• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق وفاقی وزیر صحت صاحب اپنے عہدے سے نااہلی کی وجہ سے ہٹائے جانے پر ناراض نظرآتے ہیں۔ بقول ان کے دواؤں کی قیمتوں میں اضافہ ان کی لاعلمی یا نااہلی کی وجہ سے نہیں ،بلکہ سابقہ حکومت کے دور میں ہی ہوچکا تھااور بقیہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے ہوا۔یعنی دواؤں کی قیمتوںمیں ردوبدل " مارکیٹ میکنزم" کی وجہ سے ہوتا ہے۔ "ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی "کا تو کوئی کردار نہیں ہے ۔ اس اتھارٹی کے 2012 کے ایکٹ کے مطابق یہ ایک "خودمختارادارہ" ہے۔ اوردواؤں کی قیمتوں سے متعلق اس کا فنکشن "regulation for pricing and mechanism for fixation of prices of various therapeutic goods under its ambit"ہے۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دواؤں کی قیمتوں کا مکمل نظام ڈرگ ریگولیٹری ادارے کے تحت آتا ہے جس میں قیمتوں کو fix رکھنا بھی اس کے ہی دائرے اختیار میں ہے ۔ یہ اتھارٹی وزیر صحت کی ماتحت ہے پھرمارکیٹ مکینزم پہ الزام کیوں؟نااہلی کا ثبوت تو آپ خود دے رہے ہیں کہ آپ کو اپنی آئینی ذمہ داریوںکاعلم ہی نہیں!اسی اتھارٹی کی ایک اور ذمہ داری دواؤں اور ویکسین کو بین الاقوامی معیار کے مطابق رکھنااور ان کی مسلسل فراہمی ہے۔لیکن افسوس یہ اپنی جنوری 2019 کی پریس ریلیز میں مجبوریوں کا رونا زیادہ روتے نظرآتے ہیں توپھر خودمختاری کس بات کی؟اسی طرح ارباب اقتدار کے بلندوبانگ دعوؤں کے باوجود جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر دیکھنے میں آتے ہیں۔ جہاں کچرے کا انبارآنکھوں کو برالگتا ہے۔ وہیں تعفن اور طرح طرح کے Bacteriaاور Virusesکی افزائش کا سبب بھی بنتا ہے۔ایک طرف تو کوڑا کرکٹ دوسری طرف پینے کے لیے صاف پانی کی فراہمی ناہوناگویاسونے پرسہاگہ ہے۔ گندے پانی کی وجہ سےCholera,BacillaryDysentery ,Hepapitis A&E،ٹائیفائیڈ کے بہت زیادہ کیسز رپورٹ ہورہے ہیں۔ ان میں سے ٹائیفائیڈ تو بہت ہی سنگین صورت اختیار کرگیا ہے۔ اور XDR ٹائیفائیڈ جس میں سوائے" دو" Antibiotics کے کوئی اوردوسری دوا کارگر نہیں ہورہی اور ٹائیفائیڈ میں عام طور پر استعمال ہونے والی تمام دوائیں بے اثررہتی ہیں۔جراثیم کی یہ بڑھتی ہوئی مقدار طرح طرح کی بیماریوں کا سبب بن رہی ہے۔ نزلہ، زکام، کھانسی، بخارہردوسرے شخص کو بیمار کررہی ہے اور یہ مسائل عام دواؤں سے ٹھیک بھی نہیں ہورہے۔ بلکہ مریض مہینوں ان شکایات کے ساتھ ہسپتال کے چکرلگارہے ہیںاوریہ کسی ایک مخصوص پسماندہ علاقے کا ذکر نہیں بلکہ کراچی جیسے شہرمیں یہاب صحت کی صورتحال سنگین ہوتی جارہی ہے۔انتہا تو یہ ہے کہ جن جان لیوا بیماریوں سے بچاؤ کے لیے پیدائش کے بعد ٹیکے لگائے جاتے تھے ان بیماریوں کے اور خاص طور پر Diphtheriaکے کئی کیسز رپورٹ ہورہے ہیں۔ بااثر گھرانوں کے افراد تو ان بیماری کے علاج کے لیے ان تھک دوڑ بھاگ کے بعد antitoxin متعلقہ ادارے سے حاصل کرلیتے ہیں۔ مگر ایک ان پڑھ غریب شخص جان کی بازی ہارجاتا ہے۔عرصہ دراز سے پولیو کا شور سن رہے ہیں اور پولیو مہم23 سال ہنوز جاری وساری ہے۔ مگر Diphtheriaکاbooster بھی ہر دس سال پر لگنا چاہیئے جس کا کوئی انتظام نہیں ہے اور نہ ہی ارباب اقتدار کو اس کی پرواہ ۔۔۔ان کی بلا سے عوام مہلک بیماریوں کا شکار ہوں یا جان سے جائیں ۔ایک مفاد پرستوں کا ٹولہ ہے جو اپنا الو سیدھا رکھتا ہے اور کسی ایسے کام کی حامی نہیں بھرتا جس سے عام آدمی کو فائدہ ہو۔لوگ مہلک بیماریوں کا شکار ہوکراس کو اللہ کی رضاسمجھتے ہوئے جان کی بازی ہارتے جائیں ۔یا Population control کے لیے حکومت کی ایک بلاواسطہ تحریک سمجھاجائے؟کیا فلاحی ریاست میں ایسا ہی ہوتا ہے؟ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ خناق یعنی Diphtheriaکھالی کانسی یعنی pertussis تشنج یعنی Tetanusکی ویکسینDPT کے نام سے پیدائش کے بعد لگائی جاتی ہے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف مدافعت کم ہوجاتی ہے۔ اس لیے بالغان میں Vaccine DTہر دس سال بعد لگنی چاہیئے ۔مگر اس کی فراہمی محدودہونے کی وجہ سے بچوں والی DPT Vaccine بالغان کودی جائے تو کافی بہتری آئے گی مگر ایسا نہیں کیا جارہا ہے اس کے لیے وزارت صحت اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور EPI والوں کو متحرک اور فعال ہونا پڑے گا۔اور اس کے ساتھ ساتھ احتیاطی تدابیرلینی ہوں گی تاکہ علاج پہ خرچہ کرنے کے بجائے بیماریوں کو پیدا ہونے سے روکاجائے۔کیونکہ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔

تازہ ترین