• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خود ستائشی کی بیماری کے شکار مسیحا، اسی طرح اپنے جانثاروں کی بھینٹ دیا کرتے ہیں، چاہے مملکت بغلیں بجایا کئے۔ ایسا کپتان بھی کسی نے نہ دیکھا ہو گا کہ وہ کھیل کے جاری رائونڈ کے اہم ترین مرحلے پر اپنی آدھی فرنٹ لائن کو دشنام دے کر پویلین بھیج دے۔ کہاں ڈریم ٹیم کے اتنے چرچے تھے اور کہاں اُس کی ’ایسی‘ درگت کہ وہ منہ دکھانے قابل نہ رہے۔ مسیحا ہو یا صدر، ہوتا ایک ہی ہے، باقی سب شاملِ باجہ ہوتے ہیں۔ ملکی مفاد کو نقصان پہنچانے والے اور بُری کارکردگی دکھانے والے پھر بھی شاملِ باجہ رہیں مگر اُن کی توقیر کون کرے گا۔ اسد عمر جیسے طرم خان رسوا ہو کر تیرے کوچے سے نکلے تو ستائش کرنے کے قابل کہاں رہے، اُن کی جگہ ملی بھی تو حفیظ شیخ کو جن کے بارے میں آصف زرداری نے کہا تھا کہ اُنہوں نے حفیظ شیخ کا نام اِس اُمید پر چنا کہ سندھی ہے کم از کم چھائوں میں تو مارے گا۔ اب معلوم نہیں شیخ صاحب خان صاحب کو دھوپ میں مارتے ہیں یا کہیں اور؟ رہی بات ہمارے فواد چوہدری کی تو میڈیا کو خوار اور اپوزیشن کو رسوا کرنے کے بعد اب وہ جانے سائنس و ٹیکنالوجی کے ساتھ کیا کریں گے۔ خیر سے تحریکِ انصاف کے ٹیلنٹ سے بھرے سمندر میں کوئی منتخب شخص ایسا نہ تھا جو آدھی درجن کلیدی اسامیوں کو پُر کر سکتا۔ ایسے میں ٹیکنوکریٹس کی طلسماتی کرامات کی جانب رجوع صدارتی طرز کی مطلق العنانی حس کی تشفی فراہم کر سکتا تھا۔ لگتا ہے کہ پارلیمانی نظام کے بل بوتے پہ بنی کابینہ کہاں راس آنا تھی۔ ابھی تو کپتان نے 9کھلاڑیوں کی اکھاڑ پچھاڑ کی ہے۔ جو قابلِ ذکر بچ رہے ہیں، وہ یا تو کونوں کھدروں میں چھپ رہیں گے یا پھر جلد ہی رخصت ہو جائیں گے۔ آئندہ فیصلے نمائشی کابینہ نہیں، ٹیکنوکریٹس کریں گے۔ جو صدرِ اعظم عمران خان کو جوابدہ ہوں گے، خواہ پارلیمنٹ کیسے ہی آسمان سر پہ اُٹھاتی رہے۔ اب وفاق میں ٹیکنوکریٹس ہوں گے اور اہم معاشی پالیسیوں کے لئے ایک بورڈ ہو گا، جس میں عبدالحفیظ شیخ کے ساتھ ساتھ سابق وزیرِ خزانہ شوکت ترین، سابق گورنر اسٹیٹ بینک سلیم رضا، بینکار صادق سعید، ماہرِ ٹیکس شبیر زیدی اور شیراعظم مزاری ہوں گے۔ کل ملا کے ڈیڑھ درجن ٹیکنوکریٹس وزیراعظم آفس اور اہم وفاقی وزارتوں کو صدرِ اعظم کی منشا سے چلائیں گے، جنہیں ان شعبوں کی کچھ خبر نہیں۔ ایسے میں کابینہ فقط داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے کو طلب و برخاست ہو گی۔ رہا وفاق اور صوبوں کے تعلق کا معاملہ تو پہلے ہی تین صوبے مرکز چلا رہا ہے، جو ایک سندھ بچا ہے اُس کا بوریا بستر تقریباً لپٹ چکا ہے اور جو صوبے میں بچا کھچا رہ گیا ہے، وہ احتساب کی تاریخیں بھگتے یا گھر سدھارے۔ بڑے کپتان نے جو انڈر اٹھارہ کی ٹیموں کے صوبائی کپتان کھڑے کئے تھے، وہ اور اُن کے انڈر ٹرائل ٹیمیں بھی آخری نوٹس پہ ہیں۔ پنجاب میں تو ایک متبادل نظام لایا جا رہا ہے، جہاں پانچ سات ایڈیشنل چیف سیکرٹریز کا ایک بورڈ صوبے کو چلائے گا اور بزدار بکریاں چرایا کئے۔ خیبرپختونخواکا معاملہ پیاروں کو واپس لانے کا ہے، لیکن وہاں کے لئے بھی بلوچستان طرز کا مخلوط نظام ہو گا کہ وہاں ویسے ہی خدشات رونما ہو رہے ہیں جیسا کہ بلوچستان میں۔ سلامتی کے اعتبار سے بھی یہ دو صوبے دو ہمسایوں کے ناتے دردِ سر ہیں۔خیر سے عمران خان ’’تبدیلی‘‘ کے لاینحل ایجنڈے پہ قائم ودائم ہیں۔ خیر نہیں ہے تو کابینہ یا پھر صوبائی حکومتوں کی۔ وہ حکومت چلانے کو بھی کرکٹ ٹیم کی کپتانی کے مترادف سمجھتے ہیں گو کہ وہ حفیظ کاردار طرز کے زیرک کپتان بھی نہ تھے۔ ورلڈ کپ ٹیم سے ملاقات میں اُنہوں نے خوب کہا ہے کہ اگر کپتان بہادر ہو گا تو ٹیم بھی بہادر ہو گی، لیکن وہ کپتان سرفراز احمد کی موجودگی میں یہ نہ کہہ پائے کہ اگر کپتان نااہل ہو گا تو ٹیم کی حالت کیا ہو گی۔چلئے ’’تبدیلی‘‘ کے ہاتھوں کابینہ تو فارغ ہوئی اور وہ بھی جو ناکارہ ثابت ہوئے لیکن صاحب یہ تھے کس کا حسنِ انتخاب؟ اگر نظرِ انتخاب اتنی ہی کمزور تھی تو جو ہیرے اب تلاش کئے گئے ہیں اُن کے پاس وہ کونسا الہ دین کا چراغ ہے جو ایک پژمردہ معیشت میں جان ڈال کر ایک دیو ہیکل ریاست کو ہر جانب نبرد آزما رہنے میں ایندھن فراہم کر سکیں گے۔ اپنے اپنے گناہوں اور ناکامیوں کو دوسروں کے سر ڈال کر حکومت و ریاست کی مُکتی ہونے سے رہی۔ آخر کب تک آپ ماضی کی دو حکومتوں کے گناہوں کے کھاتے میں اپنی بے سروپا پالیسیوں کی نامرادیاں ڈالتے رہیں گے۔ وزیراعظم کو خود معلوم نہیں کہ وہ چاہتے کیا ہیں۔ وہ اب بھی کنٹینر پہ ہیں۔ ہر روز اپوزیشن اُن کے تمسخر اور دشنام کا نشانہ ہے اور اب اپنی ہی کابینہ کے اہم ترین کردار اُن کی مشقِ ستم کا شکار۔ جبکہ ٹیکنوکریٹس کو تحریکِ انصاف کی بے مغز نعرے بازی سے کیا لینا دینا، انہیں تو فکر اپنے اعدا کی ہو گی، بھلے تحریک انصاف کے دلپذیر نغمے کیسے ہی سوہانِ روح ہو جائیں لیکن کپتان صاحب آپ جو بھی الیون لائیں جواب تو آپ کو پارلیمنٹ کو ہی دینا ہے، جہاں آپکی اکثریت ہوا میں معلق رہتی ہے اور کسی چھوٹے سے جھونکے سے کسی بھی طرف جا سکتی ہے۔ یہی حالت پنجاب میں ہے جہاں اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کیلئے ایک درجن سے بھی کم ایم پی اے چاہئیں۔ 8مہینے میں کابینہ کے بڑے حصے کا ناکام ہو جانا عمران خان کی حکومت کیلئے اس سے بڑا تازیانہ کیا ہوگا؟

تازہ ترین