• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سخت شرائط پرIMF قرضہ پروگرام جاری نہیں رہے گا، ڈاکٹر اشفاق

اسلام آباد (خالد مصطفیٰ) وزارت خزانہ میں گارڈز کی تبدیلی کے ساتھ پاکستان اگرچہ آئی ایم ایف پروگرام میں شریک ہوجائے گا، یہ کام نہیں کرے گا جیسا کہ یہ پروگرام سخت شرائط کے باعث بیچ میں کہیں معطل ہوجائے گا۔ اکنامک ایڈوائزری کونسل کے رکن، NUST میں ہیومینٹیز اور اسپیشل سائنسز کے ڈین اور معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے دی نیوز کو بتایا کہ ملک کے نئے اقتصادی منیجر ڈاکٹر حفیظ شیخ کو پاکستان کی تباہ شدہ معیشت کو بہتر بنانے کیلئے پلان بی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر خان نے دلیل دی کہ اس مرتبہ آئی ایم ایف کا ڈی این اے بالکل مختلف ہے جیسا کہ یہ امریکا، بھارت اور چند دیگر اقوام کے شدید دباؤ کے تحت ہے جو سی پیک کے اندر اور اس سے باہر بشمول دفاع سے متعلق تمام چینی منصوبوں کی لمحہ با لمحہ تفصیلات جاننا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بہت فکر مند ہیں اور اسد عمر کو وزارت خزانہ کی حیثیت سے ہٹائے جانے کی وجہ جاننا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے خطرے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسد عمر نے اپنے امریکی دورے کے دوران آئی ایم ایف سے غیر اقتصادی وعدے کئے ہیں جیسے کہ سی پیک کے اندر اور اس سے باہر منصوبوں کے بارے میں حساس معلومات تک رسائی، اگر معاملہ یہی ہے تو یہ بہت بھیانک پیشرفت ہے۔ ڈاکٹر خان نے وزارت خزانہ کے نئے گارڈ کو بھی یہ کہتے ہوئے خطرے کی اطلاع دی کہ وہ اپنی تحریروں میں نہایت اہم ہوں گے جیسا کہ وہ 2010 تا 2013 کے درمیان تھے جب ڈاکٹر شیخ پی پی پی دور میں وزارت خزانہ تھے۔ انہوں نے ڈاکٹر شیخ کو آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت قومی سلامتی پر کسی بھی وعدے سے یہ کہتے ہوئے خبردار کیا کہ یہ پاکستان کی معیشت کے ساتھ ساتھ ملک کی سلامتی کیلئے بھی بہت نقصان دہ ہوگا۔ انہوں نے اس یقین کا بھی اظہار کیا کہ دنیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کیلئے انڈو پیسیفک الائنس بھی ایک ساتھ کھڑا ہے اور انہوں نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) اور آئی ایم ایف کے ذریعے سی پیک سے پیچھے ہٹنے اور دہشت گرد تنظیموں کے خلاف سخت کارروائیوں کیلئے پاکستان پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔ لہٰذا اس صورتحال کے تحت آئی ایم ایف پروگرام کافی سخت ہوگا اور اسی لئے وہ آئی ایم ایف پروگرام میں شمولیت کی ابتداء ہی سے مخالفت کر تے رہے ہیں۔ انہوں نے اس خطرے کا اظہار کیا کہ سخت شرائط کے نتیجے میں پاکستان اس پروگرام کو جاری نہیں رکھ سکے گا اور اس کی مشکلات میں اضافہ ہوجائے گا۔ پلان بی پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے ڈاکٹر شیخ کو ملک کی درآمدات میں 7 سے 8 ارب ڈالرز کمی لانے کیلئے جرات مندانہ یا جارحانہ درآمدی اختصار کی پالیسی (ایگریسو امپورٹ کمپریشن پالیسی) کو اختیار کرنے کی تجویز دی اور ادائیگی توازن کے سنجیدہ معاملے پر قابو پانے کا یہی علاج ہے۔ انہوں نے یہ کہتے ہوئے دلیل دی کہ جب کوئی ملک ادائیگی توازن کے سنجیدہ معاملے کا سامنا کر رہا ہوتا ہے تو ڈبلیو ٹی او بھی درآمدات میں کمی کی اجازت دیتا ہے۔ ڈاکٹر خان کا کہنا تھا کہ حکومت کو ملک کی برآمدات میں اضافے پر توجہ دینی چاہئے۔ اور ملک کی سست معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے کیلئے انہوں نے حکومت کو یہ بھی کہا کہ وہ فائلر اور نان فائلر کے جال سے باہر نکلے اور لوگوں کو کاروبار کرنے دے۔ ان کا کہنا تھا کہ اضافی بجلی کی موجودگی میں حکومت کو بجلی زیادہ نرخوں پر بیچنے سے گریز کرنا چاہئے، اس کی بجائے اسے تمام اقسام کی صنعتوں کیلئے کم نرخوں پر بجلی دستیاب کرنی چاہئے۔ ڈاکٹر خان کا کہنا تھا کہ ایک مرتبہ پاکستان آئی ایم ایف میں شامل ہوگیا تو ملک کو تین سال کیلئے فنڈ کی ہدایات پر عمل کرنا پڑے گا اور اس مقررہ میعاد میں حکومت 10 ملین نوکریاں پیدا کرنے اور 5 لاکھ گھروں کی فراہمی کیلئے نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کو کبھی بھی کامیاب نہیں بنا سکے گی۔ انہوں نے ڈاکٹر حفیظ کو یہ بھی مشورہ دیا کہ وہ امریکی ڈالر کی قدر مزید بڑھنے نہ دیں اور رعایتی نرخ میں اضافہ نہ کریں بصورت دیگر رعایتی نرخ میں مزید اضافے سے کمرشل بینک سے 15 تا 16 فیصد شرح سود پر کوئی بھی قرضے نہیں لیتا جس سے ملک میں تمام معاشی سرگرمیاں رکنے کا نتیجہ سامنے آتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رعایتی نرخ میں مزید اضافے سے نجی شعبے کیلئے قرضے کی لاگت میں اضافہ ہوجائے گا۔ ڈالر کی قدر میں اضافے سے پاکستان کی 60 فیصد خام مال کی درآمد، جسے صنعتی پیداوار کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، طرح طرح سے بڑھ گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے برآمدات بڑھانے کے مقصد سے پاکستانی روپے کی قدر 36 فیصد سے زائد تک گرادی ہے لیکن بدقسمتی سے ان میں 11 فیصد تک کمی آگئی ہے۔ ان کے مطابق ایسا کسی ایسے ملک میں ہوسکتا ہے جہاں درآمدی مال 25 فیصد پر کھڑا ہو۔

تازہ ترین