سے کچھ ہی پہلے کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی میں ہونے والی دہشت گردی کے پس پردہ بھی پاک ایران تعلقات کو متاثر کرنے کے خواہشمند عناصر کی کارفرمائی عین ممکن ہے۔ اس صورت حال میں وزیراعظم عمران خان کا دورۂ ایران دونوں برادر ملکوں میں بدگمانیاں پیدا کرنے کی سازشیں کرنے والی طاقتوں کے منصوبوں کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور یہ توقع بےجا نہیں کہ دونوں ملکوں کی قیادتیں اِس مقصد کے لئے اس موقع کو بہترین طور پر استعمال کریں گی۔

تازہ ترین