• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تماشا ایک سا ہی ہوتا ہے لیکن دیکھتا ہر کوئی اپنی آنکھ سے ہے۔ کسی آنکھ کو وہ تماشا نہایت دلچسپ اور رنگین لگتا ہے جبکہ کسی اور آنکھ کو وہی نظارہ افسوسناک، قابلِ رحم اور بے رنگ لگتا ہے۔ جمہوریت کے نام پر ہمارے ملک میں ایک میلہ لگا ہوا ہے، جسے بعض سنجیدہ حضرات تماشا کہتے ہیں تو بعض لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ نیا پاکستان ہے۔ نیا پاکستان کا ذکر ہوتے ہی بعض حضرات بے چین اور جذباتی ہو کر اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اِس دعوے کو باطل ثابت کرنے کے لئے دلائل کے ڈھیر لگا دیتے ہیں۔ مرشد کہتے تھے پتر آنکھ کو آلودہ ہونے سے بچائے رکھنا، شیطان آنکھ کو آلودہ کر کے ’’شیطانیت‘‘ کے دروازے کھولتا ہے اور انسان کو لذتوں کی دنیا میں دھکیل دیتا ہے۔ یہ سارا فساد آنکھ ہی کا ہے۔ اگر آنکھ آلودہ نہ ہو، صاف رہے، پاک رہے اور گندگی کے ڈھیر سے دور رہے تو انسان لذتوں کی دنیا کا مسافر نہیں بنتا۔ اِنہی لذتوں اور اِنہی دلربا تماشوں میں سے ایک منظر سیاست کے میلے کا ہے۔ میں اکثر اِس میلے کی جانب سے آنکھ بند رکھتا ہوں لیکن کیا کروں کہ بعض اوقات ’’میلہ گروں‘‘ کا شور اتنا بلند اور ’’کان پھاڑ‘‘ ہوتا ہے کہ بند آنکھ کھل جاتی ہے اور تھوڑی سی آلودہ بھی ہو جاتی ہے۔

کان پھاڑ، شور کس بات پر ہے، یہ فساد کیوں برپا ہے، سیاسی میلہ کئی دھڑوں میں کیوں تقسیم ہو چکا ہے، روز بروز تلخی کیوں بڑھ رہی ہے، سیاست کی ہم آہنگی اور ٹھہراؤ کہاں چل بسا ہے؟ یقیناً آپ سارا منظر غور سے دیکھ رہے ہیں۔ کچھ لطف اندوز ہو رہے ہیں، کچھ بغلیں بجا رہے ہیں اور کچھ افسوس سے ہاتھ مل رہے ہیں اور اُن کے چہروں پر ہوائیاں اڑی ہوئی ہیں۔

خاک اڑ رہی ہے اور میں نے اپنی آنکھ کو دھول سے بچانے کے لئے بند کر رکھا ہے۔ یہ سوالات جو میں نے آپ سے پوچھے ہیں، یہ خودبخود میرے ذہن میں ابھرے ہیں، ورنہ اِس میں میری آنکھ کا کوئی قصور نہیں۔ میں نے اِن تمام سوالات سے آنکھیں پھیر لی ہیں کہ یہ سوالات پاکستان کے عوام اور ووٹروں کے لئے ہیں۔ عوام سوچیں اور رائے دہندگان چند لمحوں کے لئے زندگی کی ہیرا پھیری سے نکل کر غور کریں کہ یہ سارا ہنگامہ کیوں بپا ہے؟ اِس ہنگامے، جمہوری میلے میں شور شرابے اور الفاظ کی جگہ زبان سے پھٹتے بموں کا ذمہ دار کون ہے؟ آخر جمہوری میلے کے اداکار، دیرینہ کھلاڑی، پیدائشی لیڈران، تبدیلی کے دعوے دار اور تبدیلی کا پول کھولنے والے آسمانوں سے نہیں اُترے۔ اُنہیں کسی نے منتخب کیا، کسی نے بھنگڑے ڈالے، کسی نے اپنی جیبیں گرم کیں، کسی نے خاندانی تعلقات اور کسی نے برادری کا بھرم رکھنے کے لئے ووٹ دیئے۔ ووٹ دینے والوں کو ہر امیدوار کے ماضی، حال، کارناموں، اہلیت، اخلاقی حسن اور کردار کے جلوؤں کا اچھی طرح علم تھا لیکن ووٹ دیتے وقت ہم عام طور پر آنکھ بند کر لیتے ہیں اور وقتی لہر اور وقتی جوش کے تحت پرچی پر نشان لگا دیتے ہیں۔ کوئی پانچ فیصد جماعتی وفاداری اور جماعتی قیادت کے اسیر ہوتے ہیں، دس پندرہ فیصد نعروں کے فریب کا شکار ہو جاتے ہیں، دس بارہ فیصد برادری، ذات، علاقائی نسبت اور مقامی اثر و رسوخ کی زنجیر میں جکڑے ہوتے ہیں۔ کبھی اُن سے پوچھیں، آپ میں سے کتنے حضرات نے امیدوار کے کردار، قابلیت، پاک و صاف ماضی اور اخلاص کو ووٹ دیئے تو وہ بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔ جس طرح آج کل سیاسی و جمہوری میلے کے مختلف دھڑے بغلیں بجا رہے ہیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ساری صلاحیتیں استعمال کر رہے ہیں، سارے کرتب آزما رہے ہیں اور اپنی سطحی فتح پر نعرے لگا رہے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ اس طرح کی سیاست میں فتح دراصل ذات یا جماعت کی فتح ہوتی ہے لیکن نظام یا جمہوریت کی شکست ہوتی ہے۔ اس حیرت کدے میں مجھے یہ سن کر ہرگز ہرگز حیرت نہیں ہوتی کہ یہ جمہوریت کا حسن ہے۔ ہاں کبھی کبھی یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہوں کہ اگر یہ حسن ہے تو پھر بدصورتی کیا ہوتی ہے؟ چلئے چھوڑیئے اِس موضوع اور بحث کو کہ اب کے تماشا اور ہے، مناظر اور ہیں۔

اگرچہ میں اپنی آنکھ کو آلودہ ہونے سے بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتا ہوں کیونکہ بابا جی کہتے تھے پتر گندگی کے بدبودار ڈھیر پر نظر پڑنے سے وضو مکروہ ہو جاتا ہے لیکن کیا کروں کہ سمندر میں رہ کر دامن کب تک خشک رکھوں۔ آخر لذت زندگی کی سب سے بڑی کشش اور خوبصورت ترین فریب ہے۔ لذت نہ ہوتی تو بیچارا شیطان ہمہ وقت سر پیٹتا رہتا اور اپنی ناکامیوں کے نوحے لکھتا رہتا۔ بابا بلھے شاہ فرماتے ہیں ’’تیریاں ربا توں ہی جانیں، کی ایہہ کھیڈ بنائی‘‘ (میرے رب صرف تو ہی جانتا ہے یہ کھیل کیا ہے) مجھ اَن پڑھ کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آزمائش کے عمل کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے لذت پیدا کر دی تاکہ شیطان لذت کے لشکارے دکھا کر انسانوں کو ورغلا سکے۔ لذت نہ ہوتی تو آزمائش کیونکر ہوتی؟

بات چلی تھی جمہوری میلے میں شور اور سیاسی تفریق کی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ میں جب نیم وا آنکھ سے یہ تماشا دیکھتا ہوں تو مجھے سارے فریق خوشی سے بغلیں بجاتے نظر آتے ہیں، ماسوا ئےعوام یا ووٹروں کے جو ابھی تک سوچ میں ڈبکیاں کھا رہے ہیں۔ اُنہیں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ میلہ کس کا کمبل چوری کرنے کے لئے سجایا گیا ہے؟ بغلیں بجانے اور خوشیاں منانے کا سلسلہ گزشتہ چند روز سے زور پکڑ گیا ہے اور اُس کی حالیہ وجہ کابینہ میں رد و بدل ہے۔ کابینہ کا بننا اور ٹوٹنا یا رد و بدل معمول کی بات ہے لیکن اِس میں ہمارے سیاسی کاریگروں نے اپنی اپنی تسکین اور خوشی کا پہلو ڈھونڈ لیا ہے۔ خوشی کا پہلو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی دعویٰ کر رہی ہے موجودہ کابینہ کے چھ اراکین کا تعلق پی پی پی سے ہے حتیٰ کہ معاشی بحران سے نکلنے کے لئے بھی نئے پاکستان میں پی پی پی کے سابق وزیر خزانہ کا سہارا لیا گیا ہے۔ پی پی پی کے بغلیں بجاتے ترجمان فرماتے ہیں کہ یہ ’’بڑبولا‘‘ وزیر کبھی زرداری کے قدموں میں بیٹھتا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے ترجمان اس دعوے پر بغلیں بجا رہے ہیں کہ نئے پاکستان نے بہت سے وزراء ہمارے لئے ہیں۔ مشرف صاحب بیرون ملک سگار سلگا کر خوشی سے نڈھال ہیں کہ عمران نے میرے بہت سے ساتھیوں کی بیساکھیاں بنالی ہیں اور میرے ’’یارِ غار‘‘ کو اہم وزارت عطا کر دی ہے۔ گنتی کرنے والے تجزیہ کار پوچھتے ہیں کہ ان پالیسی سازوں میں نئے چہرے کتنے ہیں؟ کیونکہ نئے چہرے ہی نئے پاکستان کی علامت بن سکتے ہیں۔ نظریاتی یا جماعتی وفاداری اور اصول پسندی کی اس یلغار اور وزارتی ہوس کا غدر دیکھ کر میں ووٹروں سے پوچھتا ہوں کیا آپ نے پرچی ڈالنے سے پہلے امیدوار کے کردار کا اچھی طرح مطالعہ کیا تھا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم خود ہی اس صورتحال کے ذمہ دار ہوں؟

تازہ ترین